ہیمنگوئے 21 جولائی 1899 کو شکاگو کے ایک قصبے اوک پارک ایلیونس میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ ایک ڈاکٹر تھا جسے بیٹے کی پیدائش کی اتنی خوشی ہوئی کہ اس نے گھر کے باہر بگل بجا کر اس بات کا اعلان کیا۔
ہمینگوئے کی ماں ایک اوپرا سے وابستہ تھی جہاں وہ میوزک کے بارے میں پڑھا کر پیسے کماتی۔ اس کا مذہب کی طرف رجحان زیادہ نہ تھا۔ ماں کا خیال تھا کہ ہمینگوئے بھی میوزک کی طرف راغب ہوگا لیکن ہمنگوئے گھر سے باہر، اپنے والد کے ساتھ شکار اور شمالی مشی گن کی جھلیوں اور جنگلوں میں کیمپ لگانے میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا۔ یوں وہ فطرت سے قریب رہنے کی کوشش کرتا۔
تعلیم تعلیم کے لیے اس نے اوک پارک اینڈریو فورسٹ ہائی سکول میں داخلہ لیا سکول کے دور میں اس نے کھیلوں اور تعلیم دونوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ وہ فٹبال اور باکسنگ کے مقابلوں میں حصہ لیتا۔ تعلیمی حوالے سے سب سے زیادہ استعداد کار مظاہرہ اس نے انگریزی کلاسوں میں کیا۔ سکول کے زمانے میں شائع ہونے والے اخبارات اور ائیر بک میں اس کی نگارشات شائع ہوتیں ۔
وہ اس زمانے میں اپنے ادبی ہیرو سے متاثر ہو کر اس کے نام رنگ لارڈنر جوئنیر کے نام سے بھی لکھتا تھا۔ ہائی سکول میں تعلیم پانے کے بعد اس نے کالج کا رخ کیا اور اخبار کنساس سٹی میں بطور رپوٹر بھرتی ہوگیا۔ اخبار کے ساتھ وابستگی تو چھ ماں رہی لیکن تحریر کے حوالے سے اسے جو مشق حاصل ہوئی وہ اس سے حاصل ہونے والے فائدے کا عمر بھر تذکرہ کرتے رہے۔ اور جملوں کی شستہ بناوٹ چھوٹے اقتباسات اور شستہ زبان کا استعمال انہوں نے اخبار سے ہی سیکھا۔
عالمی جنگ چھ ماہ تک رپورٹنگ کے بعد اس نے والد کی خواہش کے برخلاف پہلی جنگ عظیم میں حصہ لینے کے لیے امریکی فوج میں شامل ہونے کی ٹھانی۔ وہ بینائی سے کمزوری کے باعث طبی معائنے میں ناکام ہوا۔ البتہ و ریڈ کراس ایبولینس کا ڈرائیور بن کر جنگ میں شریک ہوگیا۔ اٹلی میں محاذ جنگ پر جاتے ہوئے پیرس میں روک لیا گیا جو کہ اس وقت جرمنی کی بمباری کی زد میں تھا۔
ہیمنگوئے فلوریڈا ہوٹل کے نسبتا محفوظ علاقے میں قیام کے بجائے ، محاذ کے قریب جانے میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا ۔ اٹلی کے محاذ جنگ پر پہنچنے کے بعد اس کو پہلی مرتبہ جنگ کی ستم رانیاں دیکھنے کا موقع ملا۔ اس کی ڈیوٹی کے پہلے روز ایمونیشن فیکٹری میں دھماکہ ہوا۔ ہیمنگوئے کو وہاں سے انسان لاشوں کو نکالنا پڑا۔ اس تجربے کے بعد A Natural History the dead کے نام سے کتاب بھی لکھی۔ موت کے قریب سے دیکھنے کے عمل نے ہمینگوئے کو توڑ کر رکھ دیا۔
