امریکہ میں مذہب اسلام پر ہونے والی سلسلہ وار عوامی تحقیق کے بعد اس کی روشنی سے امریکی عوام کی مذہب اسلام میںروزبہ روز شمولیت نے امریکی حکمرانوں کی نیند حرام کررکھی ہے۔ کوشیش یہ کی جارہی ہے۔ کہ کسی طرح اس مذہب کی تعلیمات سے امریکی عوام کو ددر رکھا جائے ۔کوشیش یہ بھی کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کے امریکہ مخالف جذبات کو بھڑکا کر مسلمانوں کو امریکہ کا دشمن بنا کر پیش کرکے اپنی پریشانی کا حل کیا جائے مگر ابھی تک اسکواِس میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے۔امریکی عوام کو مذہب اسلام میں داخل ہوکر ان کو مسلمان بننے سے روکنے کیلئے امریکی حکمراں عیسائیت کے مفاد میں مسلمانوں کے امریکہ مخالف جذبات بھڑکا کرایک خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں اور یہ مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کی ایک نئی جہد ہے اور دنیا کا مسلمان امریکی حکمرانوں کی منشاء کے مطابق ناگہانی طور پرپُر تشدد احتجاج میں الجھ گیا ہے۔ بلکہ اس کو ایک سیاسی مفاد کی خاطر دانشتہ الجھا گیا ہے۔ جس سے ان حکمرانوں کو مسلمانوں کو دھشت گرد کہنے کا ایک نایاب موقعہ ان کے ہاتھ آگیا ہے۔
مسلمان اپنے ہی ملک کا اثاثہ غیر ملکی مفاد کیلئے خود تباہ و برباد کرنے پر آمادہ ہے بھولے بھالے عوام کو یہ نہیں معلوم کہ ان کا احتجاج سازش کاروں کی خوبصورت حکمت عملی کا ہی ایک حصہ ہے۔ امریکہ میں ایک فلم بنی ۔اس کے بنانے والوں کو کوئی نقصان ابھی تک نہیں پہنچا ہے۔بلکہ امریکی انتظامیہ کی طرف سے ان کو تحفظ حاصل ہے۔ مگر نا سمجھ مسلمان خود اپنے وطن کی املاک کو نذر آتش کرکے خودہی کو نقصان پہنچانے میں ایک اہم کردار ادا کرچکے ہیں۔جذباتی مسلمان۔ مذہب اسلام کیلئے کام نہیں کررہے ہیں۔ بلکہ امریکی حکمت عملی اور ان کے حکمرانوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے کام ہورہاہے۔
حالانکہ ان کا احتجاج ملت اسلامیہ کی بھلائی کیلئے ہونا چاہئے۔ مسلمانوں کے امریکہ کے خلاف جذبات بھڑکاکر مذہب اسلام کے ساتھ جو گہری و خطرنا ک سازش کی گئی ہے۔ اس کو ناکارہ بنانے کیلئے سب کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ وہ مہم جب ہی ناکام ہوگی۔ جب مسلمان اپنے اپنے ملکوں سے امریکی سفارت خانوں کو جمہوری و پُرامن احتجاج سے ختم کرائیں گے۔ اور اپنے اپنے ملکوں میں امریکی عوام کے داخلہ پر پابندی لگوائیں گے۔ کیونکہ فلم کے ذریعہ سے مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کی جو مہم چھیڑی ہوئی ہے ۔ اس سے مذہب اسلام سے وابستہ ہر فرد واحد دکھی ہے۔ احتجاج اب ان حکمرانوں کے خلاف ہونا چاہئے جنہوں نے اپنے ملک میںامریکہ کے سفارت خانہ کھول کر امریکی لوگوں کو پناہ دے رکھی ہے مسلمانوں کااحتجاج پُرتشدد و غیرجمہوری نہیں ہونا چاہئے۔امریکہ و برطانیہ میں بیٹھے لوگ مسلم مذہبی قائدین کے جذبات کو اپنے مفاد کی خاطر بھڑکاتے ہیں اور وہ بھڑجاتے ہیں۔اور لگ جاتے ہیںان کی سیاسی مہم کو کامیاب بنانے ۔لیکن اب اس کی مہم کو ناکام بنانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں۔اگر اس طرح کے واقعات منظر عام پر آتے ہیں۔ تو جذباتی احتجاج کے ذریعہ سے امریکی حکمرانوں کو فائدہ پہنچانے والا کوئی کام نہیں کرنا چاہئے۔حالانکہ بے ہودہ فلم کو ٹیلی کاسٹ کئے جانے کا عمل مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کی منظم سازش ہے۔ لیکن اس سازش کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ وہ تھے۔جومسلمانوں کا فائدہ کم امریکی حکمرانوں کو فائدہ زیادہ چاہتے تھے۔ آخر اشتعال انگیز بیان جاری کرنے کا مطلب کیا ہے۔ خود مشتعل ہونا اور عوام کو مشتعل کرکے ان میں گمراہیت پھیلا نا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آستین کے سانپوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ جو اپنی جیبیں گرم کرنے کی خاطر اس طرح کی حرکتیں کرتی ہے؟؟۔ رونما احتجاج میں ہزاروں مسلمانوں کو زخمی ہونا ۔ کچھ لوگوں کا اپنی زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھا ، اپنے ملکوں کی املاک کو خود اپنے ہی ہاتھوں سے تباہ و برباد کرنا یہ کسی اور کا نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کا ہی نقصان ہے۔
