سپریم کورٹ(جیوڈیسک)چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کا کہنا ہے کہ اب کوئی آئی جے آئی نہیں بنے گی۔ اب وہی ہوگا جو آئین کہے گا۔ آئین کا حلیہ بگڑانے کی کوشش کی گئی فرد واحد کا نام آئین میں ڈالا گیا۔ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا اسے بھولنا نہیں چاہیے۔
چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اصغرخان کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئی ایس آئی چیف، آرمی چیف اور صدر کے دفاتر انتہائی اہم ہوتے ہیں۔صدر سب سے اہم عہدہ ہوتا ہے اس لئے اسے احتیاط برتنی چاہے لیکن بدقسمتی سے صدر مملکت ایسی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ایوان صدر سے جواب کا انتظارکررہے ہیں۔ جواب نفی میں آیا تو اجلال حیدر کو بلانے پر غور کریں گے۔اصغر خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے کہا اسد درانی نے اپنے بیان حلفی میں چودہ کروڑ میں سے سات کروڑ بانٹنے کا اعتراف کیا ہے۔باقی رقم جس اکانٹ میں تھی اسے آئی ایس آئی کنٹرول کررہی تھی۔چیف جسٹس نے کہا آپ کے ان دلائل کی روشنی میں آئی ایس آئی بدنام ہو سکتی ہے۔
سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی نے انتخابی عمل میں مداخلت کے لئے کردار ادا کیا۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے سوال یہ ہے کہ یہ ڈی جی آئی ایس آئی کا انفرادی فعل تھا یا ادارے کا؟ سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیے کہ آرمی ایکٹ 1952 کے تحت ریٹائرڈ افسران کے خلاف بھی کارروائی ہوسکتی ہے اور اس کیس میں ذمہ داران کے خلاف فیصلہ دینے کے لئے عدالت کے پاس ثبوت موجود ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا عدالت اس کیس میں پراسیکیوٹر کا کردار ادا نہیں کرسکتی جو سیاسی جماعت اس عمل سے سب سے زیادہ متا ثر ہوئی وہ اقتدار میں ہے۔ آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی حکومت کا کام ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب کوئی آئی جے آئی نہیں بنے گی، اب وہی ہوگا جو آئین کہے گا۔ انیس سو پچاسی میں غیر جماعتی انتخابات کروائے گئے اور آئین کا حلیہ بگڑانے کی کوشش کی گئی۔فرد واحد کا نام آئین میں ڈالا گیا۔ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا اسے بھولنا نہیں چاہیے۔