یک نہ شُد دوشُدابھی ملتِ اسلامیہ گستاخانہ فلم ” انونسس آف مسلمز” پر ہی سراپا احتجاج ہے کہ پیرس سے اُمتِ مسلمہ کے مذہبی جذبات کو مزیدبھڑکانے کے لئے یہ خبر بھی آگئی ہے کہ ایک فرانسیسی ہفت روزہ چارلی حبیڈونے پچھلے دِنوں اِس کی تصدیق کردی ہے کہ اِس کے نئے ایڈیشن میں توہین آمیز خاکے شامل کئے گئے ہیں خبر ہے کہ مذکورہ شرانگیز ایڈیشن مارکیٹ میں آگیاہے جس کابدبخت اور گنہگار ایڈیٹر ایک کارٹونسٹ ہے اِس جہنمی کا کہناہے کہ اِن خاکوں سے اُن لوگوں کو ہی دھچکالگے گاجو دھچکالگنے کے خواہشمندہوں گے اِس موقع پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اِس قسم کی مذہبی دہشت گردی میں اسلام دشمن طاقتوں نے حد کردی ہے۔
اُمت مسلمہ کے مذہبی جذبات بھڑکا دینے والے سام بیسائل اور پاپی پوپ ٹیری جونز کے بعدہفت روزہ چارلی حبیڈوکا جہنمی ایڈیٹر بھی ملتِ اسلامیہ کے ہاتھوں کسی بھی معافی کا حقدار نہیں ہے جس نے مسلم اُمہ کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے لئے اپنے ہفت روزہ کے تازہ شمارے میں توہین آمیزخاکے شائع کرکے ملتِ اسلامیہ کو آگ بگولہ بنا دیا ہے جبکہ یہاںا فسوس کا مقام تو یہ ہے کہ حقوقِ انسانی کے علمبردار بننے والے امریکا، برطانیہ اور دیگرممالک کی طرح فرانسیسی وزیراعظم جین مارک نے بھی اِس ہفت روزہ کے ا یڈیٹر کو آزادی اظہارکا نام دیتے ہوئے۔
اِس کے تحفظ کے اقدامات کا فیصلہ کیا ہے ۔مگر ہم ملتِ اسلامیہ سے یہ ضرورمطالبہ کریں گے کے یہ اپنے جذبات کو قابومیں رکھیں اور اپنے ہی ہاتھوں اپنی ہی املاک اور جانوں کو نقصان پہنچانے کے بجائے اِن گستاخوں کا سرتن سے جداکرنے کی منصوبہ بندی کریں جو توہین رسالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج یوٹیوب پر گستاخانہ فلم” انونسس آف مسلمز” کی ریلیز ہونے کے بعد اِس گستاخانہ فلم کے خلاف اُمت مسلمہ میں جوصورتِ حال پیداہوگئی ہے اگر اِس پر قابو نہ پایا گیاتو خدشہ ہے کہ یہ آگ امریکا سمیت اُن اسلام دشمن طاقتوں کو کہیں جلا کر راکھ نہ کردے جو آزادی اظہارِ رائے کی آڑ میں گاہے بگاہے مسلم اُمہ کی مقدس ہستیوں کے شان کا مزاق اُڑانے کی غرض سے کبھی گستاخانہ فلم بنالیتے ہیں توکبھی توہین آمیز خاکے بناکردنیا بھر کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات بھڑکاتی ہیں اوراِن کا امتحان لیتی ہیں اوراِنہیں غصے کی حالت میںمبتلاکرکے اِن کا تماشہ دیکھ رہی ہوتی ہیں اَب اِن کفرانِ اسلام کو مسلم اُمہ کے اِس غیض وغضب سے ضرور سبق لینا چاہئے اگر ملتِ اسلامیہ نے اپنے جذبات کو بے قابو چھوڑدیا تو ہوسکتاہے کہ اِن(اسلام دشمنوں) کو اپنی جانیں بچانے کے لئے زمین کا ایک انچ ٹکڑا بھی نہ ملے۔
Salman rushdie- Taslima
اِن ساری باتوں کے پس منظر میں یہاں ہم بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہیں گے کہ اگر اُمتِ مسلم متحداور منظم ہوکر دودہائی قبل توہین رسالتۖ کے مرتکب شخص سلمان رشدی اور اِس جیسی بنگلہ دیش کی بدبخت اور ناپاک عورت تسلیمہ نسرین کو واصل جہنم کردیتی تویقیناآج کفرکی طاقتوں میں اتنی جرات کبھی پیدانہ ہوتی آج اِن میںاتنی ہمت پیداہوگئی ہے کفر کی طاقتیں یہاں تک پہنچ گئیں ہیں کہ اِنہوں نے گستاخانہ فلم اور توہین آمیز خاکے بنانے شروع کردیئے ہیں آج ہم اپنے جذبات کو پہنچنے والی ٹھیس پراپنے ہی املاک اور جانوں کو جو نقصان پہنچارہے ہیں اِس سے کفر کی طاقتوں کا کچھ نہیں بگڑرہاہے اُلٹاہم اپنی املاک اور جانوں کا نقصان پہنچاکر کفرکی طاقتوں کی اُس سازش کو تقویت دینے کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔
