امریکی صدر اوباما نے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ پاکستان پر ڈومور کے لئے دباؤ ڈالتا رہے گا۔پاکستان کے ساتھ انٹیلی جنس تعاون بھی برقرار رکھا جائے گا اور دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے معاملے میں پاکستان سے رویہ تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ اپنے ایک ریڈیو انٹرویو میں ان کا کہنا تھا اس وقت پاک امریکہ تعلقات ایسے نہیں جیسے ہونے چاہئیں تھے پاکستان اس امر کا احساس کرے کہ دہشت گرد اور انتہا پسند پاکستان کے اندر سرگرم عمل ہیں۔ پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کی حمایت بھی ترک کرنا ہو گی۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ حقانی نیٹ ورک اور آئی ایس آئی کے تعلق کے بارے میں مولن کا بیان جھنجھلاہٹ کا اظہار تھا ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردوں کے حوالے سے پاکستان کے خلاف سخت رویہ اپنایا جائے گا اور پاکستان سے سختی سے کام لیا جائے گا۔ پاکستان سے دہشت گردوں کی حوالگی کا بھی مطالبہ کریں گے۔ دوسری جانب افغانستان نے 8اکتوبر کو ہونے والے سہ فریقی مذاکرات کو معطل کر دیا ہے۔ افغان صدر کرزئی نے پاکستان کے خلاف یہ الزام تراشی کی ہے کہ سابق صدر برہان الدین ربانی کے قتل میں کوئٹہ کی اہم شخصیات ملوث ہیں۔ افغان صدر حامد کرزئی نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ شروع کر دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے کے لئے پاکستان نے کچھ نہیں کیا، افغانستان کو غیر مستحکم کرنے میں پاکستان کا ہاتھ ہے سابق صدر ربانی کے قتل کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب مذاکرات کس سے کئے جائیں۔ صدر اوباما اور افغان صدر کرزئی کے الزام کے جواب میں آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے دوٹوک انداز میں واضح کیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک افغانستان کے اندر سرگرم عمل ہے ہم نے کسی جنگجو گروپ کو ایک پیسہ یا ایک گولی بھی فراہم نہیں کی۔ اس حوالے سے تمام امریکی الزامات بے بنیاد ہیں۔ ادھر پاک امریکہ کشیدگی کے حوالے سے منعقد ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں قومی سلامتی و خودمختاری کے تحفظ کے عزم کے محض 24 گھنٹے بعد جنوبی وزیرستان پر امریکی ڈرون حملہ کیا گیا جبکہ ڈرون حملوں کے خلاف پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کے باوجود حملوں کا سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا۔ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کی طرف سے ڈرون حملوں کی شدید مخالفت اور انہیں روکنے کے لئے مکمل فکری و نظریاتی ہم آہنگی کا مظاہرہ اور کل جماعتی کانفرنس میں ایک متفقہ قرارداد کی منظوری سے پہلے تمام شرکا کی طرف سے اظہار خیال کرتے ہوئے ملک کی آزادی سلامتی اور خود مختاری کے تحفظ کے لئے ہر قربانی دینے کا عہد کیا گیا جبکہ صدر اوباما کی طرف سے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے بارے میں جنرل مولن کے خیالات کو ان کی فرسٹریشن قرار دے کر جھنجھلاہٹ قرار دینے کے باوجود پاکستان کے خلاف امریکہ کی جارحانہ پالیسیوں میں کوئی نمایاں تبدیلی دکھائی نہیں دیتی اور نہ ہی افغان صدر حامد کرزئی کی طرف سے پاکستان کے خلاف انتہائی مضحکہ خیز اور بے بنیاد الزامات کا سلسلہ رکنے میں آ رہا ہے۔ ہماری سلامتی آزادی اور خودمختاری کے خلاف امریکی عزائم اب ڈھکے چھپے نہیں رہے دراصل نیٹو فورسز کے خلاف افغان عوام کے شدید ردعمل نے امریکہ کو اپنی تمام تر طاقت قوت اور متعدد اتحادی ممالک کی طرف سے افغانستان میں عسکری تعاون کے باوجود اسے افغانستان سے نکل جانے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس بلا جواز جارحیت کے نتیجے میں امریکہ کو نہ صرف بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا بلکہ اس کی معیشت پر بھی سخت ناخوشگوار اثرات مرتب ہوئے۔ ہزاروں صنعتی ادارے اور بنک دیوالیہ ہو کر بند ہو گئے اور لاکھوں افراد بے روزگاری کا شکار ہو گئے۔ امریکی شکست نوشتہ دیوار بن چکی ہے لیکن امریکہ اپنے مخصوص عزائم کے پیش نظر افغانستان سے چلے جانے کے بعد بھی یہاں اپنی موجودگی کا تاثر قائم رکھنا چاہتا ہے اس کے لئے اس نے افغانستان کے شمالی اتحاد ، بھارت ، اسرائیل اور بعض دوسری طاقتوں کو یہ ترغیب دی ہے کہ وہ پاکستان میں مداخلت جاری رکھیں اور پاک افغان سرحدی علاقوں کو نشانہ بنانے کا عمل تیز تر کرتے جائیں چنانچہ پاکستان کے قبائلی علاقوں صوبہ خیبر پختونخوا کے علاوہ بلوچستان میں افغان دہشت گردوں کی دراندازی کے ٹھوس شواہد پاکستان کے پاس موجود ہیں۔ اس صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری سیاسی و فوجی قیادت اور دانشور وطن عزیز کو درپیش مشکلات کا ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ جائزہ لیں اور جذباتی انداز فکر کی بجائے ٹھوس زمینی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی قومی حکمت عملی کو اس طریقے سے مرتب کریں کہ نہ تو اس سے کسی مہم جویانہ رویے کی بو آتی ہو اور نہ حالات کی سنگینی سے صرف نظر کا کوئی اشارہ ملتا ہو اور جیسا کہ مسلم لیگ ن کے صدر محمد نواز شریف اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے آل پارٹیز کانفرنس میں اپنے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے ان سب کو سامنے رکھتے ہوئے قوم و ملک کو درپیش مشکلات سے عہدہ برآ ہونے کے لئے اتفاق رائے سے ایک ایسی پالیسی وضع کی جائے جو آل پارٹیز کانفرنس میں منظور کردہ قرارداد پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ میاں محمد نواز شریف نے اس متفقہ قرارداد کو حکمرانوں کے لئے ایک امتحان قرار دیا ہے اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس آزمائش سے سرخرو ہو کر نکلے اور اس تاثر کو دور کرنے میں مدد ملے کہ ارباب اختیار ایسی قراردادوں پر عمل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ کیونکہ ان کا ٹریک ریکارڈ اس حوالے سے کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا۔ ماضی میں پارلیمنٹ میں منظور کی گئی دو متفقہ قراردادوں کا جو حشر ہوا ہے وہ اس تاثر کو تقویت دیتا ہے اس لئے اب اس کا اعادہ نہیں ہونا چاہئے ۔ ادھر امریکہ کو بھی اپنے رویے میں لچک پیدا کرنی چاہئے اور ڈومور کا مطالبہ ترک کر کے معاملات کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے کا راستہ اختیار کرنا چاہئے کیونکہ سب کو اس بات کا اعتراف ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پٹرول پر سبسڈی کا فائدہ عام آدمی تک پہنچائیں آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی اوگرا نے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کرتے ہوئے پٹرول 4روپے 15 پیسے ، ہائی آکٹین 2 روپے 75 پیسے، ہائی اسپیڈ ڈیزل ایک روپیہ 50 پیسے مہنگا کر دیا ہے جبکہ مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کی پرانی قیمتوں کو ہی برقرار رکھا گیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اتنا زیادہ اضافہ کرنے کے باوجود حکومت کا یہ دعوی ہے کہ روپے کے مقابلے میں ڈالر مہنگا ہونے کے باوجود آج بھی پاکستان میں تیل کی قیمت تیل درآمد کرنے والے دوسرے کئی ممالک کی نسبت کم ہے اور ہر ماہ دی جانے والی سبسڈی کی وجہ سے حکومت کو ہر ماہ اربوں روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ حکومت کا یہ دعوی محل نظر ہے کیونکہ پٹرولیم مصنوعات کی موجودہ قیمتیں اس وقت مقرر کی گئی تھیں جب عالمی منڈی میں تیل 110سے 112 ڈالر فی بیرل فروخت ہو رہا تھا اور اب جبکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کے نرخ 80 ڈالر فی بیرل سے بھی نیچے آ گئے ہیں تو پاکستان میں نہ صرف یہ کہ پرانی قیمتیں برقرار ہیں بلکہ ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سیاسی و معاشی ماہرین مسلسل اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اگر حکومت پٹرولیم مصنوعات پر لگائے جانے والے مختلف ٹیکسوں میں صرف ایک یا دو کو ہی کم کر دے تو اس سے عوام کو خاطر خواہ ریلیف مل سکتا ہے ۔اگر حکومت کے اس دعوے کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات پر اربوں روپے کی سبسڈی دے رہی ہے تو یہ زر تلافی امرا اور غربا کو یکساں طور پر مل رہا ہے ۔اگر ارباب اختیار کو ملک کے غریب اور پسماندہ طبقات کا فائدہ مقصود ہو اور ہر مہینے دیئے جانے والے اربوں روپے کی سبسڈی کو صرف پبلک ٹرانسپورٹ اور چھوٹی گاڑیوں کیلئے مختص کر دیا جائے تو اس سے اس کی افادیت کا دائرہ وسیع تر ہو سکتا ہے کیونکہ جو لوگ لگژری گاڑیاں رکھنے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ پٹرول کی زیادہ قیمت بھی دے سکتے ہیں۔ ٹیکسوں کے نفاذ کا اصول بھی یہی ہے کہ جو زیادہ ٹیکس دے سکتے ہیں ان سے زیادہ وصول کیا جائے اور اسے پسماندہ اور نچلے طبقے کی بہبود کیلئے استعمال کیا جائے۔