امریکا پاکستان کو ڈبل گیم کا طعنہ دینا بند کر ے

america

america

مستقبل قریب میں امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لئے حسبِ معمول امریکی ری پبلکن پارٹی نے اپنے صدارتی امیدواروں کوسارے امریکا میں متعارف کرانے اور اِنہیں عوامی اجتماعات میں موجودہ امریکی انتظامیہ پر کھلی تنقیدو تفتیش کرنے اور اِن کی خارجہ پالیسی نکتہ چینی کرنے کی اجازت دے رکھی ہے اور اِس طرح ری پبلکن پارٹی کے اکثر صدارتی امیدواروں نے یہ اپنی ذمہ داریاں پورے زرو وشور سے شروع بھی کررکھی ہیں۔ گزشتہ دنوں اِس حوالے سے جنوبی کیرولینا کے شہراسپارٹنبرک میں ری پبلکن پارٹی کے تین صدارتی امیدواروں رک پیری، مٹ رومنی اور نیوٹ گنگرج نے موجودہ امریکی انتظامیہ اور اِس کی خارجہ پالیسی سے متعلق ایک مباحثے میں تنقیدوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا جس نے اختتام تک رکنے کا نام بھی نہ لیااور اِس سے متعلق اطلاعات یہ بھی رہیں کہ اِن تینوں نے مباحثے کے ختم ہونے کے بعد بھی مباحثے میں تشریف لائے ہوئے مہمانوں سے اپنی ملاقاتوں کے دوران بھی امریکی صدراوباما اور اِن کی خارجہ پالیسی کو ہدفِ تنقیدبنائے رکھا۔ جس سے متعلق خبر ہے کہ امریکی صدر اوبامہ اور اِن کی انتطامیہ کی خارجہ پالیسی پر بحث کے دوران ٹیکساس کے گورنر و ری پبلکن پارٹی کے سینئر رکن اور صدارتی امیدوار رک پیری نے اپنااظہارِ خیال کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں موجودہ امریکی انتظامیہ اور اِس کی خارجہ پالیسی کو اپنی کھلی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ اِسے پاکستان سمیت ایسے ممالک کی امدادفوری طورپر بندکردینی چاہئے جو امریکا سے مخلص نہیں …..پاکستان مخالف رک پیری نے اپنے جلے بھنے دل کے ساتھ انتہائی کڑوے لہجے میں پاکستان کے کردار اور اپنی جنگ کے خلاف اِس کے کردار اور مخلص اورصاف و شفاف طرزِ عمل پر شک کو یقین میں بدلتے ہوئے پاکستان پر پوری ڈھٹائی کے ساتھ یہ الزام بھی عائد کیاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکا سے ڈبل گیم کررہاہے نہ صرف یہ بلکہ پاکستان دشمن رک پیری نے مباحثے میں اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ پاکستان کے حقیقی حکمران سیاستدان نہیں بلکہ پاک فوج ہے اِسی وجہ سے آج امریکا اِن پر اعتمادنہیں کرسکتا جبکہ رک پیری نے والہانہ انداز سے پاکستان کو سناتے ہوئے یہ بھی کہاکہ اسرائیل اِن کا بہترین اور بھروسے والا ایک ایسااتحادی ہے جس نے امریکا کاہر موقع پر ساتھ دیااور امریکا نے جو بھی اچھایا برااِسے کرنے کا حکم دیاتو اِس نے اپنا نقصان دیکھے بغیر ہر وہ کام کیا جیساامریکا چاہتاتھا،چاہتاہے اورآئندہ چاہے گا۔ جبکہ پیری نے اِس موقع پر اسرائیل سے یہ امیدبھی ظاہر کی کہ آئندہ مستقبل میں بھی امریکا اسرائیل سے جو بھی کرنے کوکہے گا تواسرائیل من وعن اپنی آنکھیں بندکرکے اِس پر عمل کرے گا اِس موقع پر ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ پیری کے اِن الفاظ سے ایسالگ رہاہے کہ اگر یہ صدر منتخب ہوگئے تو اِن کی کوشش یہ ہوگی کہ یہ اسرائیل کی اپنے اتحادی ہونے کی حیثیت سے بھروپور حمایت کریں گے اور دنیابالخصوص مسلم ممالک (جن پاکستان بھی شامل ہے اِن )میں امن وامان کا ستیاناس کرنے کے لئے اسرائیل کو فرنٹ پر لائیں گے اور اِسی