جس کے لئے اُس نے اُمتِ مسلمہ کو مشتعل کیا ہے ہم اپنے ہم وطنوں اور اُمتِ مسلمہ سے یہ کہیں گے کہ گستاخانہ فلم ریلیزکرنے اور توہین آمیز خاکے تیارکرنے والوں کا سرتن سے جداکرنے کی حکمتِ عملی تیار کریں نہ کہ جذبات کے ہاتھوں بہہ کر اپنی املاک اور جانوں کو نقصان پہنچائیں۔ اِدھر انتہائی حوصلہ افزا امریہ ہے کہ ہمارے حکمران بھی گستاخانہ فلم پر اپنے مذہبی جذبات قابومیں نہ رکھ سکے جس کا مظاہرہ اِنہوں نے اُس وقت کردکھایاجب 19ستمبر کواسلام آباد میں منعقد ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کئے جانے والے ایجنڈے کو موخرکرتے ہوئے ہمارے حکمرانوں نے اپنی تمام تر توجہ امریکا میں بنائی جانے والی گستاخانہ فلم” انونسس آف مسلمز” پر مرکوز کردی اور یو ٹیوب پر اِس فلم کے اجرا کے بعد پاکستان سمیت اُمتِ مسلمہ میں پیدا ہونے والی اشتعال انگیز صورت حال کا جائزہ لیا اور اِس گستاخانہ فلم سے اُمت مسلمہ میں پائے جانے والے غم و غصے پر گہری تشویش کرتے ہوئے امریکی انتظامیہ سے اپنا بھر پور احتجاج ریکارڈ کرایا ۔
گستاخانہ فلم بنانے والوں پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ور اِس گستاخانہ فلم کے خلاف جمعہ کوملک بھر میں یوم عشقِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم بنانے اور عام تعطیل کا بھی اعلان کیا(اگرچہ اِس میں سیاسی مقاصد زیادہ مگر مذہبی عنصر بھی کہیںکہیںضرور موجود ہے) جو اِس بات کا غماز ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی بھی اِس گستاخانہ فلم سے دل آزاری ہوئی ہے اَب حکومت کے اِس فیصلے کے آجانے کے بعد ہمارے میڈیا کو اپنے حکمرانوں کی شان میں ضرور ملے جلے (سیاسی اور مذہبی)قصیدے پڑھنے چاہئے جو کل تک یہ کہہ رہاتھا کہ ہمارے حکمران جو اُس ملک کے حکمران ہیں جس کی اساس اسلام ہے اِنہوں نے خالصتاََ ایک مسلم ریاست کے حکمران ہونے کے باوجود گستاخانہ فلم کے خلاف عالمی سطح پر کوئی آواز بلند نہیں کی ہے اور اِب جبکہ بحیثیت ایک مسلم ریاست کے حکمران ہونے کے ناطے ہمارے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے اپنی کابینہ کے اجلاس میں گستاخانہ فلم بنانے والوں سے نفرت کا اظہارکرتے ہوئے آئندہ ایسی ناپاک جسارت کرنے والوں کو باز رکھنے اور اِن کا قلع قمع کرنے کے خاطر اُمت مسلمہ سے اظہاریکجہتی کرتے ہوئے جمعہ کو ملک بھر میں پُرامن طریقے سے یوم عشقِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم بنانے اور عام تعطیل کا اعلان کردیاہے جو کہ کسی حد تک ایک قابل تعریف اقدام کہا جا سکتا ہے۔
اَب اِس موقع پر ہمیں اپنے جذبات کو ہر حال میں قابو میں رکھ کر اسلام اور مسلمان دشمن طاقتوں کو ایساسبق سیکھاناہے کہ جس سے اِن کے کلیجوں پر سانپ لوٹ جائے اور اِن کی اُمتِ مسلمہ کو مشتعل کرکے تماشہ دیکھنے والی سازش دم توڑجائے جس کے لئے ہمیںیہ کرناچاہئے کہ ہم پُرامن رہ کر اپنا احتجاج اُس وقت تک جاری رکھیں جب تک کفر کی طاقتوں کو اِس بات کا احساس نہ ہوجائے کہ اِنہوں نے ملتِ اسلامیہ کے مذہبی جذبات کو بھڑکاکے بڑی غلطی کی ہے اور اِسی کے ساتھ ہی جو اُمتِ مسلمہ ہے۔
اِس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ یہ 56 اسلامی ممالک پر مشتمل خواب خرگوش میں پڑی رہنے والی اُو آئی سی کی تنظیم کے مردہ ضمیر کو بھی جھنجھوڑے اور اِسے مجبورکرے کے یہ اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر عالمی سطح پرایسے افراد کولگام دینے کے لئے ایسے قوانین بنائے جو اُمتِ مسلمہ کی مقدس ہستیوں کی گستاخی کرنے کے مرتکب ہوتے ہیںجس کی وجہ سے عالمِ اسلام کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اَب یہ وقت آگیاہے کہ اُوآئی سی اِس قسم کی سازش کرنے والوںکو قلع قمع کرنے کے لئے کچھ کردکھائے تاکہ پھر کوئی مسلم اُمہ کے مذہبی جذبات بھڑکانے کی سازش نہ کرسکے ۔