آٹھ جولائی 1918 کو فرائض کی انجام دہی کے دوران مورٹرشل لگنے سے زخمی ہوا جس سے بطور ایمولنس ڈرائیور اس کا کیئریر انجام کو پہنچا۔ اس کے علاوہ اس کو گولی بھی لگی۔ زخمی ہونے کے باوجود زخمی اطالوی فوجی کو محفوظ مقام تک پہنچانے کے کارنامے کے نتیجے میں اس کو اطالوی حکومت نے ایوارڈ سے بھی نوازا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا رہا کہ وہ اٹلی کی سرزمین میں پہلی جنگ عظیم کے دوران زخمی ہونے والا پہلی امریکی تھا گو کہ اس امر کے مزید دعوے دار بھی بعد میں پیدا ہوگئے۔
پہلی محبت ہیمنگوئے کو امریکی ریڈ کراس کے ہسپتال میلان میں علاج کے لیے داخل کیا گیا، وہاں اس کے لیے تفریح کے مواقع نہ ہونے کے برابر تھے، وہ جی بھر کر شراب پیتا اور اخبار کا مطالعہ کرکے اپنا وقت گزارتا۔ یہاں اس کی ملاقات اگینزوون کروسکی نامی نرس سے ہوئی اوروہ اس کی محبت میں گرفتار ہوگی۔
ا لیکن اس کے امریکہ پہنچنے پر اس نے طے شدہ منصوبہ کے تحت ، اس کے پیچھے امریکہ آنے کے بجائے ایک اطالوی فوجی افسر سے تعلق استوار کر لیا۔ محبت میں ناکامی کے اس تجربے نے ذہنی طور پر شدید متاثر کیا۔ 1925 میں شائع ہونے والی ہیمنگوئے کی پہلی کہانی A very Short story اسی ناکام محبت کے موضوع پر لکھی گئی ہے۔
جنگ کے بعد جنگ کے بعد ہیمنگوئے اوک پارک دوبارہ آبسا اور 1920 میں وہ اخبار ٹورانٹو سٹار کے ساتھ وابستہ ہوگیا اور بطور فری لانسر ، سٹاف رائیٹر اور غیر ملکی نمائدہ کے طور پر کام کرنے لگا۔ یہیں اس کی دوستی رپورٹر مورلے کلاگن سے ہوئی، مورلے نے اس زمانے میں جب افسانے لکھے تو اس نے ہمینگوئے کو دکھائے تو اس نے انہیں بنظر استحسان دیکھا۔
بعد میں دونوں پیرس میں ایک مرتبہ پھر اکھٹے ہوئے کچھ عرصہ تک ہیمنگوئے شکاگو کے جنوب میں رہا جہاں وہ ٹورانٹو سٹار کے لیے رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ ماہنامے کوآپریٹو کامن ویلتھ سے بطور ایڈیٹر وابستہ تھا۔ تین ستمبر 1921 میں اس کی شادی ہوگئی ۔ ہنی مون کے بعد وہ بیوی کے ہمراہ ایک شکستہ اپارٹمنٹ میں رہنے پر مجبور ہوا۔ ۔ ہیمنگوئے کی بیوی اس قیام گاہ کو زرا بھی پسند نہ رکتی تھی اور اسے تاریک اور پریشان کن قرار دیتی تھی۔
پیرس میں قیام 1921 میں ہیمنگوئے نے اوک پارک اور شکاگو کو چھوڑ دیا اور پریس میں آ بسا ۔ جہاں وہ ٹورانٹو سٹار کے لیے رپورٹنگ کرتا رہا۔ اس زمانے میں اس کا تعارف گرٹروڈسٹین سے ہوا جو اس کی سرپرست بن گئی اور اس نے اسے پریس کی جدید تحریک سے روشناس کرایا۔ یہی امریکی جلا وطن افراد کے اس سرکل کا نقط آغاز تھا جو بعد میں گم شدہ نسلیں کے نام سے جانا گیا۔ ہیمنگوئے نے بعد میں اپنے ناول The sun also riseاور اپنی یاداشتوں کے ذریعے گمشدہ نسلوں کو بہت زیادہ شہرت بخشی۔
اس زمانے میں اس کا ایذرا پانڈ سے بھی رابطہ رہا جسے امیج ازم کا بانی کہا جاتا ہے۔ 1922 میں جیمز جوائس کی شہر آفاق کتاب Ulysses شائع ہوئی۔ امریکہ میں ناول پر پابندی کے بعد ہمینگوئے نے ٹورانٹو میں موجود اپنے دوستوں کے ذریعے ناول کو امریکہ میں پہنچانے کا انتظام کیا۔ ہیمنگوئے نے اپنی یاداشتوں میں جیمز جوائس سے پیرس میں ہونے والی ملاقاتوں کا ذکر کیا۔ 1923 میں پریس سے اس کی پہلی کتاب Three stories and ten poemsشائع ہوئی غیر ملکی نمائندے کے طور پر اسے بے پناہ کامیابی ملی
