امریکی صدر بارک اُوباما کا دعویٰ اورلن ترانیاں

obama

obama

جیسا کہ امریکی صدر اُوباما نے دعوی ٰ کیا ہے کہ ”ہم نے افغانستان میں کامیابی حاصل کرلی ہے …اور امریکی انتظامیہ افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرنے کے بعد افغان طالبان کے ساتھ دائمی دوستی کے قیام کے لئے بات چیت کا عمل شروع کرچکی  ہے اور اِس عمل کو خوش اسلوبی سے پائے تکمیل تک پہنچانے سے قبل ہی امریکی افواج افغانستان سے نکل رہی ہے ” امریکی صدر کے اِن دعوؤں کے بعد اَب سوال یہ پیداہوتاہے کہ ”کیا یہ حقیقت ہے کہ امریکا نے افغانستان میں کامیابی حاصل کرلی ہے …؟؟تو اِس کا جواب کچھ یوں ہے کہ ”جی نہیں…”کیوں کہ آج دنیا کے ممتاز جنگی اور سیاسی تبصرہ اورتجزیہ نگاروں کے نزدیک دس سالوں سے افغانستان میں پھنسا امریکا جو اَب تک اپنے اربوں اورکھربوں ڈالردہشت گردی کے خلاف اپنی خود ساختہ چھیڑی گئی جنگ میں پھونک چکا ہے مگر اِس کے باوجود بھی  اِسے ابھی تک ہرقدم  پر اپنی ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑرہاہے … اورکہیں سے بھی اِسے اپنی کامیابی کا کوئی ایک بھی ایسا سُراغ نظرنہیں آرہاہے کہ یہ کھل کر کہہ سکے کہ اِس نے افغانستان میں حقیقی معنوں میں کوئی ایک کامیابی حاصل کرلی ہے مگر اِن تمام تر حقائق کے باوجو د دنیا بھر کے تجزیہ نگار اِس بات پر حیران اور پریشان ہیں کہ دوسری جانب امریکی انتظامیہ یہ کیسے کہہ رہی ہے کہ” افغانستان میں امریکانے انگنت پریشانیوں اور مشکلات کے باوجود اپنی کامیابی کے وہ تمام تر اہداف حاصل کرلئے ہیں جن کے حصول کے خاطر امریکا افغانستان میں گھوساتھا”آج دنیابھر کے جنگی ماہرین اِس امریکی دعوے کو امریکیوں کی خوش فہمی اور امریکی انتظامیہ کی مضحکہ خیزی قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ اِن کا یہ کہنا ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنی جس کامیابی کے خواب لے کر گھوساتھااِسے ایک فیصد بھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے آج افغانستان میں امریکاکی حالت اُس افغان روس جنگ سے بھی زیادہ بدترہوچکی ہے جس میں افغانیوں نے روس جیسی سُپر طاقت کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی اور روس آج تک اپنی اِس غلطی کا ازالہ نہیں کرپایاہے سوائے پچھتاوے اور ہاتھ ملنے کے بہرکیف! ایسی ہی صورتِ حال سے آج امریکا بھی افغانستان سے گزررہاہے اور آج اِس کی پوزیشن ایسی ہوچکی ہے کہ اگر اِس نے اِن حالات میں اپنی ناکامی کا ذرابھی اظہار کیاتو اِس کی بہادری اور دنیاپر دہشت قائم رکھنے کا اِس کاسارابھرم خاک میں مل رہ جائے گاتو دوسری طرف اِس کے اپنے وہ باشعور عوام موجودہ امریکی انتظامیہ کا جینادوبھرکردیں گیں جس نے اَب تک اِنہیں اندھیرے میں رکھاہواہے اور اِنہیں بس ایک یہ ہی خواب دکھایاہے کہ افغانستان میں اِنہیں کامیابیاں مل رہی ہیں مگر حقیقت میں ایساکچھ بھی نہیں ہے آج امریکا افغانستان میں گھس کر خود کو ایک ایسے دلدل میں بُری طرح سے دھنساچکاہے کہ اَب جس سے آسانی سے نکلنا اِس کے لئے مشکل سے مشکل تر ہوچکاہے اور ایسے میں آج یہ اپنے نکلنے کے لئے جتنے بھی ہاتھ پیر ماررہاہے اُلٹا اِس دلدل میں اُتناہی دھنستاجارہاہے کیوںکہ حقیقت یہ ہے کہ آج امریکا افغانستان میں ہر قدم پر ناکام  ہوچکاہے۔  