کے ساتھ ہی بیساچوسٹس کے سابق گورنر اور ری پبلکن صدارتی امیدوار مٹ رومنی نے بھی اِس موقع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اپنے سینے میں لگی آگ کے چھبے ہوئے شعلوںکو کچھ اِس طرح سے عیاں کیا کہ اِس سے یہ واضح طور پر ظاہر ہوگیاکہ یہ پاکستان سے متعلق منفی سوچنے رکھنے والا ایک ایسا امریکی ہے جس کے ہاتھ میں اگر امریکی انتظامی امور آگئے تو یہ ایسے اقدامات کرے گاکہ پاک امریکا تعلقات میں دوریاں پیداہوجائیں گیں رومنی نے کہاکہ پاکستان میں طاقت کے کئی منبع ہیں جس میں پاکستان میں کمزور سول حکومت، فوج اور طاقتور انٹیلی جنس ایجنسی بھی شامل ہیں یعنی اِس کا یہ کہناتھاکہ پاکستان میں موجودہ حکومت کئی قوتوں کا مرکب ہے رومنی نے تو اِس موقع پر فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان دشمنی کی حد ہی کردی اِس نے موجودہ امریکی انتظامیہ کو مشورہ دیااور اپنی آئندہ کی پالیسی کا اظہار بھی کچھ اِس طرح سے کر دیاکہ پاکستان سے ڈیل کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ پاکستان کو دیگر ممالک کی طرح سیاسی استحکام والا ملک ہی تصور نہیں کیاجائے جہاں ہم جاکرکہیں کہ کیاآپ ایسے مسئلہ کا حل نکال سکتے ہیں….؟؟ہم یہ سمجھتے ہیں کہ رومنی کے اِس کہے کہ بعد اب ہمارے حکمرانوں کو یہ ضرور سوچناچاہئے کہ امریکا سے متعلق اپنی ایسی خارجہ پالیسی وضع کریں گے جس سے آئندہ دنوں میں پاکستان کاامریکیوں پر اچھاامیج قائم ہو اور امریکی پاکستان سے متعلق اب تک کی اپنی منفی سوچ اور رویوں میں مثبت تبدیلیاں لائیں بصورتِ دیگر ہمارے لئے مستقبل میں امریکیوں کے ساتھ اچھے روابط قائم رکھنے مشکل ہوجائیں گے۔ جبکہ اطلاع ہے کہ اِس مباحثے کے آخری ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار اور ایوان نمائندگان کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ نے بھی اپنی پاکستانی دشمنی میں دوسو فارن ہائٹ سے بھی زیادہ درجہ حرارت پر ابلتے الفاظ اِس طرح اپنے لہن سے باہر اگلے کہ  (ڈمی )اسامہ بن لادن چھ سال سے پاکستان میں ملٹری اکیڈمی کے قریب رہائش پذیر تھا اور جب اِس کے خلاف ہماری بہادری ،عیارومکاراور چالاک امریکی افواج نے ڈمی اسامہ کے خلاف پاکستان میں آپریشن کیاتو پاکستانی امریکیوں سے ناراض ہوگئے….گنگرج کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں کو امریکی افواج کے خاموش آپریشن پر ناراض نہیں ہوناچاہئے تھا مگر یہ پھر  بھی ناراض ہوگئے جنہیں منانے کے لئے موجودہ امریکی انتظامیہ کو بار بار پاکستان کے چکرلگاکر اِن ناراضگی دور کرنی پڑی ۔ اِس ساری صورت حال کے بعد راقم الحرف اِس نتیجے پر پہنچاہے کہ مجموعی طورپر اِس مباحثے میں ری پبلکن پارٹی کے تینوں صدارتی امیدواروں نے اپنے اپنے انداز سے پاکستان مخالفت میں اظہارخیال کیا بلکہ دوٹوک الفاظ میں پاکستان سے متعلق آئندہ کی اپنی پالیسی کا بھی عزم اور اعلان بھی کردیا یہاں افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ری پبلکن پارٹی کے تینوں صدارتی امیدواروں نے پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پر پیش کیا اور اپنے شک کو مختلف انداز سے یقین میں بدلنے کی کوشش کی کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک طرف تو امریکی اتحادی ہونے کا بڑاحامی ظاہر کرتاہے تو دوسری طرف یہ امریکا کے ساتھ ڈبل گیم بھی کھیل رہاہے۔