پاکستان کا شمالی علاقہ تاریخی طور پر تین ریاستوں گلگت، بلتستان اور ہنزہ پر مشتمل تھا۔ 1848ء میں کشمیر کے ڈوگرہ سکھ راجہ نے لشکر کشی کے ذریعے ان علاقوں پر زبردستی قبضہ کرکے انہیں کشمیر کا حصہ بنا دیا تھا چنانچہ پاکستان کی آزادی کے وقت یہ علاقے کشمیر کا حصہ سمجھے جاتے تھے مگر یہاں کے باشندوں نے اپنی علیحدہ حیثیت برقرار رکھی ۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد یہاں کے لوگوں نے بھی اپنی آزادی کی جنگ لڑ کر اس سرزمین کو پہلے آزاد کرایا اور پھر پاکستان کے ساتھ غیر مشروط الحاق کر دیا جبکہ 2009ء میں حکومتِ پاکستان نے ایک آرڈیننس کے ذریعے ان علاقوں کو پاکستان کا صوبہ بنا کر یہاں پہلی دفعہ انتخابات کروائے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈوگروں کی آمد بلتستان میں ایک بلتی شہزادے کی بغاوت پر فوجی جارحیت کے انداز میں ہوئی تھی لہٰذا فوجی جارحیت کو بنیاد بنا کر اس خطے کو کشمیر کا حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا اور پاکستان سے الحاق کے بعد یہ علاقہ متنازعہ نہیں بلکہ پاکستان کا آئینی و قانونی حصہ ہے۔ گلگت بلتستان جیو اسٹریٹجیکل پوائنٹ آف ویو سے بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اسکے شمال مشرق میں چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا علاقہ ایغور واقع ہے۔ شمال مغرب میں افغانستان کی واخان کی پٹی ہے جو پاکستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے۔ جنوب مشرق میں مقبوضہ کشمیر، جنوب میں آزاد کشمیر جبکہ مغرب میں صوبہ خیبرپختونخواہ واقع ہے۔ اس خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند پچاس چوٹیاں واقع ہیں جبکہ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آ کر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی اس علاقے میں ہے جبکہ دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشیر بھی اس خطے میں واقع ہیں۔
Karakoram Highway
یہ علاقہ تین ایٹمی ممالک پاکستان، چین اور بھارت کے نقطہ اتصال پر ہونے کے باعث جہاں ان ممالک کے لیئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے وہاں امریکا کی بھی اس علاقے میں روز بروز دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ دنیا کے بلند ترین میدانِ جنگ سیاچن کے قریب ہونے اور پاکستان اور چین کے درمیان واحد زمینی راستہ شاہراہ قراقرم کا اس علاقے سے گزرنے کے باعث یہ خطہ جہاں ان دونوں ممالک کے لیئے دفاعی لائن کی حیثیت رکھتا ہے وہاں امریکا اور بھارت کی اس خطے میں سرگرمیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ پاک چین دوستی کو پیوندِ خاک کیا جائے تاکہ گوادر بندرگاہ کے ذریعے چین کا گرم پانیوں تک رسائی کا راستہ روکا جا سکے کیونکہ گرم پانیوں تک رسائی کے لیئے دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان ایک عرصہ سے خاموش جنگ جاری ہے اور اس جنگ میں پاکستان کا کردار مرکزی نوعیت کا ہے۔ اگر چین گوادر بندرگاہ کی تکمیل کے بعد پاکستان کے راستے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو بہت جلد سپر پاور بن جائیگا جبکہ چین کی ابھرتی طاقت کو روکنا اور اپنی سپرپاوری کو برقرار رکھنا امریکی خارجہ پالیسی کا اصل ہدف ہے۔ اسی مقصد کے لیئے امریکا اور بھارت کی طرف سے پہلے بلوچستان کے حالات خراب کرنے کی کوشش کی گئی اور اب گلگت بلتستان میں بغاوت کو ہَوا دی جا رہی ہے۔
satpara dam
