خود کلامی اے جانِ حیات

تمھارے وعدے تمھارے دعوے سب کیا ہوئے
تم تو کہتے تھے! تم بن جی نہ پاؤں گا
ہجر کی سختیاں سہہ نہ پاؤں گا
دیکھو مجھے کبھی چھوڑ نہ جانا
تم روٹھ جاتی ہو تو میری جان جاتی ہے
سوچو میں تم بن کیسے جی سکوں گا؟
تمھارے سنگ زندگی حسین لگتی ہے
تم پاس نہیں ہوتیں دھڑکنیں تھمنے لگتی ہیں
تمھاری باتیں تمھاری مُسکان
مجھے نئی زندگی دیتی ہے
لیکن یہ کیا؟
آج تمھیں بڑی مُدت بعد دیکھا
تم بالکل بھی نہ بدلے تھے
وہی چہرہ وہی رنگ و روپ
وہی شوخی وہی ہنسی
ایک پل کو میری سانسیں تھم سی گئیں
تم اُس نازنیں کا ہاتھ تھامے چلے جارہے تھے
تم نے اس کے کان میں جانے کیا سرگوشی کی
کہ! اُس کا چہرہ شرم سے گُلنار ہوگیا
اور تمھارا ہلکہ سا قہقہہ فضا میں بلند ہوا
میرا چہرہ اُس زرد پَتے کی مانند ہوگیا
جس کو پیڑ بھی اپنی شاخ سے گرا دیتا ہے
اور وہ زرد پَتا زمیں بوس ہو کر
اپنی تباہ حالی پہ رو بھی نہ پاتا ہو
میری آنکھیں اُس مریض کی جیسی ہوگئیں
جس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرنے والی ہو
زبان گنگ ہوچکی تھی
لب خُشک ہو گئے تھے
میرے قدم اُٹھائے نا اُٹھتے تھے
زمیں نے قدموں کو جکڑ لیا تھا
تمھارے قہقہے میرے کانوں میں گونج رہے تھے
جیسے میری محبت کا مذاق اُڑا رہے ہوں
میری نگاہیں ساکِن ہوچکی تھیں
تمھیں دور جاتا دیکھتی رہیں
جانتے ہو اے جانِ حیات!!
بے موت مار گئے ہو تم
ایک آس ایک اُمید, بھرم
جو ہمیشہ مرے جینے کی وجہ تھے
سب توڑ گئے ہو تم!!
تم نے آسماں سے زمیں پہ لاپٹکا ہے مجھے
میرا بھرم جو قائم تھا ٹوٹ کے کرچی کرچی ہوچکا ہے۔۔
اعتبار کی دھجیاں بکھر چکی تھیں
آنکھیں کُھل چکی تھیں
لیکن بہت دیر ہوچکی تھی
اے جانِ حیات!!
بہت دیر ہوچکی تھی
کیوں کیا تم نے ایسا
ہے کوئی جواب تمھارے پاس؟
اے جانِ حیات!!

 Atia Rani

Atia Rani

شاعرہ : عطیہ رانی چیف ایگزیکٹو کشمیر رائٹرز فورم پاکستان