کینیڈا آمد 1923 میں وہ کینیڈا پہنچا اور پیٹر جیکسن کے قلمی نام سے لکھنا شروع کیا۔ کینیڈا میں ہیمنگوئے کے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا۔ اس زمانے میں اس کے اپنے اخبار کے ایڈیٹر سے اختلافات پیدا ہوگئے اور ہمینگوئے نے ناراض ہو کر استفا دے دیا لیکن اسے منظور نہ کیا گیا اور وہ 1924 کے دوان مسلسل ٹورانٹو سٹار کے لیے لکھتا رہا۔ سٹار کے لیے اس کی تحریریں ڈیٹ لائن ٹورانٹو کے نام سے شائع ہوئیں۔
1925 میں اس کا افسانوی مجموعہ In our time شائع ہوا امریکہ سے شائع ہونے والی اس کی پہلی کتاب تھی ۔ یہ کتاب اس حوالے سے ہیمنگوئے کے لیے بڑی اہم ثابت ہوئی کہ اس کے اختیار کردہ اسلوب کو ادبی برادری نے قبول کر لیا ہے۔ اس مجموعے کی سب سے مقبول کہانی Big two hearted river تھی۔اپریل 1925 میں The great Gatsby شائع ہونے کے بعد اس کی ملاقات ایف سکاٹ فنز گیرالڈ سے ہوئی جو جلد دوستی میں بدل گئی ۔ اب ان کے مباحث اورپنے پلانے کی محفلیں جمنے لگیں۔
دونوں میں مسوادات کا تبادلہ ہوجاتا تھا۔ فرانس میں گزرے ماہ و سال کے حوالے سے اس نے طویل ناول The sun also rises لکھا۔ برطانیہ میں یہ ناول Fiesta کے عنوان سے چھپا ۔ اس ناول کو کسی حد تک خود نوشت کہا جاسکتا ہے۔ جس میں پیرس اور سپین میں آباد امریکیوں کے گروہوں کو دکھایا گیا ہے۔ اس ناول کو یورپ اور امریکہ میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔
دوسری شادی 1927 میں ہیمنگوئے نے ہیڈلی رچرڈسن کو طلاق دے کر پالین فیفر سے شادی کر لی جو فیشن رپورٹر تھی ۔ اس دور میں ہیمنگوئے نے کھتولک ازم کو قبول کیا ۔ اسی برس اس کا افسانوی مجموعہ Men with out women چھپا ۔ اس کتاب میں ہی ہیمنگوئے کی مشہور ترین کہانی The killers بھی شامل تھی۔ 1928 میں وہ بیوی کے ہمراہ فلوریڈا منتقل ہوگیا۔
غم کا سال 1928 کا برس ہیمنگوئے کے لیے بڑا دکھ بھرا تھا کیونکہ اسی برس اس کے والد ذیابیطس کا مریض اور معاشی مشکلات کا شکار تھا۔ اس نے خود کو گولی مار کر زندگی کے بندھنوں سے اذادی حاصل کی۔ وہ اوک پارک پہنچا جہاں اس نے باپ کی تجہیز و تکفین کا بندوبست کیا۔ اس نے جب کیھتولک نظریے کے مطابق اس بات کا اظہار کیا کہ خود کشی کرنے والے جنہم میں جائیں گے تو وہاں نزاعی صورت حال پیدا ہوگئی۔
اس برس ہیمنگوئے کے دوسرے بیٹے پیٹرک نے کنساس میں جنم لیا ۔ بیٹے کی پیدائش بڑی پچیدہ صورتحال میں ہوئی جس کی تفصیلات اس نے اپنے ناول وداع جنگ کے اختتامی صفحات میں درج کی ہیں۔ اس ناول اور بہت سے افسانوں کو اس نے پالین ک والدین کے گھر آرکنساس میں ہی لکھا۔ 1931 میں ہیمنگوئے کا ویسٹ فلوریڈا میں قیام پذیر ہوگیا۔ اب اس جگہ اس نے امریکہ میں پہلی رہائش گاہ قئم کی جس کو بعد میں میوزیم کا درجہ دے دیا گیا۔