سانحہ کوہستان اور سانحہ چلاس جیسے واقعات سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح اب یہاں بھی ایک خاص منصوبے کے تحت حالات خراب کیئے جا رہے ہیں۔ یہ کوئی پرانی بات نہیں کہ جب گلگت بلتستان میں کام کرنے والی متعدد این جی اوز اپنے کاموں کے لیئے یو ایس ایڈ سے امداد کے لیئے رابطہ کرتیں تو انہیں کورا جواب دیا جاتا کہ ہمارے پاس تمہیں دینے کو کچھ بھی نہیں ہے بلکہ ہمارا فوکس تو صرف خیبرپختونخواہ ہے مگر اب یکدم امریکا نہ صرف اس علاقے کی ترقی کے لیئے فنڈز فراہم کرنے میں دلچسپی لے رہا ہے بلکہ یہاں کے طلباء و طالبات کو امریکی یونیورسٹیوں میں اسکالرشپ پر اعلیٰ تعلیم کے لیئے مواقع فراہم کرنے کا عندیہ بھی دے چکا ہے۔ یہاں تک کہ کچھ عرصہ قبل اسکردو میں پاکستان کی اپنی فنڈنگ سے تکمیل کے آخری مراحل میں پہنچنے والے سد پارہ ڈیم کے لیئے بھی از خود ایک خطیر رقم دینے کا اعلان کر چکا ہے۔یہ وہی سدپارہ ڈیم ہے جسے فروری 2007ء میں پاکستان کے دشمنوں کی طرف سے تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا لیکن خفیہ اداروں کی بروقت کارروائی پر سدپارہ جھیل کے عین اوپر پہاڑی پر چھپائے گئے چھ عدد راکٹ لانچر ناکارہ بنا دیئے گئے تھے۔ دنیا حیران ہے کہ امریکا کی یکدم شمالی علاقہ جات میں اتنی دلچسپی کیوں بڑھ گئی ہے کہ وہاںڈویلپمنٹ کے نام پر ایک خطیر رقم خرچ کرنے کو تیار ہے جبکہ ساتھ ہی ایسے انکشافات بھی ہو رہے ہیں کہ قوم پرستی کو ہَوا دینے کے نام پر فنڈز کا بہائو تیز کرکے امریکا اس علاقے میں گریٹ گیم کھیلنا چاہتا ہے۔
ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق گلگت کا دورہ کرنے والے امریکی سفارتکاروں کے وفد کی غیر اعلانیہ اور پُراسرار ملاقاتوں میں قوم پرستوں کو چین کے خلاف بھڑکانے اور اس علاقے کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی تحریک کا انکشاف ہوا ہے۔ گلگت میں چینی مفادات اور پاکستان کے اہم ترین ڈیمز کے منصوبے ہیں جبکہ یہ خطہ مذہبی فسادات کی زد میں بھی رہا ہے جس کی وجہ سے موجودہ صورتحال میں یہ علاقہ حساس ہے لیکن اسکے باوجود امریکی سفارت کاروں کے وفد نے غیر اعلانیہ ملاقاتوں کے ذریعے وہاں ایسی پراسرار سرگرمیاں دکھائیں جو ملکی سلامتی کے منافی سمجھی جاتی ہیں۔ میڈیا پر ایسی خبریں بھی آ رہی ہیں کہ امریکی سفارت کاروں کے وفد اور قوم پرست لیڈروں کے درمیان ملاقاتوں میں یہ طے پایا کہ اگر قوم پرست جماعتیں کھل کر پاکستان مخالف تحریک شروع کر دیں تو امریکا ایسی تحریک کی حمایت کرے گا۔ ان ملاقاتوں کے بعد قوم پرستوں نے حکومتِ پاکستان پر کھلی تنقید کی اور اپنے لیئے الگ ریاست کا مطالبہ بھی کیا جبکہ ملک کا ایک مؤقر روزنامہ اخبار اپنی گزشتہ سال پندرہ اپریل کی اشاعت میں یہ انکشاف کر چکا ہے کہ انتخابات میں قوم پرستوں کی شکست کے بعد ایک طرف اس علاقے میں عدم استحکام کو ہَوا دینے کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ دوسری طرف پکڑے جانے والے پیغامات میں انکشاف ہوا ہے کہ بالاورستان نیشنل فرنٹ پاک چین ٹریڈ کو ہدف بنانے کے لیئے حکومت مخالف ریلیاں شروع کرنے کی منصوبہ بندی اور اس ریجن میں امریکی اثرورسوخ بڑھانے کے لیئے کام کر رہا ہے۔ اخبار یہ بھی لکھتا ہے کہ بی این ایف کے عہدیدار آزاد گلگت بلتستان کی تحریک کے لیئے امریکی مدد کا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں اور جیسے ہی ایسی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی تو امریکہ اس تحریک کی حمایت شروع کر دے گا۔
