اسلام آباد : (جیو ڈیسک) سپریم کورٹ نے تمام اداروں کو آئندہ کسی بھی شہری کی غیر قانونی حراست سے روک دیا۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر ایجنسیوں نے ملک چلانا ہے تو آئین میں ترمیم لے آئیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے خفیہ اداروں کی تحویل میں قیدیوں کی ہلاکت سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ آئی جی اسلام آباد بنیامین نے دس مارچ کو لاپتہ ہوکر واپس آنے والے نوجوان عمر ولی کے بارے میں رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ ایجنسیوں سے عمر ولی کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی درخواست کی گئی تھی کہ وہ گھر واپس آگیا۔ ابھی یہ طے کرنا باقی ہے کہ عمر ولی کس ایجنسی کے پاس تھا۔
دوران سماعت عمر ولی بھی والد کے ہمراہ کمرہ عدالت میں موجود تھا۔ عمر کے والد نے بتایا کہ بیٹے کو ان کے سامنے سے اٹھایا گیا تھا۔ وکیل طارق اسد ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ایسے واقعات کا پولیس مقدمہ تک درج نہیں کرتی۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ حکومت اتنی بے بس کیوں ہے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہر کوئی لاپتہ افراد کا معاملہ حل کرنے کا کہتا ہے مگر حل ڈھونڈا نہیں جاتا، لاپتہ افراد کی تعداد کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے۔ ملک دشمن اور مجرموں کیلئے کوئی رعایت نہیں، ایجنسیوں کے لوگ بھی ہمارے بھائی ہیں لیکن دائرے میں رہ کر کام کریں۔ اگر کوئی شخص ملک دشمن ہے تو اسکے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔
جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیئے کہ جنگل کے قانون میں بھی کچھ قواعد ہوتے ہیں، کسی کو ماورائے آئین اقدام کی اجازت نہیں دیں گے، اگر ایجنسیوں نے ملک چلانا ہے تو آئینی ترمیم لے آئیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی کو غیر قانونی حراست میں رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ تمام اداروں کو بتا دیں کہ آئندہ کسی بھی شہری کو غیر قانونی حراست میں نہ رکھا جائے۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو ہدایت کی کہ دو ہفتے میں مفصل رپورٹ پیش کریں کہ عمر ولی کو کس نے اور کیوں اٹھایا تھا بعد میں سماعت ملتوی کر دی گئی۔