اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں بسا لے مجھ کو
Posted on March 15, 2012 By Adeel Webmaster قتیل شفائی
Main nadan tha
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں بسا لے مجھ کو
میں ہوں تیرا نصیب اپنا بنا لے مجھ کو
مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی
یہ تیری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو
میں سمندر بھی ہوںموتی بھی ہوں غوطہ زن بھی
کوئی بھی نام میرا لے کے بلا لے مجھ کو
تو نے دیکھا نہیں آئینے سے آگے کچھ بھی
خدا پرستی میں کہیں تو نہ گنوا لے مجھ کو
کل کی بات اور ہے میں اب سا ر ہوں یا نہ رہوں
جتنا جی چاہے تیرا آج ستا لے مجھ کو
خود کو میں بانٹ نہ ڈالوں کہیں دامن دامن
کر دیا تو نے اگر میرے حوالے مجھ کو
میں جو کانٹا ہوں تو چل مجھ سے بچا کر دامن
میں ہوں اگر پھول تو جوڑے میں سجا لے مجھ کو
ترکِ الفت کی قسم بھی کوئی ہوتی ہے قسم
تو کبھی یاد تو کر بھولنے والے مجھ کو
بادہ پھر بادہ ہے میں زہر بھی پی جائوں قتیل
شرط یہ ہے کوئی بانہوں میں سنبھالے مجھ کو
قتیل شفائی