بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا نے جنرل قاسم سلیمانی کے خلاف کارروائی کے بعد پاکستان کی فوجی قیادت کو اعتماد میں لیا لیکن بھارت کو بظاہر کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔
امریکی وزیر خارجہ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے رابطہ کیا اور پاکستانی فوجی تربیت بحال کردی۔ بھارت میں بعض مبصرین اسے خطے میں بھارتی مفادات کے لیے نقصان دہ قرار دے رہے ہیں۔
سابق سفارت کار ایم کے بھدر کمار نے اپنے ایک مضمون میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ”بھارت کے پڑوس میں اتنی اہم پیش رفت ہوگئی اور پھر بھی کسی نے بھارتی وزیر اعظم یا وزیر خارجہ کو فون تک نہیں کیا۔”
اسٹریٹیجک امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ کی صورت میں امریکا کو پاکستان کی مدد کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ ایسے میں امریکا بھی پاکستان کی مدد کرے گا۔
لیکن اس سے بھارت کی طرف سے دہشت گردی کے معاملے پر پاکستان کو نشانہ بنانے کی مہم کو دھچکا لگ سکتا ہے اور افغانستان میں بھی بھارتی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
تاہم بھارتی وزارت خارجہ نے بظاہر معاملے کوسنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک بیان میں کہاکہ مائیک پومپیو نے امریکا میں بھارت کے سبکدوش ہونے والے سفیر ہرش وردھن شرینگلا کو بریف کیا تھا۔ جب کہ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اپنے ایرانی ہم منصب جواد ظریف کے علاوہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو، عمان اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ سے فون پر بات کی۔
خیال ہے ان رابطوں کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خلیجی عرب ممالک میں بھارت کے لاکھوں شہری بستے ہیں۔ ایران کے ساتھ ان ملکوں کے کسی عسکری تصادم کی صورت میں بھارت کو وہاں سے اپنے لوگ نکالنے کے لیے عرب حکومتوں کی مدد درکار ہوگی۔
ادھر ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف سے بات چیت کے بعد جے شنکر نے ایک ٹوئٹ میں کہا مشرق وسطی میں صورت حال انتہائی سنگین ہو چکی ہے اور بھارت اس پر انتہائی فکر مند ہے۔
اگر ایران اور امریکا کے تعلقات مزید کشید ہ ہوئے تو پہلے سے سست روی کا شکار بھارتی برآمدات پر مزید اثر پڑے گا۔ بھارت کی مجموعی داخلی پیداوار پانچ فیصد سے نیچے آچکی ہے اور افراط زر کی شرح بڑھ رہی ہے۔
فیڈریشن آف انڈین ایکسپورٹ آر گنائزیشنزکے ڈائریکٹر ڈاکٹر اجئے سہائے نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”ابھی تک ایکسپورٹرز کی طر ف سے ان کے آرڈر پر کسی طرح کا اثر پڑنے کی اطلاع نہیں ہے لیکن ابھی تو آغازہے اگریہی حالت رہی یا کشیدگی میں اضافہ ہوا توخلیجی ملکوں اور بالخصوص ایران سے موصول ہونے والے آرڈر پر اثر پڑ سکتا ہے۔”
اگر بھارت کی درآمدات متاثر ہوئیں تو اس کا براہ راست اثر ملک کے کسانوں پر پڑے گا۔ ساتھ ہی پٹرول ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں سے عام آدمی پرمہنگائی کا بوجھ بڑھے گا۔ بھارت اپنے خام تیل کا اسی فیصد اور قدرتی گیس کی چالیس فیصد ضرورت برآمدات سے پورا کرتا ہے۔
بھارت نے پچھلے مالی سال کے دوران 207.3 ملین ٹن خام تیل درآمد کیا تھا۔ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کے باوجودوہ ایک عرصے تک تہران سے تیل لینے میں کامیاب رہا جسے امریکا کی سخت وارننگ کے بعد بالآخر گذشتہ برس مئی میں بند کرنا پڑا۔
ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کو اپنے ساتھ رکھے کا تاثر دیا۔ انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ سلیمانی نے بے قصور لوگوں کو مروایا اور نئی دہلی اور لندن تک میں دہشتگرد حملوں کی سازش میں ملوث رہے۔
ٹرمپ کا اشارہ غالباً فروری دو ہزار بارہ کے اس واقعہ کی طرف تھا جس میں نئی دہلی میں ایک اسرائیلی سفارت کار کی اہلیہ کی کارکو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں وہ، ان کا ڈرائیوراور دو دیگر افراد زخمی ہوگئے تھے۔ اسرائیل نے اس واقعہ کے لیے ایران کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