سپین کے متعلق تحریریں 1932 میں ہیمنگوئے کی کتاب جو کہ بل فاٹنگ کے موضوع پر لکھی گئی تھی Death in aftermoonشائع ہوئی۔ ہمنگوئے کی سپین کے بارے میں تحریروں میں اسپانوی مصنف پییو بروجا کا گہرا اثر نظرآتا ہے۔ ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے کے بعد وہ بروجا سے ملنے بھی گیا جو اس وقت بستر مرگ پر تھا۔ اس نے اس امر کا اعتراف بھی کیا کہ بروجا اس سے زیادہ نوبیل انعام کا حق دار تھا۔ 1933 میں وہ سیاست کے لیے افریقہ کے کئی ممالک کو گیا اس سفر کے تجربات بھی کئی کتابوں کی صورت میں منظر عام پر آئے۔
ہسپانوی سول وار کی رپورٹنگ ہسپانوی سول جنگ کی نارتھ امریکن نیوز پیپرز الائنس کی طرف سے رپورٹنگ کے لیے وہ 1937 میں سپین گیا ، اس جنگ نے اس کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ہیمنگوئے جو کہ اپنی بیوی پالیون سے شادی کے وقت کیتھولک ہوچکا تھا اب مذہب کے بارے میں تشکک کا شکار ہوا اور چرچ سے باغی ہو گیا ۔ اس کی بیوی کیھتولک ازم کی پرجوش حامی تھی اس لیے وہ فرانکو کی فاشٹ حکومت کی حمایت کر رہی تھی اس کے برخلاف ہیمنگوئے ری پبلیکن حکومت کی حمایت کرتا تھا۔
اس زمانے میں اس نے The Denunciation لکھا جس کا چرچا بہت کم ہی ہوا اس کی اشاعت بھی 1969 میں ممکن ہوئی جب اس کو ہیمنگوئے کی کہانیوں کے مجموعے میں شامل کیا گیا۔
بیوی سے طلاق 1939 میں فرانکو اور قوم پرستں نے ری پبلکن کو شکست سے دوچار کیا اور یوں سول جنگ کا خاتمہ ہو گیا جس کی وجہ سے ہیمنگوئے کو خود اختیار کردہ وطن سے بھی ہاتھ دھونا پڑے ، دوسری جانب بیوی کو طلاق دینے کے باعث وہ ویسٹ فلوریڈا میں اپنے گھر سے محروم ہوگیا۔ طلاق کے کچھ ہی ہفتوں بعد اس نے سپین میں چار سال سے اپنے ساتھ کام کرنے والی مارتھا گیلہوم سے تیسری شادی رچا لی۔
یہ 1940 کی بات ہے اسی برس اس کی اسپین کی سول جنگ کے حوالے سے ناول For Whom the bells tolls شائع ہوا۔ یہ ناول حقیقی واقعات کے تناظر میں ہی لکھا گیا تھا۔ جس میں ایک امریکی فوجی رابرٹ جورڈن جوری پبلک کی جانب سے ہسپانوی فوجیوں سے لڑ رہا تھا۔ اس ناول کو ہیمنگوئے کا اہم ترین ادبی کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم امریکہ دوسری جنگ عظیم میں آٹھ دسمبر 1941 کو شریک ہوا۔ ہیمنگوئے اس جنگ کی کوریج کے لیے کویر میگزین کی طرف سے یورپ گیا۔ جنگ کے بعد ہیمنگوئے The garden of edenلکھنے کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کا یہ تصنیفی منصوبہ برسوں بعد نہایت مختصر شکل میں 1986 میں شائع ہوا۔ ایک موقع پر نہایت ہی مختصر شکل میں 1986 میں شائع ۔ آخر می تین حصوں میں اس کا کتاب لکھنے کا منصوبہ تھا لیکن وہ بوڑھا اور سمندر کے روپ میں ہی اس کو پیش کرسکا۔
