اسلام کیا ہے؟

Jakarta Indonesia

Jakarta Indonesia

ڈاکٹر نکولاؤس وان ڈیم نے جکارتہ میں قائم قرآن خوانی انسٹی ٹیوٹ میں عالمی سیاست، رجحانات اور اسلام کا کردار، مسلم سکالرز کی علمی ذمہ داری کے موضوع پر ایک لیکچر دیا جس کا خلاصہ ذیل میں دیا گیا ہے۔

صرف یہ وضاحت کر دینا کافی نہیں ہے کہ اسلام درحقیقت کیا ہے بلکہ یہ تفریق کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے کہ کون سی باتوں کا اسلام سے تعلق ہے اور کون سی غلط طور پر اس سے منسوب کی گئی ہیں۔

اسلام اور مسلم عقیدے پر عمل کرنیوالوں کے افعال کے درمیان کیا تعلق ہے؟ میری رائے میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کا بطور مذہب اسلام کے ساتھ بہت کم واسطہ ہے لیکن بہرحال انہیں اس سے منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ جن لوگوں کا ان چیزوں سے تعلق ہے وہ اتفاق سے مسلمان ہیں۔

بعض بنیاد پرستانہ اعمال مسلم افراد یا گروپوں کیطرف سے اسلام کے نام پر کیے جاتے ہیں لیکن مسلمانوں کی اکثریت ان کاموں کی تائید نہیں کرتی اور عموماً ان کو مسترد کر دیتی ہے۔ البتہ انکی نارضامندی اتنی واضح نہیں ہوتی کہ یہ تاثر پیدا کر سکے کہ ایسے افعال کرنیوالے لوگ مسلمانوں کی اکثریت کی نمائندگی نہیں کرتے۔

اسوقت پائی جانیوالی غلط فہمیوں کے پیدا ہونے میں ان تمام عوامل کا ہاتھ ہے۔ ان میں سے بہت سی غلط فہمیوں کا تعلق غلط تصورات سے ہے علمی حقیقت سے نہیں۔ اگرچہ یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ تصورات اسوقت حقائق بن جاتے ہیں جب لوگ یہ یقین کرنے لگتے ہیں کہ انکے تصورات درست ہیں۔

چنانچہ مسلم اور غیر مسلم دونوں طبقوں کے اسکالرز کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان تصورات کو حقیقت کی کسوٹی پر پرکھیں۔ بالخصوص اگر ایسا کرنے سے ایک ایسا عالمی فورم مہیا کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو بہتر تفہیم کیساتھ ساتھ مضبوط بین الثقافتی دوستی قائم کرنے میں بھی مددگار ہو سکتا ہے۔

مغرب میں اسوقت اسلام ایک سلگتا ہوا موضوع ہے۔

donation

donation

نہ صرف وہاں بلکہ خود مسلم دنیا میں بھی گفتگو کا محور ہے۔ اس پر بات کرنیوالے تو بہت ہیں لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو اسکے بارے میں علم بھی رکھتے ہیں اگر آپ کسی عام موضوع مثلا جنوب مشرقی ایشیا میں جمہوریت پر سیمینار منعقد کرنا چاہیں تو اسکے لیے فنڈز اکٹھے کرنا اتنا آسان کام نہیں ہو گا لیکن اگر آپ اس میں اسلام کا لفظ شامل کر کے اسے جنوب مشرقی ایشیا میں جمہوریت اور اسلام کا کردار بنا دیں تو چندہ اکٹھا کرنے میں کامیابی کے امکانات بڑھ جائینگے۔

اس خیال پر زور دینا شاید غلط ہو گا کہ دنیا میں ہونیوالی دہشتگردی اور اسلام کے درمیان کوئی تعلق ہے لیکن یہ خطرہ موجود ہے کہ اسلام کو الزام دھرنے کیلئے استعمال کیا جائیگا۔ جس کیوجہ سے مسلمانوں اور غیر مسلموں یا مسلم ممالک اور غیر مسلم مالک کے درمیان غلط فہمی بڑھتی جا رہی ہے۔

اسلام جب جزیرہ نما عرب سے باہر پھیلا تو اس نے ایکطرح سے خود کو ان علاقوں کے مطابق ڈھال لیا یعنی ایسی عادات اور روایات جو اسلام سے متصادم نہی تھیں انہیں نہ صرف قبول کر لیا بلکہ بعدازاں مقامی باشندون نے بعض روایات کو بسا اوقات اسلام کا جزو نہیں تو کم ازکم اسلام کے عین مطابق ضرور قرار دیدیا۔

