اسلام آباد … سپریم کورٹ نے ڈاکٹر ارسلان افتخار کے خلاف قومی احتساب بیورو میں جاری تحقیقات کو واپس لے کر سابق پولیس آفیسر ڈاکٹر شعیب سڈل پر مبنی کمیشن کو دیدی ہیں، عدالت نے نیب کو مشترکا تحقیقات کیلئے اٹارنی جنرل کا خط عدالتی حکم سے تجاوز قرار دیتے ہوئے ان کے طرز عمل پر انہیں نوٹس بھی جاری کردیا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف پر مشتمل بینچ نے ارسلان افتخار کے نظرثانی کیس کی سماعت کی۔
Supreme Court of Pakistan
اس موقع پر ارسلان افتخار وہاں موجود تھے مگرملک ریاض یا ان کے وکیل اور اٹارنی جنرل نہیں تھے۔ جسٹس جواد خواجہ نے عدالتی حکم سناتے ہوئے کہاکہ اٹارنی جنرل عرفان قادر کے ملک ریاض کا وکیل رہنے کی بات چھپائی گئی، پیشہ ورانہ طور پر کسی کا وکیل رہنا الزام نہیں،لیکن الزام یہ تھا کہ اٹارنی جنرل نے کیس کی سماعت میں اس تعلق کا اظہار نہ کیا، اٹارنی جنرل کو یہ اختیار نہ تھا کہ وہ نیب کو پولیس و ایف آئی اے کی خدمات لینے کا کہتے، نیب کی غیرجانبداری، اٹارنی جنرل سے براہ راست احکامات لینے سے متاثر ہوئی، آرڈر کے مطابق اٹارنی جنرل کا ماضی میں کردار بھی ہدف تنقید رہا ہے، کیس میں عدالتی دلچسپی سے متعلق اٹارنی جنرل کے ریمارکس بہت حساس معاملہ ہے، عدالتی حکم پر اثرانداز ہونے سے متعلق اٹارنی جنرل کے طرزعمل پر ان کو نوٹس بھی جاری کیا جارہا ہے۔
عدالت نے لکھا کہ نیب کے رجسٹرار سپریم کورٹ کو طلبی کے خطوط، طے شدہ عدالتی فیصلے کے خلاف تھے۔ آرڈر میں وفاقی پولیس کے آفیسرز فیصل میمن اور طاہر بشیر کے ملک ریاض سے تعلق کی تصدیق کرتے ہوئے ان کے خلاف تحقیقاتی کمیشن کو بھی کارروائی کا حکم دیا۔ شعیب سڈل کمیشن کو جوڈیشل اختیارات دیتے ہوئے اس سے 30 دن میں رپورٹ طلب کی گئی ہے، مقدمہ کے پس منظر کے مطابق ملک ریاض کی طرف سے ارسلان افتخار کو رقوم دینے اور بیرون ملک دورے کرانے کے الزامات پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی تھی۔ عدالت نے اس معاملے کو مناسب تحقیقات کیلئے حکومت کے پاس بھجوادیا تھا، پھر اٹارنی جنرل کے خط پر نیب نے وفاقی پولیس، ایف آئی اے اور نیب حکام پر مشتمل مشترکا ٹیم تشکیل دی، اس پر ارسلان افتخار نے اعتراضات اٹھائے اور سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کی۔ اس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ مشترکا ٹیم میں شامل عہدے دار ملک ریاض کے ساتھی ہیں، عدالت نے تحقیقاتی عمل پر حکم امتناعی جاری کیا تھا، عدالت نے 2 روز قبل اس کیس کی سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا ۔