قسمت نے ایران میں تین دن گزارنے پر مجبور کر سابقہ ورلڈ سُپر پاور کو قریب سے دیکھنے کا اچھا موقع دیا۔آج میرا تیسرا دن ایران کے شہر کیشkish میں ختم ہو رہا ہے۔کیش ایران کا ایک خوبصورت ائس لینڈ ہے جہاں سے جہاز کے ذریعے دُبئی کا راستہ 20 منٹ اور تہران 40 منٹ پر واقع ہے۔کیش کی چاروں طرف پانی ہونے کی بنا تقریبََا سارا امدورفت اور تجارت براستہ سمندر ہوتا ہے اگرچہ اینٹی ایران قوتیں زور لگا کر پابندیوں سے یہاں کے ستون کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ایرانیوں میں چند اچھے صفات کی وجہ سے اج تمام عالم میں اکیلا ہی صحیح مگر ” غیرت ” سے جی رہا ہے اور ان کی یہی غیرت کچھ اقوام کو ہضم نہی ہورہی۔مھجے ایرانیوں میں دو صفات حد سے ذیادہ پسند آئے،پہلا حُب لوطنی اور دوسرا کام کام اور کام۔
ایرانی اپنے ملک کے خلاف ایک حرف سننے کیلئے تیار نہیں اور نہ غلطی سے خود خلاف بولنے کی جُرات کرتے ہیں۔ہم جب بھی ان سے ملتے ہیں یہ اپنے ملک کی گن گاتے ہیں،روزمرہ استعمال کی چیزیں خریدنے میں اپنے ملک کی تیارکردہ چیزوں کو اہمیت دیتا ہے اور یہی ان کی حُب لوطنی اور گریٹر ایران دیکھنے کی سعی ہے۔دوسرا کام کام اور کام،قائداعظم نے ہمیں جو نصیحت کی تھی گویا ہو بہو خلیجِ فارس کی مکینوں نے اپنا کر اپنا دن رات کا معمول بنایا ہے۔ہر وقت کام میں مشغول ہوناان کا اہم مشغلہ ہے۔اس بات کی کھوج کوئی جاوید سے لگالیںجو دُبئی میں ایک ایرانی شاپ میں ڈرائیور ہے،بقولِ جاوید یہ لوگ صرف کام اور پیسہ جانتا ہے اور بس،خود بھی دیر تک کام کرتے ہیں اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو بھی رگڑاتا ہے۔ان کے ہاں کام چور لوگ نہیں چل سکتے کیونکہ ان کو خود دیر تک کام کرنے کی بیماری لاحق ہے۔
کلچر کے لحاظ سے ایرانی ماڈرن خیالات کے حامی ہیں،تقریبََا 95% لوگ پینٹ شرٹ پہنتے ہیں جبکہ کچھ لوگ شلوار قمیص میں بھی نظر اتے ہیں جو اکثریت افغانی یا بَلوچیوں کی ہے اور سبھی لوگ فارسی بولتے ہیں۔ایران میں فارسی کے علاوہ دوسری زبانیں بولنے والوں کی تعداد نہ ہونے کی برابر ہے۔ظا ہری شکل وصورت سے سبھی لوگ خوبصورت اور سمارٹ ہیں لیکن ہنس مُک بلکل نہیں ہے،ہر وقت انکے چہرے serious رہتے ہیں۔سارا ملک پوری نظم وضبط سے بنا ہے،کشادہ سڑکیں،رولز ریگولیشن،سہولیات سے اراستہ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام،ہر طرف صاف سترہ ماحول،صفائی کے لحاظ سے عجب یہ تھا کہ ہر وقت ہمیں ”صفائی کرنے والے” حرکت میں نظر اتے تھے۔اس کے علاوہ ڈرنیج،زیرِزمین بجلی اور پانی کا نظام قابلِ ستائش ہے،کیونکہ حکومت نے اپنے لوگوں کو ہر قسم سہولیات مہیا کی ہے جسکی وجہ سے عوام اپنی حکومت سے بہت خوش ہیں اور صدراحمد نژاد کا نام بڑے عزت سے لیتا ہے۔
