انٹرنیٹ کی مانیٹرنگ سروس، دی سائٹ انٹیلی جنس گروپ نے 15 منٹ کے ایک وڈیو کی اطلاع دی ہے جس میں القاعدہ کے لیڈر ایمن الظواہری کو یہ اعلان کرتے دکھایا گیا ہے کہ الشباب نے بقول ان کے، صیہونی صلیبی مہم کے خلاف القاعدہ کی جہادی تحریک میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔
نیروبی میں ساتھ لنک کنسلٹنٹس کے ایک صومالی تجزیہ کار، عابدی وہاب شیخ عابدی صمد نے کہا ہے کہ اس باقاعدہ اعلان سے نہ صرف الشباب بلکہ القاعدہ کو بھی توانائی ملے گی۔ انھوں نے کہا کہ چونکہ اب یہ دونوں گروپ کمزور ہوتے جا رہے ہیں، اس اعلان سے وہ ایک دوسرے کو سہارا دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کہا ہے کہ ہمارا مفاد، اور ہمارے مقاصد مشترک ہیں، اس لیے ہمیں مل جل کر اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانا چاہیئے۔
صومالیہ کے اطلاعات اور ٹیلی کمیونی کیشنز کے وزیر، عبدالقادر حسین محمد نے جمعہ کے روز صومالی نیشنل نیوز ایجنسی کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیے یہ کوئی نئی خبر نہیں ہے۔ ہمیں پہلے سے پتہ تھا کہ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ الشباب کے لیڈر القاعدہ کے تنخواہ دار ایجنٹ اور نمائندے ہیں۔ القاعدہ ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم ہے جو صومالیہ کے بے گناہ مسلمان سویلین باشندوں کو قتل کرنے کی انتہائی غیر اسلامی حرکتوں میں مصروف ہے۔
وزیر نے کہا کہ صومالیہ کی حکومت کو خوشی ہے کہ الشباب کو خود کو صومالیہ کی ایک اسلامی تنظیم کے طور پر پیش کرنے کا وقت ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ انھوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ صومالیہ میں القاعدہ کے خلاف جنگ میں بھر پور مدد دیں۔ یہ عسکریت پسند گروپ گزشتہ پانچ برس سے، صومالیہ کی اقوامِ متحدہ کی حمایت سے قائم ہونے والی عبوری حکومت کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ 2009 میں، الشباب کے لیڈروں نے ایک وڈیو جاری کیا تھا جس کا عنوان تھا، اسامہ، ہم آپ کی خدمت کے لیے موجود ہیں۔ اسی سال، القاعدہ کے سابق لیڈر اسامہ بن لادن نے بھی ایک وڈیو جاری کیا جس میں انھوں نے صومالیہ میں بغاوت کی حوصلہ افزائی کی تھی۔
کینیا کے سیاسی مبصر، براک مولوکا نے وائس آف امریکہ سے کہا کہ اس اعلان سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔ انھوں نے علاقے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بین الاقوامی کارروائی پر زور دیا۔ ان کے مطابق عالمی برادری کو اس بات کا احساس کرنا چاہیئے کہ یہ کوئی مقامی واقعہ نہیں ہے۔ کینیا کو اپنی سرزمین کے حفاظت کے لیے الشباب اور القاعدہ کے بارے میں تشویش ہونی لازمی ہے۔ یہ سراسر بین الاقوامی دہشت گردی ہے اور اس کے سد ِ باب کے لیے بین الاقوامی سطح پر کارروائی کی جانی چاہیئے۔
ساتھ لنک کنسلٹنٹس کے عابدی صمد نے کہا کہ اب الشباب القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کے سامنے جوابدہ ہوگی، اور اس طرح اس گروپ کے اندر جو کشیدگی اور سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے، وہ کم ہو جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح الشباب کا حوصلہ بلند ہو گا اور اس میں جو اندرونی اختلافات ہیں ان میں کمی آئے گی۔ وہ اب یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب گاڈین الشباب کا لیڈر نہیں ہے۔ الشباب کا اصل لیڈر ایمن الظواہری ہے۔ اس طرح جو لوگ یہ کہہ رہیہیں کہ ہم گاڈین کی قیادت سے مطمئن نہیں ہیں، وہ بھی مطمئن ہو جائیں گے۔
گاڈین سے مراد ہے احمد عابدی گاڈین جو الشباب کا کمانڈر اور اس کا چوٹی کا لیڈر ہے۔
الشباب نئے رنگروٹوں، قبیلوں کے مسلح جتھوں، اور تنخوا ہ دار جنگجوں پر مشتمل ہے۔ اس گروپ کی صفوں میں سینکڑوں غیر ملکی جنگجو بھی شامل ہیں۔ پاکستان، افغانستان اوریمن کے غیر ملکی جنگجو، اپنے ساتھ نقد رقم، جنگی مہارت اور دھماکا خیز مادوں کے استعمال کا علم لے کر آتے ہیں۔
مغربی ملکوں کے انٹیلی جنس کے عہدے داروں نیکہا ہے کہ القاعدہ کے جنگجوں نے الشباب کی تنظیم میں پناہ لے رکھی ہے۔ اس سال جنوری میں، ایک امریکی ڈرون کے حملے میں برطانوی پاسپورٹ رکھنے والا ایک شخص بلال البرجاوی ہلاک ہو گیا۔ بلال البرجاوی مشرقی افریقہ میں القاعدہ کے لیڈر فضل عبداللہ محمد کا قریبی ساتھی تھا۔ محمد کو گزشتہ سال جون میں صومالیہ کی فوجی حکومت کی فورسز نے ہلاک کر دیا تھا۔ علاقے میں القاعدہ کے دو چوٹی کے لیڈروں کی ہلاکت سے الشباب کی قیادت میں پھوٹ پڑ گئی ہے اور ایک دوسرے پر مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے جاسوسی کرنے کے الزامات لگائے جا رہیہیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ القاعدہ اعتدال پسند جنگجوں اور ان لوگوں کے درمیان جو عالمی جہادی ایجنڈے پر عمل کرنا چاہتے ہیں، کشیدگی کو کم کرے گی۔