امریکہ کے سیاسی گناہوں پر ملالہ کا پردہ۔؟

Malala Yousafzai

Malala Yousafzai

ملالہ پر بیرونی دنیا بلخصوس امریکہ و برطانیہ نے شفقت کا ہاتھ رکھ کر اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی جوکوشیش کی ہے۔وہ بڑی عجیب و غریب ہے۔اپنے گناہوں کو مسخ کرنے کیلئے ملالہ سے ہمدردی کا برملا اظہارکرکے مہذب دنیا کے سامنے سرخ رو رہنے کی ایک مہم چھیڑدی ہے۔ تاکہ اردو دنیا اور اسلامی دنیا میں یہ بات عام ہوجائے کہ ان کو مظلوم سے ہمدری ہے۔ وہ ظالم کے کبھی ساتھ نہیں رہے۔ ملالہ کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے کر انہوں نے اپنے دامن کو پاک و صاف کرنے کی جسارت کی ہے۔ جس جنگجو تنظیم کے رکن نے ملالہ پر حملہ کیااس کا سرپرست کون ہے۔جب امریکہ کے ڈرون حملے اردو دنیا و اسلامی دنیا پر ہوتے ہیں۔ ان حملوں میں بے قصور لوگ جن میں بوڑھے، خواتین ،نوجوان و شیر خوار بچے ہوتے ہیں۔مارے جاتے ہیں تو وہ بھی ملالہ جیسی ہی ہمدرد ی کے ہی مستحق ہوتے ہیں، مگر ان پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ الٹا ان پر دھشت گردی کا الزام لگا کر ڈرون حملوں میں ہلاک شدہ ان بے قصور وں کوہی مورد الزام ٹہرایا جاتا ہے۔ ان ہلاک شدگان پر کوئی رحم دلی کا اظہار نہیں ہوتا۔زبان خاموش ہوجاتی ہے۔ اور جسم پر لقویٰ مارجاتا ہے۔یہ تفریق کا مظاہر ہ کیوں ہے۔؟ تو سنئے۔۔۔۔!دراصل۔اردو دنیا اور اسلامی دنیا میں امریکہ کے سیاسی گناہوں کو پردہ فاش ہوا۔ کہ مذہب اسلام کودھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے ایک خفیہ منظم تحریک ہے۔مگر جو اعلانیہ طریقہ سے القاعدہ ، طالبان ، لشکر طیبہ ، جماعت دعوة و دیگر خوبصورت عربی ناموںکی چالس و پچاس تنظیمیں تخلیقی طور پرذرائع ابلاغ سے میدان میں لائی گئی ہیں۔ جن کی پہنچان یہ ہوتی ہے کہ ان کو امریکہ کا دشمن نمبراوّل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

وہ امریکہ کے خلاف بناوٹی ایک جنگجو رویہ رکھتی ہیں۔ جس سے یہ بات اجاگر ہوسکے۔کہ یہ امریکہ کی شدید دشمن ہیں۔ حالانکہ معاملہ اس کے الٹ ہوتاہے۔ ان کے ذریعہ امریکہ کو عنوان بنایا جاتا ہے۔اس پر دھمکیوں کے نشانہ داغے جاتے ہیں۔اس حوالہ سے یہ مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کیلئے کام کرتی ہیں۔ اس بات کا انکشاف مسلم دنیا کو ہوگیا ہے۔ اور امریکہ کا ایک گھنائونا چہرا ان کے سامنے آگیا ہے۔ کہ یہ تنظیمیں اسلامی حلیہ اختیار کرکے حقیقی اسلام پر حملہ آورہوتی ہیں۔ پاکستان کے سوات علاقہ میں امریکی دبائو میں ایک شریعتی نظام نافذ قائم کرایا گیا ۔جب تخلیقی حلیہ لوگوں نے وہاں اسلامی لباس کے ساتھ مورچہ سمبھال لیا تو پھر امریکہ نے پاکستان کو ہدایت دی کہ وہ اس کو ختم کرے۔ ان اسلامی حلیہ لوگوں کے خلاف کاروائی کی صورت میںپاکستان کے مسلم عوام اپنے حکمرانوں سے ناراض ہوجائیں۔ کیونکہ پاکستانی عوام کو امریکہ کی مکاری کا پورا علم تھا۔جب پاکستانی حکمرانوں نے ان ڈھونگیوں کے خلاف راہ نجات کا عمل شروع کیا ۔ تو امریکی منشاء و امریکی سمجھ کے خلاف وہاں کے عوام نے اپنے حکمرانوں کا ساتھ دیا۔ تو امریکی حکمرانوں کو دن میں ہی تارے نظر آنے لگے کیونکہ سوات میںان کی مکاری کا پردہ فاش ہوگیا۔سوات علاقہ میں امریکہ کی تحریک اسلامی شکل و صورت میںمذہب اسلام کو دھشت گرد میں تبدیل کرنے کی تھی۔ جس میں اس کو کامیابی نہیں ملی۔جیسے امریکہ افغانستان میں طالبان کی شکل میںمکمل طور پر قابض ہوا۔اسی طرح پاکستان پر قبضہ جمانے کی کوشیش کی گئی۔مگر پاک حکمرانوں نے مستعدی سے کام کیا۔ یہاں یہ بات بھی حیرت میں ڈال دیتی ہے کہ امریکہ نے طالبا ن حکومت کو سعودی عرب اور پاکستان سے زبردستی تسلیم کرایا۔اس اسلام دشمن حکومت طالبان کو ہندوستان سے تسلیم کرانے کیلئے اس کا ایک جہاز اغوا کراکرکندھار میں خیمہ زن کرایا گیا ۔ یہ جہاز کا اغوا نہیں بلکہ اس طرح ہندوستان پر اس مکار” طالبان نما امریکی حکومت” تسلیم کرانے کیلئے ایک دبائو تھا۔