یہاں پر استعمال والے کرنسی کا نام ”تومان” ہے لیکن ساتھ ہی ایک چھوٹی کرنسی(ریال)بھی استعمال کی جاتی ہے جسکی قیمت تومان سے ایک ”زیرو” کم ہے۔کیونکہ جزیرہ کیش عرب عمارات کے قریب تر ہے اسلیئے یہاں پر ”درھم”کا بھی استعمال ہے۔ایک درھم کی قیمت 5000 ایرانی ریال اور 500 تومان کے برابر ہے۔ہمیں دیکھتے ہی دوکاندار قیمت درھم میں بولتے تھے۔بین لقوامی پابندیوں کی وجہ سے مہنگائی ذیادہ ہے لیکن عوام نہیں ڈرتے اور کھل کر اپنے حکومت کی سپورٹ کرتے ہیں،پھر بھی ایران کی GDP اچھی ہے،میری ملاقات ایک سیکیورٹی گارڈ سے ہوئی جنکی تنخواہ پانچ لاکھ (500000 ) تومان تھی جو تقریبََا 30000 پاکستانی روپے بنتی ہیں جبکہ پاکستان میں سیکیورٹی گارڈ کی تنخواہ 10000 سے زیادہ نہیں۔مذکورہ سیکیورٹی گارڈ سے میں نے تفصیلی نشت کی۔درست انگلش نہ بولنے کی وجہ سے میں نے تعلیم کا پوچھا تو خاموشی کیساتھ تین اُنگلیاں بنائیں اور سا تھ بولا کہ ایران عراق وار میں میرے بھائی کے مرنے کے بعد میں نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی لیکن مذید ایڈ کرتے ہوئے بولا کہI don,t like war اور یہی ان ایک خاموش میسج ہے باقی دُنیا کیلئے۔
پوری ملک میں اسلامی قوانین نافذ ہیں،خاص کر پردے کے لحاظ سے بڑا پابند ہے۔عورتوں کے لیئے چہرے تک پورا بدن ڈھانپنا لازم ہے،حتٰی کہ باہر سے ائے ہوئے غیر مسلموں کیلئے بھی ایرانی قوانین کا پابند ہونا لازم ہے۔کسی بے پردہ عورت کو اُس وقت تک ائیر پورٹ کے احاطے سے اندر جانے نہیں دیتے جب تک پردے میں نہ ہو،اگر کسی کے پاس اس طرح لباس نہیں ہے تو ائیر پورٹ کے گیٹ پر ان کے لئیے باپردہ لباس کا اہتمام کی جاتی ہے۔ان کے پوری کلچر پر عربی کلچر کے اثرات واضح نظر اتے ہیں لیکن مساجد ایک دوسرے سے دور ہیں،مطلب مسجد میں نماز پڑھنے کے لئیے دور جانا پڑتا ہے۔جمعے کے نماز کیئے ہم پانچ کلومیٹر دور عرَبھا نامی گائوں چَلے گئے جہاں پر ایک خوبصورت اور وسیع مسجد تھا۔خطبے میں امام کے ہاتھوں لکھا ہوا خطبہ نظر ارہا تھا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ اس ملک میں کنٹرول کا نظام موجود ہے یٰعنی پاکستان کی طرح ہر جگہ ہر فرقے اور مسلک کا اپنامسجد،اپنا امام اور اپنی مرضی کا خطبہ دینے کی اجازت نہیں ہے اور یہی ان کی کامیابی کا بڑا ثبوت ہے۔کسی ملک کی طرقی تب تک ممکن نہیں جب تک اس میںتمام حالات کا باقاعدہ کنٹرول نہ ہو۔پاکستان میں ہزاروں مساجد اور مدارس ہیں جہاں پر اپنی مرضی کی ذہین سازی کی جاتی ہے اور پھر اپنی ضرورت کے مطابق استعمال میں لایا جاتا ہے جو دراصل اس ملک کی کمزوری کا اصل بیس ہے۔ تحریر : نعیم اُتمانی