ایسی ناپاک سازشیں امریکی صدارتی انتخاب کی آمد سے قبل ترتیب دی جاتی ہیں۔ جس میں مسلمانوں کو امریکہ پر حملہ آور دیکھا یا جاتا ہے۔ اس لئے امریکہ میں تیارکردہ فلم کو منظر عام پر لانے کا مقصد خود بہ خود عیاں ہورہا ہے۔ کہ یہ بے ہودہ حرکت مہم مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرکے امریکہ کے خلاف صف آراء ہونے کیلئے ہی ترتیب دی گئی ہے۔یعنی مسلمانوں کی طرف سے ہونے والا احتجاج اب صرف امریکی حکمرانوں کے مفاد کا ایک حصہ ہی بن کر رہ گیا ہے۔ اور مسلمانوں کے احتجاج کے پُر تشدد ہونے کو ہی مورد الزام ٹہراکر ان کی تذلیل کی جارہی ہے ہیں۔ ایک طرف وہ مذہب اسلام کو دھشت گرد میں تبدیل کرنے سازش کرتے ہیں۔دوسری طرف مسلمانوں کو نیچا بھی دیکھاتے ہیں۔اس سے زیادہ شرمناک اور کیا بات ہوگی۔اسلئے مسلمانوں کو صبر وتحمل پر عمل پیرا ہونے کی فوری ضرورت ہے۔
muslim protest
عالمی سیاست کو اچھے طریقہ پر جاننے، پہنچانے اور سمجھنے کیلئے ملکر ایک مجموعی سعی کرنی چاہئے۔اور یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ القاعدہ ، طالبان و لشکر طیبہ کے حوالہ سے مذہب اسلام کو دھشت گردمذہب میں تبدیل کرنے کی جوتحریک نئے زاویہ کے ساتھ چل رہی ہے۔کہ کیوں امریکہ کے خلاف ان اسلام دشمن تنظیموں کے نمائندوں کی دھمکیوں کو منظر عام پرلاکر عالمی رائے کو گمراہ کیا جاتاہے۔اورپھر ان پر ڈروں حملے کرکے ان کوختم کرنے کا ڈرامہ ہوتا ہے۔یہ گمراہ کن ڈرامہ ان کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف ہوتا ہے۔ القاعدہ و طالبان وغیرہ کو تو ایک جواز کے طور پرسامنے رکھے جاتے ہیں۔یہ اسلام کو دھشت گرد مذہب تبدیل کرنے کی امریکہ میں تیار کردہ تحریکیں ہیں جو تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔اب تازہ امریکہ میں پھر فلم بینی کے ذریعہ پھر نئی کوشیش کی گئی۔جس سے حقیقت خود واضع ہوجاتی ہے۔ان کے عزائم مذہب اسلام کے تئیں کیا ہیں۔
فی الوقت ۔ مسلمانوں حکمرانوں کی جانب سے مذمتی بیا ن ہی کافی نہیں ۔کیونکہ اب پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے۔ اس لئے اب اجتماعی طور پرمسلم ملکوںو جمہوری ملکوں کو امریکہ سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لینے چاہیں۔یہ مذہب اسلام کے تحفظ کیلئے ضروری قدم ہے۔ اور جہاں جہاں مسلمانوں کو خاطر خواہ تعداد ہے۔وہاں مسلمانوں کو اپنے ملک کے حکمرانوں کودبائو بنانا چاہئے۔ کہ مذہب اسلام کو القاعدہ ، طالبان وغیرہ دھمکیوں کے حوالہ سے اس پاکیزہ مذہب کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کی خطرنا ک مہم کو کچلنے کیلئے ضروری ہے۔ اس سے کسی طرح کا ربط نہ رکھا جائے۔امریکہ کے خلاف القاعدہ کی دھمکیاںدنوں کے درمیاں ایک ربط کو جدا کرنے کیلئے پیش کی جاتی ہیں۔جس سے دنوںکے درمیان مفاہمت کی نفی کی جاسکے۔جبکہ یہ دھمکی آمیز بیان مفاہمت کا ہی نتیجہ ہے۔ ان داغنے جانے والے بیا نات سے مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب تبدیل کرنے کی بھر کوشیش کی جارہی ہے۔ان کے بیانات کے بعد مسلم ملکوں میں ڈرون حملے اسلام و مسلمانوں کو کچلنے ، اور مذہب کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کے تصدیق نامہ کے طو ر پر ہے۔
بہرحال ۔مذہب اسلام کو کچلنے کی سازش میں شریک ملکوںکی مذمت کرنے سے اب کام نہیں چلے گا۔ کیونکہ یہ ایک بھیانک سنگین جرم ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ مذہب اسلام کو احترام کرتے ہوئے ان سازش کاروں سے پُر امن طور پر ،سفارتی آداب کا خیال کرتے ہوئے سفارتی روابط جلد سے جلد منقطع کرلینے چاہیں۔عالم دنیا کے مسلمانوں کیلئے اوبامہ کی سربراہ کے طورپرموجودگی ایک سنگین المیہ ہے۔صبر، ضبط اور خاموشی سے خدا کے حضور میں اپنی فریاد کو رکھا جائے۔انشاء للہ مثبت نتائج ضرور نکلیں گے۔اب سڑکوں پر نہیں بلکہ خانقاہوں و عبادگاہوں میں عبادت گذاری سے ہی مسائل حل ہوں گے۔