بارہ ربیع الاول مبارک دن ایک عظیم دن عظیم تر خوشیاں منانے کا وعدہ نبھانے کا اُس ہستی سے جو چودہ سو سال پہلے نور بن کر اس دینا میں جلوہ افروز ہوئے اور تمام عالم کے لئے رحمت بن کر آئے اور پھر اپنی نورانی کِرنوں سے سارے عالم کو منور کر دیا۔ ہاں وہ مبارک ہستی جس کی غلامی پہ ناز جسکے امتی ہونے پر فخر محبوبِ خدا آمنہ کے پھول خیرالانبیاء شافع محشر نبی آخرالزماں رحمت العالمین حضور سرورِ کائنات جنابِ نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول سارے عالم کے رہنماء بن کر اس دنیا میں تشریف لائے اور اس دینا سے جہالت کے اندھیروں کو دور کر کے علم کی شمع روشن کی اور باطل قوتوں کو روئے زمین سے مٹاکر توحید کا پرچم بلند کیا اللہ کے پیغام کو پوری دنیا میں پھیلایا اور تمام انسانوں کو حق و سچ کی تلقین کی اور ہمیں جینے کا طریقہ سیکھا یا زندگی کا مقصد بتایا گمراہیوں سے نکال کر سیدھا راستہ دکھایا وہ راستہ جو اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا۔
لیکن آج ہم ذرا اپنے اوپر نظر ڈالیں تو کیا ہم اُس راستے پر ہیں جس کا ہم نے جناب ِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وعدہ کیا تھا۔ وہ سبق جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں پڑھایا تھا کیا ہمیں وہ سبق آج یاد ہے۔ آج ہم عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں کیا ہم واقعی عاشقِ رسول ہیں کیا ہم واقعی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق ہیں ، اگر ہم واقعی عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو ہمارے چہروں پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کیوں نظر نہیں آتی ۔آج ہم اپنے اوپر غور کریں تو ہم صبح اٹھتے ہی سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو اپنے چہروں سے صاف کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو اپناتے ہوئے ہمیں شرم محسوس ہوتی ہے اور پھر ہم دعویٰ کر تے ہیں عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنے کا۔
Hazrat Muhammad S.A.W
ذرا خود بتائیں کہ جس سے ہم محبت کا دعویٰ کرتے ہوں اور پھر اس کی بات نہ مانیں تو کیا ایسے میں ہماری محبت سچی ہوگی اگر ہم جنابِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے دعویدار ہیں تو ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام سنت پر عمل کر ہو گا۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ حق و سچ کی تلقین کی ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سچائی پر قائم رہو سچائی میں نجات ہے۔ پھر کیوں آج ہم میں سچ بولنے کی طاقت نہیں ہے ہمارے پیارے نبی سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو ہمیں جینے کا طریقہ بتایا کیا آج ہم اس طریقے پر عمل پیرا ہیں اگر ہیں تو پھر کیوں آج ہم ناکامیوں سے دوچار ہیں۔کیا ہم وہ درس بھول گئے جوآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے دیا تھا شاید بھول گئے ورنہ آج ہم یوں گمراہیوں میں نہ گھرے ہوتے۔ آج ہم عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن عمل میں ہم بالکل زیرو ہیں اللہ کے رسول جنابِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ِشریف سے کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچی مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ اخلاق کی تائید کرتے تھے۔
جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کی محفل میں تشریف لاتے تو اتنی شائستگی سے سلام عرض کرتے کہ اگر کوئی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنھہ نیند میں ہوتے تو ان کی نیند میں کوئی خلل نہ پڑتا اور جو صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنھہ جاگ رہے ہوتے وہ بڑی خوش اسلوبی سے سلام کا جواب دیتے یہ تھا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ لیکن آج ہم کیا کر رہے ہیں رات دیر تک محفلِ میلاد میں لاؤڈ اسپیکر کا کھلا استعمال بغیر اس کی پرواہ کئے کہ ہمارے اس عمل سے ہمارے مسلمان بھائی جو سورہے ہیں یا جو گھروں میں بیٹھے آرام کررہے ہیں انہیں کوئی تکلیف تو نہیں پہنچتی۔ محفلِ میلاد کا انعقاد ہم صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کی سنت سے بھی لے سکتے ہیں اور ان کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ہماری کوشش ہونی چاہیئے کہ محفلِ میلاد کا انعقاد بعد نماز عشاء شروع کرکے رات دیر ہونے سے پہلے ختم کردی جائے تاکہ یہ مقدس محفل پر نور محفل کسی کے لئے تکلیف کا باعث نہ بنے ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا رب تم پر رحم کرے گا۔
Khana Kaba
ہمیں رب تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیئے کہ اس نے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی ہونے کا شرف بخشا اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت گزاری میں اپنا سب کچھ قربان کر دیں اور صرف و صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہوکے رہیں اسی میں ہماری نجات ہے۔ ایک جگہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ:جنابِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنھہ سے فرمایا اے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھہ مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری دنیا سے بڑھ کراپنے بیوی بچوں سے بڑھ کر اپنی دولت و جائیداد سے بڑھ کر دنیا کی تمام عیش و عشرت سے بڑھ کر غرض یہ کہ سب سے بڑھ کر سوائے اپنی جان کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھہ تم مومن نہیں ہوئے جب تک تم مجھے اپنی جان سے بھی بڑھ کر محبت نہ کرو۔
یہ سن کر عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنھہ نے فوراً عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بات ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اپنی جان سے بڑھ کر عزیز ہیں اس بات پر جناب ِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھہ اب تم مومن ہو۔ اب آپ خود ہی اندازہ کریں کہ ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کتنی محبت ہے ایک ہمارے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کی محبت و جان نثاری تھی اور ایک ہم ہیں کہ صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک اورجگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ کوئی بھی مسلمان مومن نہیں بن سکتا جب تک وہ مجھے اپنی جان سے بڑھ کر نہ چاہے۔ میرے معزز قارئین بارہ ربیع الاول خوشی کا دن ہے سب سے اہم دن سب دنوں سے بڑھ کر عہدِ وفا کا دن آج کے دن آؤ یہ عہد کریں ہماری ہر بات ہمارا ہرعمل جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق ہو گا۔
ہم اپنے چہروں کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق بنائیں گے نماز کا پابندی سے اہتمام کریں گے خوشی منائیں گے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق غم میں شرکت کریں گے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق ہمارا اٹھنا بیٹھنا سونا جاگنا غرض یہ کہ ہمارا ہر عمل جنابِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق ہوگا اور تب جا کر ہم سچے عاشقِ رسول کہلانے کے حقدار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین۔