اس اپنی کرن کو آتی ہوئی صُبحوں کے حوالے کرنا ہے
Posted on February 24, 2012 By Adeel Webmaster مجید امجد
flowers at sun rise
اس اپنی کرن کو آتی ہوئی صُبحوں کے حوالے کرنا ہے
کانٹوں سے اُلجھ کر جینا ہے پھولوں سے لپٹ کر مرنا ہے
شاید وہ زمانہ لوٹ آئے، شاید وہ پلٹ کر دیکھ بھی لیں
ان اُجڑی اُجڑی نظروں میں پھر کوئی فسانہ بھرنا ہے
یہ سوزِ دروں یہ اشکِ رواں یہ کاوشِ ہستی کیا کہیے
مرتے ہیں کہ کچھ جی لیں ہم، جیتے ہیں کہ آخر مرنا ہے
اِک شہر وفا کے بند دریچے آنکھیں میچے سوچتے ہیں
کب قافلہ ہائے خندئہِ گل کو ان راہوں سے گزرنا ہے
رستوں پہ اندھیرے پھیل گئے، اک منزلِ غم تک شام ہوئی
اے ہمسفرو! کیا فیصلہ ہے اب چلنا ہے یا ٹھہرنا ہے
ہر حال میں اک شوریدگئیِ فسونِ تمنّا باقی ہے
خوابوں کے بھنور میں بہ کر بھی خوابوں کے گھاٹ اُترنا ہے
مجید امجد