ایسے میں امریکاکے لئے افغانستان ایک ایسی زمین ثابت ہورہاہے جہاںاَب اگر یہ زیادہ دیر ٹھیرگیاتو اِس کا سُپر طاقت ہونے کا ساراغرور خاک میں مل جائے گااِن حالات واقعات کے پس منظر میں اَب بھلے سے اپنی سُبکی مٹانے اور امریکا میں آئندہ ہونے والے عام انتخابات میں اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے مسٹر اُوباما اِس طرح سے چاہئے جتناجھوٹ بولناچاہیں تو بولیںمگر اَب امریکی شہری اِن کی خوش فریبی میں نہیں آئیں گے۔ جیسے امریکا کے موجودہ صدرمسٹربارک اُوباما جو امریکی تاریخ کے پہلے سیاہ فام صدربھی ہیں اُنہوں نے ایک امریکی جریدے ”ٹائم میگزین” کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویومیں انتہائی اطمینان اور تحمل کے ساتھ اپنا سینہ ٹھونک کر ،گردن تان کر اور اپنے دونوں ہاتھوں سے مضبوط مکابناتے ہوئے اِس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ دس سال سے افغانستان میں نائن الیون کے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مصروف  اِن کی بظاہر بہادر اور چاک وچوبند مگرپیمپرز پہن لڑنے والی فوج نے نناوے فیصد کامیابی حاصل کرلی ہے۔اور اِس کے ساتھ ہی مسٹربارک اُوبامانے القاعدہ کے خلاف اپنی حکمتِ عملی کو انتہائی کامیاب قراردیتے ہوئے بڑے حوصلے اور جوانمردی سے اِس بات کا بھی انکشاف کیا کہ ہم نے اور جی ہاں!ہماری پیمپرز پہن کر جنگ لڑنے والی بہادر فوج نے افغانستان میںاپناہدف کامیابی سے حاصل کرلیاہے،اور مسٹراُوبامانے اپنے اِسی  انٹرویومیںیہ بھی کہاہے کہ حقیقت یہ ہے کہ ہر محاذ پر بیدریغ پیمپرز کا استعمال کرنے والی ہماری بظاہر بہادر فوج نے اُسامہ سمیت القاعدہ کے بہت سے ایسے سرکردہ رہنماؤں جن کا نام سُن کا امریکا میں اچھے اچھے پیمپرز کااستعمال کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے اَب ہماری اِسی پیمپرز  زیب تن کرنے والی فوج نے اُن سب کا خاتمہ کردیاہے اور امریکی صدر نے بڑے اطمینان اور تحمل کے ساتھ یہ بھی کہاکہ ہماری حکمتِ عملی اور بہادر امریکی افواج کے کارناموں کے بدولت القاعدہ تنظیم اَب بہت زیادہ کمزروہوچکی ہے اوراُ نہوں نے کہا کہ اِس کے کمزورہونے سے ہمارے شہریوں میں پیمپرز کا استعمال بھی بڑی حد تک کم ہوگیاہے جو پہلے کبھی بہت زیادہ ہواکرتاتھا۔
اگرچہ اِسی انٹرویو میں مسٹربارک اُوبامانے اپنے منصوبوں کو تقویت دینے کے خاطر پاکستان، افغانستان، روس، بھارت اور ایران سمیت خطے کے دیگر ممالک کو بھی مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ القاعدہ کے خاتمے اور خطے میں قیام ِ عمل کے لئے امریکی انتظامیہ اور پیمپرز پہنے والی ہماری امریکی افواج نے جتنی خدمات پیش کیں ہیں اِس کے بعد خطے کے مفادات کا خیال رکھنا مندرجہ بالاممالک کی اہم ترین ذمہ داری ہونی چاہئے اِس کامیابی کے حوالے سے مسٹراُوبامانے امریکاسمیت دنیابھر کے ممالک سے کہاکہ کوئی اِن کا موازنہ سابق امریکی صدر اور اُن کی پالیسیوں سے ہرگز مت کرے کیونکہ اُنہوں نے افغانستان