آجکل پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا میں عورتوں کی آزادی اور ان کے حقوق کے بارے میں بہت سی باتیں ہو رہی ہیں کہ عورت کو مردوں کے برابر حقوق اور آزادی دی جائے۔ کیا اسلام میں ان عورتوں کو حقوق اور آزادی نہیں دی گئی، کیا اسلام میں عورتوں کو عزت اور رتبہ نہیں دیا گیا کیا اسلام نے عورت کو خوبصورت رشتوں کے نام نہیں دئیے کیا اسلام نے عورت کو حقوق نسواں نہیں دیے جس کا آج کا میڈیا اور عورت ذکر کرتی ہے’ اسلام نے عورت کو عزت، مقام، رتبہ اورآزادی دی ہے وہ آج تک نہ ہی کسی مذہب اور نا ہی کسی معاشرے نے دی ہے اور نہ ہی کوئی معاشرہ دے سکتا ہے فرق صرف سوچ کا ہے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں اسلام نے جو آزادی عورت کو دی ہے ہمیں اس کامطالعہ کرنا چاہیے نہ کہ مغرب معاشرے کو دیکھنا چاہیے اللہ تعالیٰ نے عورت کو بیٹی بھی بنایا، بہن بھی بنایا، بیوی بھی بنایا اور ماں بھی بنایا اور ماں کے پاؤں کے نیچے جنت رکھ کر عورت کو ایک ایسا اعلیٰ مقام دیا ہے جوکسی دوسرے مذہب میں نہیں ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے لئے ایک گائیڈ لائن بھی دی ہے کہ اگر تم اس کے مطابق اپنی زندگی گزارو گی توتمھاری دنیا و آخرت سنور جائے گی۔ کیا مغرب کی عورت کو وہ آزادی حاصل ہے جو آج سے پندرہ سو سال پہلے اسلام نے دی تھی۔ اگر نہیں تو کیا مغرب کی عورت زیادہ آزاد اور پرسکون ہے نہیں بالکل ایسا نہیں ہے۔
وسیم نذر یہ نہیں ہے کہ عورت ذات کی تذلیل کی جائے ، نہ کہ عورت کو گھر میں قید کر کے رکھ لیا جائے اور نہ ہی یہ ہے کہ اس کو تعلیم حاصل کرنے کا حق نہیں بلکہ میں یہ کہوں گا کہ جب بیٹی پیدا ہو تو اللہ کا شکر ادا کروکیونکہ تمھارے گھر میں اللہ تعالی کی طرف سے ایک رحمت آئی ہے اور اس بیٹی کی پرورش کرو۔ اس کو تعلیم بھی دلائو جیسا کہ اسلام میں ہے کہ تعلیم ہر مسلمان عورت اور مرد پر فرض ہے جب بالغ ہو جائے تو اس کا نکاح کر دو۔ بیوی کو حکم دیا گیا ہے کہ شوہر تمہارا مجازی خدا ہے اگر اللہ کے بعد کسی کو سجدہ کرنے کا حکم ہوتا تو وہ صرف شوہر کوحاصل ہوتا۔ برطانیہ کی ایک خاتون میری واس اسٹون کرافٹ نے ایک کتاب لکھی جس میں آزادی نسواں کے نام پرمطالبہ کیا گیا کہ عورتوں کو مردوں کے برابر آزادی دی جائے ان کو بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے دیا جائے۔اس سے قبل مغرب میں بھی عورت حیا کا پیکر تھی۔ بہرحال مغرب نے بھی اسٹون کرافٹ کے مطالبے کو تسلیم کر لیا اور عورت کو ہر طرح کی آزادی دے دی جس کے نتیجے میں خاندانی نظام اور اخلاقیات کا جنازہ نکلا۔عورت کا سکون برباد ہو گیا،عورت کی جان و عزت کا تقدس ختم ہو گیا، رشتے ناطے میں فرق ختم ہو گیا، عورت صرف کھلونا بن کر رہ گئی جبکہ آج کے دور میں مادی وسائل کے اعتبار سے اہل مغرب ہم سے کچھ آگے ہے مگر دیکھا جائے کیا مغرب کی عورت سکون جیسی نعمت سے مالا مال ہے ہرگز نہیں۔ جن کو نہ تو بھائی ملتے ہیں، نہ باپ اور نہ ہی شوہر۔
ہر ایک کی اپنی کہانی ہے ایک سروے کے مطابق مغرب کی عورت اس معاشرے سے تنگ آچکی ہے اور بیزار ہے، وہ ایک ایسے رشتے کی تلاش میں ہے کہ جو اس کی عزت کر سکے اور اس کی کفالت بھی مگر آج عورت اس خوبصورت گھر نہیں جا سکتی جہاں اس کو بیٹا، بھائی باپ اور شوہرنہ مل سکیں۔ یہ سب کیوں ہے صرف عورت کا بے پردہ ہو کر آزادی سے باہر نکلنا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ عورت کو صرف گھر میں قید کر کے رکھ لیا جائے اور صرف چولہے تک محدود کر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے گھر کو چلانے کی ذمہ داری عورت کو دی ہے اور باہر کی ذمہ داری مرد کواگر عورت باہر روزی کمانے کی نیت سے جانا چاہتی ہے تو جا سکتی ہے مگر ایک شرعی پردے میں آج عورتوں کو حقوق نسواں کے نام پر بے وقوف بنایا جا رہا ہے اور عورت کو کھلونا سمجھ کر اس کو استعمال کیا جا رہا ہے ان کو سڑکوں پر لایا گیا ہے اور سائن بورڈ کی زینت بنا دیا گیا ہے۔ جہازاوں میں ایئر ہوسٹس کی سیٹ ان کے لئے مخصوص بنا دی گئی ہے، دوکانداروں میں سیلز گرلز بنا دیا گیا۔
گویا کہ کوئی بھی کمرشل عورت کے بغیر ادھورا ہے افسوس کی بات یہ کہ اب نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ جب تک ہم عورت کو سڑکوں پر نہیں لائیں گئے، جب تک ان کوآزادی نہیں دیں گئے تو ہمارا معاشرہ ترقی نہیں کر سکے گا یہ فارمولا کس نے پیش کیا اور اس فارمولے کا موجد کون ہے جی یہ فارمولا مغرب کادیا ہواہے جو کہ غیر مسلم ہیں جن کو عورت کے مقام رتبے کا علم نہیں ایک یہ فارمولا ہے اور ایک فارمولا وہ ہے جو اسلام نے دیا ہے کیا مغرب کا فارمولا اسلام کے فارمولے سے زیادہ اچھا ہے یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے اور مشرق کی عورت کو کرنا ہے۔