بہت سے نو مسلم اپنی سابقہ روایات کے بعض حصوں پر کاربند رہے اور پھر بتدریج کہنے لگے کہ یہ روایات درحقیقت اسلام کا جزو ہیں۔

زیادہ عمومی طور پر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ انڈونیشیا کے بڑے حصے میں اسلام نے خود کو عرب جزیرہ نما کی ثقافت اور روایات کی بجائے مقامی ثقافت اور روایات کے مطابق ڈھالا ہے یا خود کو ان میں ضم کر دیا ہے۔ اسی طرح کا عمل ان دیگر خطوں میں وقوع پذیر ہو سکتا ہے جنہیں آجکل مسلم دنیا کہا جاتا ہے۔

بہت سی جگہوں پر لوگ مقامی عادات یا روایات کی اسلام کے جزو کے طور پر تشریح کرتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اسکے علاوہ انڈونیشیا میں مختلف مذہبی و ثقافتی پس منظر کی بنیاد پر کی جوانیوالی ثقافتی توضیحات بھی عموما پرامن طریقے سے ایکدوسرے کیساتھ مل جل کر رہتی ہیں۔

دیگر مسلم ممالک کے پاس اپنی مثالیں موجود ہیں کہ اسلام اور ثقافتی ورثہ ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو کسطرح رہے ہیں۔

girl car driving

girl car driving

مثال کے طور پر یہ بات قابل توجہ ہے کہ سخت روایتی اسلامی ملک سعودی عرب میں خواتین کے کار چلانے پر پابندی ہے جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران میں اسکی اجازت ہے۔

اسطرح کے فرق کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ اسکا تعلق ان مختلف ثقافتوں سے ہے جو ان ممالک میں پائی جاتی ہیں۔ اسطرح افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں عورتوں کیساتھ سخت برتاؤ اسلام کا جزو نہیں بلکہ اسکا تعلق علاقے کی قبائلی رسومات اور رویوں سے ہے۔

عورتوں کے چہرے پر تیزاب پھینکنے کی حرکت ایشیا کے وسیع حصے میں ہوتی ہے۔ جس میں بھارت اور کمبوڈیا بھی شامل ہیں اور اسے ہر جگہ جرم سمجھا جاتا ہے۔ اسطرح کی دیگر مثالوں میں نسوانی ختنہ جو افریقہ میں سب سے زیادہ عام ہے اور غیرت کے نام پر قتل وغیرہ بھی شمار کیا جاتا ہے۔

لیکن غیر مسلم دنیا کے بڑے حصوں میں ان رویوں کو اسلام سے منسلک سمجھنے سے باز نہیں رکھا گیا۔ جسکی وجہ سے اسکا مغرب میں اسلام کے بارے میں رویے پر غیر موافقانہ اثر پڑا ہے۔

مسلمان اور غیر مسلم دونوں کے اسکالرز کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف اسلام کے بارے میں متفقہ موضوعات کی وضاحت کریں بلکہ یہ بھی بتائیں کہ کون سی باتیں اسلام سے تعلق نہیں رکھتیں، انہیں دیگر عوامل مثلاً سیاست ثقافت اور مقامی روایات کے بارے میں بھی بتانا چاہیے۔

مقامی روایات کے بارے میں بھی بتانا چاہیے۔ ایسا کر کے اہل علم نہ صرف غلط فہمیوں کو دور کرنے بلکہ غلط تصورات کی درستی میں بھی اہم کردار ادا کرینگے۔

کسی بین الثقافتی یا بین العقائد مکالمہ کے دوران تبادلہ خیالات کرتے ہوئے ضروری نہیں کہ مذہبی معاملات پر بحث کی جائے کیونکہ آخر یہ تمام عقائد کے بیشتر پیروکاروں کا مشترکہ رویہ ہے کہ وہ اپنے اعتقادات کو بہترین اور سب سے سچا سمجھتے ہیں۔

لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان پوشیدہ اقدار اور اعتقادات کو بھی گفتگو کا موضوع بنایا جائے جو بہت سی جماعتوں کے درمیان مشترک ہو سکتی ہیں۔