ایسی اطلاعات بھی سامنے آ چکی ہیں کہ گزشتہ سال امریکا کی ایک سرکردہ یونیورسٹی میں بالاورستان نیشنل فرنٹ کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار میں امتیاز نامی ایک ایسے شخص کے کردار کو سراہا گیا تھا کہ جس نے مارچ 2011ء میں مقامی ٹی وی پروگرام میں آزاد گلگت بلتستان کی بات کی تھی جبکہ یہ انکشاف بھی ہو چکا ہے کہ 2006ء میں بالاورستان نیشنل فرنٹ کے ایک فرضی رہنماء نے کابل میں بھارتی سفارتی عملے کے ساتھ ملاقات کی جس کے بعد سے اس تنظیم کو باقاعدہ بھارتی امداد ملنا شروع ہوئی ۔ ماہرین یہ خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ جیسے ہی قوم پرستوں کی سرگرمیوں میں تیزی آئی تو امریکا نے اس تحریک کی حمایت کے لیئے ان سے رابطے تیز کر دیئے۔ امریکی سفارت کاروں کے وفد کا حالیہ دورہ بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ان ملاقاتوں میں امریکا نے جہاں قوم پرستوں کو چین کی سرگرمیوں کی مخالفت کرنے پر مراعات دینے کی پیش کش کی وہاں پاکستان مخالف مؤقف کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی اور ساتھ ہی امریکا بعض ترقیاتی منصوبوں میں بن بلائے مہمان کی طرح شریک بھی ہونے لگا ہے۔ کچھ عرصہ قبل یو ایس ایڈ کی جانب سے زراعت، دام پروری اور دیہی ترقی کے شعبوں میں امریکی امداد کے حوالے سے قومی و علاقائی اخبارات میں اشتہارات بھی دیئے جاتے رہے ۔ تب بھی ماہرین یہ خدشہ ظاہر کرتے رہے کہ امریکا یہاں کی زراعت سے وابستہ ہونے کی بناء پر یو ایس ایڈ کے بہانے اس خطے کے تمام قریوں اور کوچوں تک باآسانی رسائی چاہتا ہے۔
ایسی صورتحال میں پاکستان کو چوکنا ہو جانا چاہئے تاکہ دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنے والے شرپسند عناصر اس حساس ریجن کی صورتحال کو عدم استحکام کا شکار نہ کر سکیں۔ اہلِ پاکستان کو امریکی سفارتکاروں کے دورہ گلگت پر ہرگز اعتراض نہیں اور نہ ہی امریکا کی طرف سے وہاںمختلف شعبوں میں تعاون پر کوئی اعتراض ہے۔ عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں تعاون کرنا یقین لائق تحسین ہے مگر اس دورہ کے دوران اس وفد کی جو پراسرار سرگرمیاں رہیں وہ باعثِ تشویش ہیںاور ایسی صورتحال میں آئندہ کے لیئے امریکی سفارتی عملے کو صرف اسلام آباد تک ہی محدود کر دینا ضروری ہے۔ قوم پرست رہنمائوں کے خدشات اپنی جگہ لیکن انہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ امریکا کسی کا دوست نہیں بلکہ اُسے اپنا مفاد ہی عزیز ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکی سفارتی وفد اپنی ملاقاتوں کے ذریعے قوم پرست لیڈروں کے منہ سے وہ بات بھی اگلوانے میں کامیاب ہو گیا جو اُن کا اصل ایجنڈا تھا۔ امریکا چین کا راستہ روکنے کے لیئے جو گریٹ گیم بلوچستان میں کھیل رہا ہے اب اس کا دائرہ کار گلگت بلتستان تک پھیلانے میں مصروف ہے۔ اسی لئے پچھلے دنوں لائن آف کنٹرول پر چینی فوج کی موجودگی کا شوشا چھوڑا گیا۔ آج یہ امریکی سفارت کار گلگت میں آ کر ہم سے ہی پوچھ رہے ہیں کہ آپ کو صوبہ چاہئے یا پھر پاکستان سے علیحدگی چاہتے ہیں۔ کیا ہماری خود مختاری کی ضمانت امریکا کے ہاتھ میں ہے؟ گلگت بلتستان کے عوام ایک عرصہ سے خود کو آئینی حقوق دینے کا مطالبہ کرتے ہیں جو یقینا اُن کا حق بھی ہے اس لیئے حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس خطے کے عوام کو اُن کے آئینی حقوق اور پارلیمنٹ میں مناسب نمائندگی دے۔