میں جو جنگ شروع کی تھی اُس سے ایک طرف امریکی معیشت کا ستیاناس جو ہواسو ہوامگر دوسری طرف دنیاکے سامنے یہ بھید بھی کھل گیاکہ امریکی افواج نے افغانستان میں اپنی کامیابی حاصل کرنے کے لئے جہاں بیدریغ گولہ بارود کا استعمال کیا تو وہیں اِس نے ڈروخوف کی وجہ سے پیمپرز کے استعمال سے بھی پیچھے نہیں ہٹی مگر اچھاہواکہ ڈر اور خوف کے باوجود دنیاکے سامنے بظاہر بہادرنظرآنے والی امریکی فوج نے پیمپرز پہن کر ایسی کامیابی حاصل کرلی ہے کہ اِس پر امریکی اور نیٹوافواج خود بھی حیران ہیں کہ اُنہوں نے ڈراور خوف کے عالم میں یہ کیسی کامیابی حاصل کرلی ہے کہ اِنہیں اپناڈر چھپانے کے لئے پیمپرز کا استعمال کرناپڑا۔ بہرحال! سیاہ امریکی صدر بارک اُوبامانے ایک مرتبہ پھر اپنا سینہ ٹھونک کریہ دعویٰ بڑے زور دار انداز سے کیاہے کہ افغانستان میں امریکا کو جو کامیابی حاصل ہوئی ہے اِس میں اِن کی وہ حکمتِ عملی اور اِن کی تبدیل شدہ وہ خارجہ پالیسی ہے جس کی وجہ سے امریکاکو افغانستان میں کامیابی ملی ہے یعنی یہ کہ اُنہوںنے امریکا میں ہونے والے انتخابات میں اپنی ایک بار پھر کامیابی کویقینی بنانے کا سہرااپنے سر لیتے ہوئے اپنے شہریوں سمیت دنیا کو یہ بھی جتادیاکہ اُنہوں نے خارجہ پالیسی کا محور بدلنے کا نہ صرف وعدہ پوراکردیابلکہ افغانستان میں نائن الیون کے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ اور القاعدہ کے سرکردہ رہنماؤں کا بھی صفایاکرکے خاص طور پر امریکا اور اِس کے شہریوں کو محفوظ کرلیاہے اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے یہ دعویٰ بھی کردیاہے کہ اِن کی انتظامیہ اور گولہ بارود سے زیادہ پیمپرز کا استعمال کرنے والی امریکی اور نیٹوافواج کے اِن قابلِ تعریف کارناموں سے امریکا پہلے سے سوفیصد اور زیادہ مضبوط اور مستحکم پوزیشن میں آچکاہے اور نہ صرف یہ بلکہ اَب دنیاکو اِس بات کا بھی یقین ہوچکاہے کہ سُپرطاقت امریکاہے اوراَب یہی ہے جو دنیامیں قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتاہے اور نہ صرف یہ بلکہ امریکا کے پہلے سیاہ فام صدر مسٹربارک اُوباما نے اِنتہائی تکبرانہ انداز سے یہ بھی تک کہہ دیاہے کہ اگر گزشتہ تین سالوں کا موازنہ کیاجائے تو میں (بارک اُوباما)کہہ سکتاہوں کہ امریکااِس وقت پہلے سے زیادہ مضبوط ہوچکاہے یہ میری تبدیل شدہ خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے۔امریکی صدر کے اِن تمام کھوکھلے دعوؤں اور انکشافات کے بعد ہم اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسٹر بارک اُوباما جتنی چاہئے اپنے حق میں لن ترانیاں ہانک لیں مگر حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں ناکامی کی دیوی اِن کا ماتھا چوم رہی ہے اور کامیابی جو کبھی اِن کے خوابوں کی رانی ہواکرتی تھی وہ  اِن سے روٹھ کر کوسوں دور جاچکی ہے اورآج یہ بات افغانستان میں اِن کی پیمپرز پہن کر جنگ لڑنے والی فوج بھی جانتی ہے کہ افغانستان میں ہر معرکہ پر اِسے کتنی بار اپنے پیمپرز بدلنے پڑے تھے۔اور کامیابی اِن سے کیوں روٹھی تھی…؟؟ اور آج ناکامی اِن کے پیروں کی زنجیرکیوں بن گئی ہے.محمداعظم عظیم اعظم