آبی مسائل کے حوالے سے پاکستان انتہائی خطرناک صورت حال سے دوچار ہے۔پاکستان میںکبھی بارشیں کم ہونے کی وجہ سے قحط سالی کی صورت حال بن جاتی ہے توکبھی بارشیں زیادہ ہونے سے سیلاب آتے ہیں جس سے لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ اور اربوں روپوں کا ملک کو نقصان ہوتا ہے۔ صوبوں کے مابین دریاؤں کے پانی کو تقسیم کرنے والے ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی ارسا کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آبی ذخائر نہ بننے کی وجہ سے سالانہ 21 ارب ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں شامل ہو جاتا ہے۔پانی ذخیرہ کرنے کا بندوبست نہ ہونے وجہ سے پاکستان سے سالانہ 29 ملین ایکٹر فٹ پانی سمندرمیں گرتا ہے جبکہ دنیا بھر میں یہ اوسط شرح 8.6 ملین ایکٹر فٹ ہے۔ارسا نے سینٹ کے پالیسی فورم کے اجلاس میں بتایا تھا کہ پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے منگلا ڈیم جیسے تین بڑے ڈیمز کی تعمیر وقت کی اہم ضرورت ہیںجبکہ پاکستان میں پہلے سے تعمیرآبی ذخائر میں مٹی بھرنے سے انکی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی کم ہورہی ہے۔دوسری جانب آئی ایم ایف، یو این ڈی پی اور دیگر اداروں کی مختلف رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اور 2040 تک پاکستان خطے کا سب سے کم پانی والا ملک بن سکتا ہے۔
پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے ۔پاکستان کو ملکی اور غیرملکی اداروں کی جانب سے گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل مستقبل قریب میں پانی کی قلت اور دشت شدتی کی صورت حال سے آگاہ کیا جارہا ہے مگربدقسمتی سے ہماری سابقہ حکومتوں نے اس مسئلہ پر خاص توجہ نہیں دی ۔لیکن جون 2018 میں آبی بحران و مسائل کو سنگین جانتے ہوئے اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیا اور ڈیمز کی تعمیرکا حکم دیتے ہوئے ڈیم فنڈ بھی قائم کیا۔ڈیمز کی تعمیر سے متعلق چیف جسٹس کے احکامات کی حمایت اس وقت کے اپوزیشن لیڈر عمران خان نے بھی کی ۔ عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد بھی آبی ذخائر (ڈیمز) کی تعمیر کے عزم کو دھرایا۔ عمران خان صاحب نے آبی وسائل ومسائل کو بہتر کرنے کیلئے 25اکتوبر 2018 کو پہلا قومی آبی کونسل کا اجلاس طلب کیا اور تمام صوبوں سے مل کر قومی آبی مسائل کو حل کرنے پر زور دیا۔عمران خان صاحب کی سنجیدگی تھی کہ اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعدہی 2مئی 2019کو مہمند ڈیم کا سنگ بنیاد رکھ دیا ۔مہمند ڈیم 2.2بلین ڈالر کا منصوبہ ہے جس پرتا حال کام جاری ہے۔
عمران خان نے مہمند ڈیم کے سنگ بنیاد رکھنے بعد مزید ڈیمز کی تعمیر کا عزم ظاہر کیا تھا جس کاعملی ثبوت یہ ہے گزشتہ دنوں13مئی2020 کو دیامربھا شاڈیم کے تعمیراتی معاہدوں پر دستخط بھی ہوگئے ہیں۔دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے 442ارب روپے کا ٹھیکہ پاور چائنا اور پاک فوج کے زیر انتظام چلنے والے ادارے فرنٹئیر ورکس آرگنائزیشن(FWO) کو دیا گیا ہے۔کنٹریکٹ میں ڈائی ورژن سسٹم، مین ڈیم، پُل اور پن بجلی گھر کی تعمیر شامل ہے۔اس ڈیم سے بجلی پیدا کرنے کے لیے 12 ٹربائن لگائی جائیں گی اور ہر ایک ٹربائن سے متوقع طور پر 375 میگا واٹ بجلی جبکہ مجموعی طور پر 4500 میگا واٹ بجلی حاصل ہو گی۔دیامر بھاشا ڈیم پر مجموعی لاگت کا تخمینہ 1406.5 ارب روپے ہے اور منصوبہ 2028 میں مکمل ہونے کا امکان ہے۔اس ڈیم کی تعمیر سے ملکی آبی ذخائر میں کافی حد تک بہتری آئے گی چیئرمین واپڈا کے مطابق دیا مر بھاشا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 8.1 ملین ایکڑ فٹ ہوگی جب کہ ڈیم میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحت 4500 میگاواٹ ہوگی جس سے نیشنل گرڈکو سالانہ 18 ارب یونٹ بجلی ملے گی۔دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے 3ملین ایکڑ زرعی اراضی بھی سیراب ہوسکے گی جبکہ ہر سال سیلاب کی آفت سے نمنٹنے کیلئے حکومت کے اربو ں روپوں کے اخراجات کی بچت بھی ہوگی۔
ڈیمز کی تعمیر سے سیمنٹ،سٹیل انڈسٹری کو فروغ ملے گا اور ساتھ ساتھ کئی ہزار افراد کو روزگا ر بھی ملے گا ۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی ڈیمز کی تعمیر میں مقامی مادی، مہارت اور افرادی قوت کے استعمال کو ترجیح دینے کا بھی حکم دیاہے۔مہمندڈیم پر تعمیراتی کا م جاری ہے اور دیامربھاشا ڈیم کا عنقریب سنگ بنیاد رکھ دیا جائے گا ۔جو کہ ایک خوش آئند بات ہے لیکن خدشات برقرار ہیں کہ کہیںپہلے کی طرح پھر کوئی رکاوٹ نہ آجائے کیونکہ دیا مر بھاشا ڈیم پر کام کا آغاز پہلے بھی کئی بار ہوچکا ہے ۔اس منصوبے کا سب سے پہلے آغاز 1998 وزیر اعظم محمد نواز شریف دور میں ہوا۔ آٹھ سال بعد 2006 میں اس وقت کے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے ڈیم کی تعمیر کادوبارہ اعلان کیا اور ایک بار پھر اس منصوبے کا افتتاح ہوا جو اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے کیا تھا۔
جبکہ اس ہی ڈیم کا ایک اوربار افتتاح2011میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی بھی کرچکے ہیں لیکن حکمرانوں کی عدم ترجیح اور فنڈز کی قلت کی وجہ سے یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔لیکن اس بار حکمرانوں اور اداروں کو حالات کی سنگینی اور وقت کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے آبی ذخائر کے منصوبوں کوہر حال میںجلد از جلد مکمل کرنا چاہیے کیونکہ بھارت پانی کو پاکستان کے خلاف آبی دہشت گردی کیلئے استعمال کررہا ہے۔ مون سون میں پانی چھوڑ کر پاکستان کو سیلاب میں ڈبونے اور فصلوں کو پانی کی ضرورت کے دنوں میں دریائوں کے رخ موڑ کر پاکستان کو خشک سالی سے دوچار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مون سون میںہمارے شہر کے شہر پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔ اگر ہمارے ملک میں بھی آبی ذخائرموجود ہوتو برسات اور سیلاب کے پانی کو ذخیرہ کرکے استعمال کرسکتے ہیں۔ بھارت کے ناپاک عزائم اور آبی قلت سے محفوظ رہنے کیلئے کالا باغ ڈیم سمیت مزیدنئے آبی ذخائر کی تعمیر ناگزیر ہو چکی ہے۔