نوبل انعام جنگ عظیم کے بعد ہی اس نے خاتون صحافی جس سے اس کی 1944 میں ملاقات ہوئی تھی اس سے شادی کر لی۔ 1954 میں نوبیل انعام ملنے پر اس کو بطور ادیب ساکھ میں بہتر بنانے میں مدد ملی۔ انہیں کئی مرتبہ فضائی حادثوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ جھاڑیوں میں آگ لگنے کی وجہ سے وہ زخمی ہوا جس نے اس گی اجیرن کر دی جس سے وہ نوبیل انعام حاصل کرنے کی غرض سے سٹاک ہوم جانے سے بھی قاصر رہا۔
کیوبا سے وابستگی 1959 میں جب وہ کیوبا میں مقیم تھا انقلاب آیا اور بتیسٹا کی حکومت ختم ہوئی تو بدستور کیوبا میں ہی مقیم رہا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا رہا کہ وہ کاسترو کا حمایتی ہے اور اس کے برپا کیے ہوئے انقلاب کے لیے اس نے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ دوسری جنگ عظیم اور اس کے بعد ایف بی آئی اس کی نگرانی کرتی رہی کیونکہ اس کے بارے میں شبہ کیا جاتا تھا کہ اس کا ہسپانوی سول وار کیدنوں میں جن مارکسی سوچ کے حامل افراد کے ساتھ اس کا تعلق استوار ہوا، وہ اس زمانے میں کیوبا میں دوبارہ سرگرم تھے۔1960 میں اس نے کیوبا کو خیرآباد کہا۔
مشکلات فروری 1960 میں وہ بل فائٹنگ کے بارے میں اپنی کتاب دی ڈیجرس سمر کی اشاعت کے لیے بھاگ دوڑ کرتا رہا ۔ لیکن کوئی بھی پبلشر اس کی کتاب چھاپنے پر رضامند نہ ہوا۔ اس پر اس نے اپنی بیوی کی ایک دوست ول لانگ کی منت سماجت کی جو کہ لائف میگزین کا بیورو چیف تھا کہ وہ اپنے رسالے میں تصاویر کے ساتھ اس کی اشاعت کا کوئی بندوبست کرے۔ بالآخر اس کی مذکورہ کہانی کا پہلا حصہ ستمبر 1960 میں چھپ گیا لیکن وہ رسالے میں اپنے مضمون کے ساتھ چھپنے والی تصویر سے کسی طور مطمئن نہ تھا اس مضمون کا بقیہ حصہ رسالے کے اگلے شمارے میں چھپ گیا۔
صحت کی خرابی 1960 میں وہ بلڈپریشر اور جگر کی بیماری کا شکار تھا اوراس کے ساتھ وہ الیکٹرو کنکولسر تھراپی بھی کروارہا تھا۔ کیونکہ ابھی بھی شدید ذہنی دبا اور مالخولیا کا شکار تھا۔ اس طریقہ علاج سے یاداشت جاتی رہتی ہے۔ اس کا وزن بھی بہت گھٹ گیا اورکہا جاتا ہے کہ اس وجہ سے وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہوا۔
خود کشی 1961 کے موسم بہار میں اس نے خودکشی کی کوشش کی جس پر دوبارہ اس کی ای سی ٹی کی گئی۔ دو جولائی 1961 کو جب اس کی باسٹھویں سالگرہ میں چند ہی ہفتے رہ گئے تھے اس نے سر میں گولی مار خود کو ہلاک کر لیا۔ ہیمنگوئے اپنے دماغی خلل کا ذمہ دار ای سی ٹی کے طریقہ علاج کو گردانتا رہا اس کا کہنا تھا کہ اس کہ وجہ سے اس کی یاداشت ختم ہو گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو اس سے اتفاق ہے اور کچھ ڈاکٹرز کو اس سے اتفاق نہیں۔ ہیمنگوئے کے خاندان میں خودکشی کا رجحان موجود تھا اس کے باپ نے بھی خودکشی کی تھی اور دو بہنوں نے بھی اسی راہ کاانتخاب کیاتھا۔