اسلام آباد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ آئین پاکستان کے رکھوالے کی حیثیت سے جج صاحبان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اداروں اور اتھارٹیز کے اقدامات پر آئین کی بالادستی رکھنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے، وہ دن گئے جب ملکی استحکام کا تعین میزائلوں اور ٹینکوں سے ہوتا تھا۔ اسلام آباد میں ساتویں مینجمنٹ کورس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ کی بناوٹ،اختیارات اور دائرہ کار آئین میں طے کردہ ہیں، قومی ادارے چلانے کیلئے تربیت یافتہ بیورو کریسی کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ معاشی و سماجی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے قابل بیورو کریسی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے رکھوالے کی حیثیت سے جج صاحبان پر بھاری ذمہ داری ہے، اداروں اور اتھارٹیز کے اقدامات پر آئین کی بالادستی رکھنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ وہ دن گئے جب ملکی استحکام کا تعین میزائلوں اور ٹینکوں سے ہوتا تھا۔ جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ عدلیہ پرانی غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئے نئی تاریخ رقم کررہی ہے، بنیادی حقوق کے تحفظ اور قانون کی حکمرانی قائم کررہے ہیں، آج کے دور میں قومی تحفظ کے نظریات تبدیل ہورہے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے 6 سوالات کئے کہ کیا ہم صلاحیت اور محنت کی قدر کرتے ہیںِ؟، کیا قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کے اصول کا اطلاق صحیح ہورہا ہے؟، کیا ملک کے شہریوں کو نظام پر اعتماد ہے؟، کیا شہری سمجھتے ہیں کہ انہیں خوابوں کی تعبیر شفاف اور درست طریقے سے مل رہی ہے؟، کیا موجودہ نظام میں طاقت ہے کہ بددیانتوں اور منافع خوروں کی حوصلہ شکنی کرے؟، کیا ہمارے پاس ایسا نظام ہے جہاں دیوانی اور ملکیت کے حقوق محفوظ ہیں؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر سوالات کا جواب ہاں میں ہے تو کہہ سکتے ہیں قواعد و ضوابط شفاف اور درست ہیں۔