واشنگٹن پوسٹ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ حریف فلسطینی تنظیموں ، حماس اور فتح کے درمیان اتحاد کے معاہدے طے پاتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں ۔ اب پیر کے ایک معاہدے کے تحت یہ طیپایا ہے کہ مسٹر محمود عباس اس وقت تک ایک مخلوط حکومت کے وزیر اعظم ہونگے جب تک ایک نئی فلسطینی قیادت چننے کے لئے نئے انتخابات نہیں ہوتے ۔ غازہ میں اِس معاہدے پر حماس کے اعتراضات کیباوجود اگر اِس منصوبے پر عمل شروع ہوتا ہے، تو بھی، اخبار کے خیال میں، قلیل وقتی نقطہ نگاہ سے اِس سے بیشتر منفی نتائج برآمد ہونگے، کیونکہ حماس یہ بین الاقوامی مطالبے نہیں مانتی ، کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے، تشدد سے توبہ کرے اورسابقہ بین الاقوامی سمجھوتے بھی مان لے۔اور ایک مخلوط حکومت کے قیام سے اسرائیلی فلسطینی امن کے عمل کا بچا کھچا بھی چوپٹ ہو جائیگا۔ اور غالبا اِس کے نتیجے میں اسرائیل فلسطینیوں کے حصے کے ٹیکس کے محاصل کی ادائیگی کو بند کر دے گا اور امریکی کانگریس بھی شاید فلسطینی انتظامیہ کے لئے باقیماندہ امداد روک دے گی ۔ اخبار نے اِس صورتِ حال کے لئے محمود عباس کے ناقص ادراک کو ذمہ دار ٹھیرایا ہے، جنھوں نے ایک سال قبل اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ سفارت کاری بند کرکے اقوام متحدہ سے فلسطینی مملکت کو تسلیم کرانے کی کوشش کی،جو ناکام ہوگئی۔ اس صورت حال کا واحد امید افزا پہلو یہ ہے کہ حماس ، مصر اور شام کی بغاوتوں کے پس ِمنظر میں اپنی جگہ کا پھر سے تعین کر رہا ہیجِن کی وجہ سے شامی صدر بشارالاسد سیعملی طور پرحماس کا اتحاد ختم ہو گیا ہے، اور اس کی قیادت دمشق سے اپنا ہیڈکوارٹر چھوڑدینے پر مجبور ہو گئی ہے۔حماس کو مالی اور ہتھیاروں کی فراہمی ایران سے ہوتی تھی ۔ لیکن ایران عنقریب اس قابل نہ رہے گا کہ یہ امداد جاری رکھ سکے ۔ القصہ، اخبار سمجھتا ہے کہ اس مخلوط حکومت کے قیام سیفائدے سے زیادہ نقصان ہوگا۔ شام کی بغاوت پر ایک ادارئے میں واشنگٹن ٹائمز کہتا ہے کہ اِس ملک کے حریت پسندوں کوجس بربریت کے ساتھ دبایا جا رہا ہے، اس میں اور تیزی آ رہی ہے اور ابھی تک ان ہلاکتوں کو روکنے کے لئے کوئی بین ا لاقوامی سمجھوتہ نہیں ہوا ہے۔صدر بشارالاسد کے راج کے خلاف دس ماہ سے جاری جد وجہد میں تشدد انتہا کو پہنچ گیا ہے۔ فوج سے لوگ فرار ہورہے ہیں اور حریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں، جو اب اتنی بڑی ہو گئی ہیں کہ دمشق کے مضافات میں لڑائی ہو ری ہے ۔ مسٹر اسد کو ا ب احساس ہے کہ وہ جان بچانے کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ اِس لئے،بے رحمی سے جوابی کاروائی کر رہے ہیں۔ پچھلے سال لبیا میں انسانیت دوستی کی جس دلیل کی بنیاد پر مداخلت کی گئی تھی، شام میں اس مداخلت کا جواز پانچ گنا بڑھ گیا ہے۔ جب صدر اوبامہ نے اس کو اخلاقی لازمہ قرار دیا تھا۔ شامی فوج کی چیرہ دستیوں نے حامس کے شہر کو ذبح خانہ بنا دیا ہے، جہاں مردوں، عورتوں اور بچوں کا توپ خانے اور بندوقوں سے صفایا کیا جارہا ہے۔سڑکیں انسانی لاشوں اور اعضاسے اٹی پڑی ، فرار ناممکن ہے کیونکہ تمام راستے بند کئے گئے ہیں۔ اخبار کہتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کے بعض ارکان اس تشدد کو روکنے کی کوششوں میں حائل ہورہے ہیں ، روس اور چین نے سلامتی کونسل میں شام سے متعلق قرارداد کہ ویٹو کر دیا ۔ حالانکہ یہ قراردادپچھلے سال کی اس قرارداد کے مقابلے میں کہیں نرم تھی ، جس میں لبیا کی شہری آبادی کو بچانے کے لئے تمام ضروری اقدامات کر نے کے لئے کہاگیا تھا ۔ وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق، ملایشیا کی پولیس نے سعودی عرب کی ایک کالم نگار کو گرفتار کر لیا ہے ، جس کی پیغمبر اسلام کے بار ے ایک تحریر کی وجہ سے اس ملک میں اس کو موت کے گھاٹ اتارنے مطالبہ زور پکڑ گیا تھا۔ حمزہ کاشغری نامی اِس کالم نگار کو کوالا لمپر پہنچتے ہی حراست میں لے لیا گیا۔ سعودی حکومت نے اس ہفتے اعلان کیا تھاکہ کاشغری پر اشاعت کے لئے لکھنے پر پابندی لگائی گئی ہے اور یہ کہ ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے۔جدہ کے اس 23 سالہ اخباری کالم نویس نے ایک ٹوِیٹ میں پیغمبر اسلا م کے ساتھ ایک فرضی ملاقات پر خیال آرائی کی تھی۔ جس پر ان کی بار بار کی معذرتوں کے باوجود ان کے خلاف فتوے لگائے گئے ہیں اور ان کی موت کی سزا دینے کا مطالبہ زور پکڑ گیاہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق سعودی فرماںروا شاہ عبدللہ نے ان کی گرفتاری اور تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ کاشغری ڈر کے ماریپیر کے روز ملک چھوڑ گئے۔ اوراخبار نے ڈیلی بیسٹ ویب سائٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ کاشغری سیاسی پناہ کی درخواست دے رہے ہیں۔