اگر ہندوستان امریکہ کی خفیہ و مکار حکومت کو تسلیم کرلیتا۔تو پھر اس کو اغواشدہ جہاد کے بدلے دھشت گرد وں کو رہا نہیں کرنا پڑتے۔ہندوستان میں مقید دھشت گرد اسلامی حلیہ والے تھے۔ جن کو امریکہ کی خفیہ سرپرستی حاصل تھی؟۔ مزے کی بات یہ ہے۔ہندستان نے اپنے مسافروں کو آزاد کرایا۔اورعرب دنیا کے خلاف تیار کی جارہی امریکہ کی تحریک طالبان اور القاعدہ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔یہ اس خطہ کے عوام کیلئے ایک بڑی کامیابی تھی۔حالانکہ جہاز کا اغوا ۔ طالبا ن حکومت کوہندوستان سے تسلیم کرنے کیلئے امریکہ کا ایک سب سے بڑا خفیہ حربہ تھا۔جس میں 156 مسافروں کی زندگیوں کو دائوں پر لگایا گیا تھا۔ طالبان حکومت کو تسلیم کرانے کیلئے اس سے بڑا کوئی اور کام نہیں ہوسکتا تھا کہ جس سے ہندوستان کو مجبور کیا جاسکتا۔ اگر ہندوستان نے امریکہ کی خفیہ طالبان حکومت کو تسلیم کرلیا ہوتا ۔تو پھر امریکہ کو افغانستان میں مجبوراً اپنی خفیہ حکومت طالبان کو بے دخل کرکے وہاں ایک نئی کٹھ پتلی حکومت قائم نہیں کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔وہاں کی سابقہ طالبان حکومت کو امریکہ کی خفیہ سرپرستی حاصل تھی۔ جبکہ موجودہ افغان حکومت کو امریکی افواج نے چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے۔ حالانکہ امریکی فوج کو افغانستان سے انخلاء کی باتیں سامنے آرہی ہیں۔ مگر امریکہ کی خفیہ فوج طالبان اس کو ہر حال میں وہاں قابض رکھے گی۔ اور اپنی دھشت گردانہ کاروائی سے اس کی افواج کو روکے گی۔ اگر افغانسان میں امریکہ نے اپنی خفیہ فوج طالبان سے دھشت گرد واقعات کرائے تو پھر افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی ناممکن ہے۔مسلم عوام کی القاعدہ ، طالبان ، لشکر طیبہ و دیگر عربی ناموں کی تنظیموں کے تئیں آگاہی ، ان کی اصلی حقیقت کی جانکاری کے منشکف ہونے سے امریکہ کو شدید پریشانی ہے۔اسی لئے ہی امریکہ اپنے سیاسی گناہوں پر پردہ ڈالنے کیلئے ملالہ سے گہری عقیدت رکھے ہوئے ہے۔ تاکہ دنیا پر یہ واضع ہوسکے کہ امریکہ ۔القاعدہ، طالبان ،لشکرطیبہ و دیگر کا خفیہ ساتھی نہیں۔ اوسامہ بن لادن کانمائشی تخلیقی قتل بھی اس کے اپنے گناہوںپر پردہ ڈالنے کی ایک مذموم کوشیش تھی۔جس سے مسلم عوام یہ سمجھیں کہ امریکہ درحقیقت اپنی ان خفیہ تخلیقی تنظیموں سے دشمنی رکھتا ہے۔وہ ان کا کسی بھی طرح ہمدرد نہیں۔ملالہ کو اپنے بچائو کیلئے ایک عنوان بنایا گیا ہے۔بارک حسین اوبامہ طالبان کے خلاف کسی کاروائی کی بات کریں ۔ وہ اب ہمیشہ شک کے ہی دائرے میں ہی رہے گی۔کیونکہ کاروائی نمائشی ہی کی جاتی رہے گی کیونکہ یہ تحریک مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کیلئے وجود میں لائی گئیں۔ ان کا مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

امریکہ میں مذہب اسلام سے عقیدت رکھنے والے امریکی عوام جو تحقیق کے ساتھ مذہب اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ ان کو اسلام میں جانے سے روکنے کیلئے بریک کے طور پر القاعدہ و طالبا ن کی دھشت گرد ی کو پیش کیا جاتا ہے۔ امریکی عوام کو اس طرح ایک سبق دیا جاتا ہے۔ کہ و ہ جس مذہب اسلام سے رغبت رکھ رہے ہیں۔ ان کے کارنامے کیا ہے۔ کہ وہ بے قصور لوگوں کو مارتے ہیں۔ لیکن ڈرون حملوں سے جو دھشت گردی وجود میں ہے اس کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ ڈرون حملوں میں ہزاروں کی تعداد میں شیر خوار بچے زخمی ہوکر اپنا دم توڑتے ہیں۔ حالانکہ ان کو ملالہ کی طرح بچایا جاسکتا ہے۔ مگر ان کا ملالہ کے ساتھ ایک مکارانہ ہمدری ہے۔ مسلم دنیا کو گمراہ کرنے کی ۔ اب ملالہ کو انعامات ،تغمات سے بھی اقوام متحدہ اور بڑے ممالک کی طرف نوازہ جائے گا۔ بہرحال دیکھنا ہے۔ کہ امریکی اپنے سیاسی گناہوں پر ملالہ کا پردہ ڈال کر کتنا کامیاب ہوتا ہے۔۔؟؟؟اب جبکہ مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں القاعدہ ، طالبان، لشکرطیبہ دیگر عربی نامی تنظیموں کے حوالہ سے تبدیل کرنے کی اس کی تحریک بے نقاب ہوچکی ہے۔ اب اس پر کس کس طرح کی پیوند کاری ہوگی یہ دیکھنا ابھی باقی ہوگی۔؟؟امریکہ کا یہ اسلام کے تئیں ایک سنگین جرم ہے۔ اس کے اس جرم پر مسلم دنیا مجموعی طورپر ،متحد ہوکر کسی بھی وقت اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرسکتی ہے۔ ؟؟؟ اس کو ملالہ سے ہمدردی نہیں۔ صرف اس کو یہ فکر ستائے جارہا ہے۔ کہ بلکہ اس کے وجود اور چودھراہت کو خطرہ لاحق ہے۔ اس کا دفاع کیسے ہو۔جومسلم ممالک جیسے ایران،شام ،پاکستان اس سچائی کو سمجھ چکے ہیں۔ ان ملکوں میں کرایہ کے پُرتشدد احتجاج منعقد کراکر مسلم حکمرانوں کو کچلنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ جس سے امریکہ اس کے اتحادی دنیا پر اپنا دبدبہ قائم رکھ سکیں۔ القاعدہ ،طالبان کی دھشت گردی کا وجود تو صرف دبدبہ کی برقراری کیلئے ہے۔ ملالہ سے ہمدری کا اظہار کرکے وہ دھشت گردوں سے اپنی لاتعلقی کا برملا اظہار کررہے ہیں۔ آخر افغانستان میں طالبان کی معزول حکومت کوپاکستان و سعودی عرب تسلیم کرانے کا جرم کس نے کیا تھا۔؟ملالہ سے ہمدری کا ہوّا ہی ایک بے نقابی عمل ہے۔ جس کو مسلم دنیا مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔صر ف ملالہ سے ہمدری و عقیدت کیوں ہے۔

America

America

دیگر مظلومین سے کیوں نہیں؟؟ مغربی میڈیا سے ملالہ کی تشہیراسی طرز پر جاری ہے۔ جس طرز پر القاعدہ و طالبان کی ہوا کرتی ہے۔ ان کے تشہیری عمل میں کوئی فرق نہیں۔تو ان کی ملالہ سے ہمدردی دیکھاوے تک ہی محدودہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔لیکن یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہندوستان نے طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرکے بڑے ممالک کی نظروں میں اس وقت ایک جرم کیا تھا۔اسی لئے ان کی ایک دیرینہ برہمی تھی۔ایک انتقام کی آگ پوشیدہ تھی۔تو کیااس کا انتقام ممبئی میں دھشت گرد کاروائی کو انجام دے کر لیا گیا؟؟۔ اگر ہندوستان نے طالبان حکومت کوتسلیم کرلیا ہوتا تو شاید ممبئی حملہ وقوع پذید ہی نہیں ہوتا؟بہرکیف ملالہ پر طالبان کے حملہ کی گونج اقوام متحدہ تک مگر امریکہ کے سینکڑوں ڈرون حملوں میں زخمی و ہلاک ہونے والوں کی گونج اب کب ہوگی؟؟؟؟ ملالہ سے انسانیت کی بنیاد پرہمدری ہے یا کچھ اور تماشہ۔۔؟ ملالہ چونکہ ایک مسلمان ہے اس سے ضرورت سے زیادہ ہمدردی مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب بنانے کی جانب مذید پیش رفت ہے۔ ملالہ پر حملہ کو مسلم حملہ وروں سے منسوب کرکے ہی پیش کیا گیا ہے۔اب ملالہ سے ہمدردی کی شرارت ہورہی ہے۔جس کا باریک بینی سے مطالعہ کرنا ملت کے ہر فرد کی زمہ داری ہونا چاہئے۔

تحریر : ایاز محمود نئی دہلی