جس کی وجہ سے ہم پاکستان کو ایک ناکام ریاست تصورکرتے ہیں۔  اب اِس منظر و پس منظر میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکیوں کو یہ باورکرادیں کہ پاکستان نے نہ تو پہلے کبھی امریکا کے ساتھ کسی بھی معاملے میں ڈبل گیم کھیلا ہے ،نہ کھیل رہاہے اور نہ ہی آئندہ کبھی کوئی ایساڈبل گیم کھیلنے کا ارادہ ہی رکھتاہے جس سے یہ تاثر ابھرے کہ پاکستان خود پاک امریکا تعلقات کو بگاڑنے کے لئے کسی بھی معاملے میں ڈبل گیم کھیل رہاہے اور اِسی کے ساتھ ہی ہم یہاں یہ واضح کرتے چلیں کہ اب امریکیوں آپ خود ہی یہ تسلیم کرلو کہ ڈبل گیم پاکستان نہیں بلکہ امریکا پاکستان کے ساتھ کھیل رہاہے ایک طرف اِس نے چندڈالروں کی امداد کے عوض پاکستان پر اپنابیجادباو برقرار رکھاہواہے تو دوسری طرف اِس سے وقتافوقتا اپنی مرضی کے کام لینے کے خاطر امداد کی مد میں ڈالرز دینے بندکرنے کے اعلانات اور خدشات کا اظہارکرکے پاکستان کو بلیک میل کرنے کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ بھی شروع کررکھاہے اور یہ بیچارے غریب ومعصوم پاکستانی حکمران ہر بار امریکی دباو کے باعث اِس کی بلیک میلنگ کا شکار ہوکراِس کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیںاوراِس طرح امریکا اپنی بلیک میلنگ اور چالاکی سے پاکستان کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہاہے یہ واضح ہوجانے کے بعد اب امریکیوں کواپنی اصلاح کر لینی چاہئے۔ اِس کے ساتھ ہی ہم یہاں یہ بھی کہناچاہیںگے کہ امریکا نے ایک طرف دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ میں پاکستان کو فرنٹ لائن پر رکھ کر اِس کوصرف اپنے چند ڈالروں کی امداد کے برعکس اپنی جنگ میں جھونک کر اِس کا جانی ومالی، معاشی واقتصادی ،سیاسی اور اخلاقی طور پر جتنا نقصان اور بیڑاغرق کردیاہے کیا اِس کا حساب امریکا دے سکے گا ….؟؟؟ ہم سمجھتے ہیں کہ نہیں ہرگزنہیں….. مگر اِس کے باوجود بھی اِس کی معاشی واقتصادی، سیاسی و اخلاقی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں تمام تر نوازشیں بھارت کے ساتھ جاری ہیں اور پاکستان کے حصے میں سوائے جھوٹی تسلیوں اور سنہرے خوابوں کے کچھ نہیں آرہاہے لہذااب امریکیوں کو پاکستان سے متعلق ڈبل گیم جیسے الزامات لگانے پر اپنی زبان کو لگام دینی چاہئے اوراپنے پاکستان کے ساتھ رو رکھے گئے روکھے پھیکے رویوں میں بھی مثبت تبدیلیاں لانی چاہئیں ورنہ اِس کا نقصان پاکستان کو جو ہوگاسوہوگا مگر اِسے بھی اپنے کسی ایسے منصوبے جس میں یہ چاہتاہے کہ افغانسان میں رہ کردراصل یہ خطے میں بھارت کی چوہدراہٹ قائم کرے اور پاکستان و چین کو نیچادکھائے اپنے اِن منصوبوں میں یہ اس طرح سے کامیاب نہیں ہوسکے گا جس کا یہ ارادہ رکھتاہے۔اور پاکستانی حکمرانوں سمیت حکومتِ چین کو بھی سنجیدگی سے امریکیوں رویوں اور خطے میں بھارتی اداگری قائم کرانے والے امریکی منصوبوں سے متعلق اپنی حکمتِ عملی وضع کرنی ہوگی تاکہ مستقبل قریب میں ری پبلکن پارٹی کے کسی صدارتی امیدوار کی کامیابی کے بعد خطے میں آنے والی معاشی واقتصادی، سیاسی و اخلاقی اور دیگر حوالوں سے رونماہونے والی تبدیلیوںاوراِسی طرح ہر جارحانہ امریکی چیلنجز کاڈٹ کامقابلہ کیا جا سکے۔
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم