حدیثِ مبارکہ ہے کہ جب تم ( رمضان کا ) چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور جب (شوال کا) چاند دیکھو تو روزہ نہ رکھو، اگر (چاند) دکھائی نہ دے یا بادل ہوں تو پھر شعبان کے تیس دن گن کے فیصلہ کر لو،اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں چاند کے نظر آنے یا نہ آنے کا جھگڑا ہی نہیں رہتا ،مگر ہمارے یہاں ایسا نہیں۔شمالی امریکہ اور یورپ میں رہنے والے بیشتر مسلمانوں نے اس جھگڑے کاآسان حل یہ ڈھونڈلیا کہ جب سعودی عرب میں چاند نظر آجائے تو وہ بھی روزہ رکھ لیں اور عید منا لیں ،چاہے شرعی تقاضے کچھ اور ہی کیوں نہ کہتے ہوں، گذشتہ کئی عشروں سے ہمارے یہاں بھی کچھ مخصوص لوگوں نے اسی طرزعمل کو اپنارکھا ہے،یہی وجہ ہے کہ اہلیانِ شمالی وزیرستان و باجوڑ پہلے دن جبکہ خیبر پختونخواہ والے دوسرے دن اور باقی اہلیان پاکستان تیسرے دن عید مناتے ہیں،ہم حیران ہوتے ہیں کہ آخرپاکستان میں رمضان اور شوال کے ہی دو دو تین تین چاند کیوں نظر آتے ہیں۔؟ محرم، ربیع الاوّل اور دیگر قمری مہینوں کے دو دو تین تین چاند کیوں نہیں ہوتے؟دیگر اسلامی ممالک میں ہرسال رمضان اور عید کے چاند پر کیوں اس طرح تنازعہ پیدا نہیں ہوتا جس طرح ہمارے یہاں ہوتا ہے۔؟اس کا سیدھا سادا اور سب سے آسان جواب یہ ہے کہ ہمارے یہاں کونسا کام ایسا ہے جو طے شدہ اصولوں، ضابطوں ، آئین اور قانون کے مطابق ہوتا ہے،کون ہے جو ان کو اہمیت دیتا ہے،مانتا ہے اور عمل کرتا ہے،ارباب اختیار سے لے کر ایک عام آدمی تک ہمارا قومی طرز عمل اس کا شاہد ہے، جب سارا نظام ہی بگڑا ہو تا ایک چاند کا کیا رونا رویا جائے،شاید یہی وجہ ہے کہ خبیر پختوانخواہ کے ان انوکھے لاڈلوں کے کھیلن کیلئے ایک چاند کافی نہیں ہے۔
اس سال تو خیبر پختونخواہ والوں نے سعودی عرب کو بھی پیچھے چھوڑدیااور انہوں نے سعودی عرب سے ایک روز پہلے عیدمناکرایک نئی اور انوکھی روایت قائم کرکے ہمیں حیرت زدہ کردیا،یہ بات ہماری سمجھ میں نہیںآرہی کہ چاندصرف خیر پختونخواہ والوں کو ہی کیسے نظرآجاتا ہے جب کہ جدیدسائنسی علوم سے آراستہ محکمہ موسمیات اور ماہرین فلکیات اِس چاند کو دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں، یہ چاندکیساتھاجو اپنی پیدائش سے پہلے ہی خیبر پختونخواہ والوں کو نظر آگیااور اُنہوں نے سعودی عرب سے بھی ایک روز پہلے عیدمناکر اِنہیں بھی پیچھے چھوڑدیا…؟ ہمیں تو لگتاہے کہ خبیرپختونخواہ میں جن لوگوں نے 18اگست کو عیدمنائی اُنہوں نے یقینا عیدکے چاند کا الٹراساونڈ دیکھاہوگا اور اُسی کو دیکھ کر ہی عید منائی ہوگی …یا پھر اِن بھائیوں نے اُس لمبے ترین گنجے چاند خان کو دیکھ لیاہوگا جو سال بھر توپہاڑوں میں چھپا رہتا ہے۔
سال میں صرف دومرتبہ ہی پہاڑوں کی اُوٹ سے اپنا سر آہستہ آہستہ اوپراٹھاتا ہے یعنی ایک مرتبہ ماہ شعبان کی آخری تاریخوں میں رمضان کے چاند کی صورت میں اور دوسری مرتبہ عیدالفطر کے چاند کی شکل میں اور باقی مہینوں میںیہ پہاڑ میں ہی سویارہتاہے یاپھرہمارے خیبرپختونخواہ کے بھائیوں نے اپنی انگلی پر کاغذکا چاندچپاکر یاپھر مصورسے چاند کی تصویر بنواکراُسے دیکھاہوگا،اِس طرح اِنہوں نے چاند دیکھنے کی حجت قائم کی اورچاندنظرآگیا….کا شعور مچاکر عید کا اعلان کردیا ،بات کچھ بھی ہو لیکن …!! اِس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ عیدالفطر کا شمار مسلم اُمہ کے اَس عظیم مذہبی تہوار میں ہوتاہے جس کا نفس مضمون ہی چاردانگِ عالم میں اخوت ومساوات اور بھائی چارگی کا درس دینااور عفوودرگزر کواپناشعائربناکراِسے عام کرناہے، مگرافسوس ہے کہ ہمارے یہاں ایسا ہوتانظرنہیں آتاہے اِس کی کیاوجہ ہے…؟یہ کوئی نہ تو سمجھ پایاہے …اور نہ ہی بتانے کے موڈ میں نظرآتا ہے۔
Eid Moon
سوائے اِس ایک نقطہ کے کہ اِس تہوار کی آمد کی اطلاع دینے والے چاند کو ہمارے ایک خیبرپختونخواہ کے لوگ تعصب کی نظرکرکے اِسے متنازعہ بنادیتے ہیں اور پھراِس طرح اِس صوبے کے لوگ اپنے صوبے میں دو عیدیں کرکے اِس تہوار کی اس روح کو بھی مجروح کردیتے ہیں جو اتحاد و اخوت سے تعبیر کی جاتی ہے،اس کے ایک مخصوص طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی یہ عادت بن گئی ہے اس عظیم تہوار کو باقی اہلیان پاکستان سے پہلے منایا جائے اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد قائم رکھی جائے،یہ سلسلہ کوئی نیانہیں ہے بلکہ ہمارے اِس صوبے میں عیدالفطر کے موقع پر کئی سالوں سے ایساہوتاچلاآرہاہے اِس صوبے والے اِس تہوار کامزاح کرکراکرنے کے لئے ماہِ شعبان المکرم میں رمضان المبارک کا چانددیکھنے سے ہی اپنی تیاریاں شروع کردیتے ہیں اور ماہ ِ رمضان المبارک میں جب سارا پاکستان 29یا 30روزوں کی گنتی پوری کررہا ہوتا ہے تو ہمارے اِس صوبے کے لوگ اِن دنوں عیدمنارہے ہوتے ہیں اِس صوبے کے باسیوں کا تنازعہ رمضان اور عید کے علاوہ باقی کے دس اسلامی مہینوں کے چاندوں پر نہیں ہوتا…ایسے میں یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ اِس صوبے کے لوگوں کو اگرتنازعہ ہوتا ہے تو صرف اِن ہی دومہینوں رمضان المبارک اور شوال کے چاندوں پرہی اِن کا جھگڑاشدت کیوں اختیارکرجاتا ہے…؟اِس حوالے سے جب اِن سے پوچھا جاتا ہے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ اِن کے نزدیک یہ ایسامحض اِس لئے کرتے ہیں کہ یہ لوگ رمضان اور عیدسعودی عرب کے ساتھ کرنے میںاپنے لئے فخرِ عظیم تصورکرتے ہیں…اس بات کا اظہارگزشتہ دنوں اے این پی کے رہنمااور وفاقی وزیربرائے ریلوے غلام احمد بلور نے یہ کہتے ہوئے کیا خیبرپختونخواہ والے ایسا اِس لئے کرتے ہیں کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ عید مناکر سُرخروہوجاتے ہیں۔
سب سے زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ماہِ شوال کے چاند کے معاملے میںخیبر پختونخواہ والوںکا تنازعہ اِس سال تو اپنی حد وںکو پہنچ گیاجب اِس صوبے والوں نے بعض مقامات پر سعودی عرب سے بھی ایک دن قبل عیدمناکر ایک نئی ریت قائم کردی ہے جبکہ اِس کے بعد بھی اِس صوبے میںاگلے دو دنوں میں بھی مختلف مقامات پر نماز عید کااہتمام کیاگیااِس طرح اِس صوبے میں تین دن تک نماز عیدالفطر اہتمام کیا گیاجس پر وفاقی وزیراطلاعات ونشریات قمرزمان کائرہ نے بھی انتہائی محتاط انداز اختیارکرتے ہوئے اظہارِ خیال کیاکہ عیدالفطرمسلمانوں کے اِن تہواروں میںسے ہے جویکجہتی کی علامت ہے آج جب سائنسی علوم اپنے عروج پر پہنچے ہوئے ہیںمگرہم پھر بھی فروعی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اُنہوںنے واضح طور پر کہاکہ مگر اِس کے باوجود بھی ہمارے ملک میں ایک صوبے کے اندرکچھ لوگوں نے اِس معاملہ کو بھی متنازع بنا دیا ہے جو بڑی افسوسناک بات ہے۔
سمجھ نہیں آتاکہ جب محکمہ موسمیات اور ماہرین فلکیات واضح کرچکے تھے کہ پاکستان میں19اگست سے قبل ہلالِ عید نظرنہیںآئے گا تو پھر صوبے خیبرپختونخواہ والوں نے 18اور19اگست کیسے عیدمناڈالی…؟جس پر ملک کا ایک سنجیدہ اور باشعور طبقہ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیامرکزی رویت ہلال کے فیصلے سے اختلاف کرنے والے ملک میں فرقہ ورایت کو ہوادینے والی کسی گھناؤنی سازش کا توشکارنہیں ہوئے ہیں…؟یااگراِس صوبے کے باسیوں کے نزدیک رمضان المبارک اور عیدکا اہتمام سعودی عرب کے ساتھ کرناباعث سعادت ہے تو پھر اِنہیں یہ بھی سوچناچاہئے کہ یہ سال کے باقی دس مہینے بھی سعودی عرب کے ساتھ کرنے کا اہتمام کریں۔
اِسی طرح ماہ رمضان میں سحری اور افطاری کے اوقات کار بھی سعودی عرب کے ساتھ نتھی کرکے اِن کا اہتمام یہاں کیاکریں…مگرایساکرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیں کہ یہ رہتے ، کھاتے پیتے، پہنتے اُڑھتے، سوتے جاگتے، کماتے اور خرچ کرتے،مرتے جیتے اور اپنے بچے پیداتو پاکستان میں کرتے ہیںمگررمضان اور عیدکے معاملے میں سعودی عرب کی طرف کیوں دیکھتے ہیں…؟کیایہ چیئرمین رویتِ ہلا ل مفتی منیب الرحمان سے مسلکی بغض اور عناد کی وجہ سے تو نہیں……!اگر ایساہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو پھر ہمارااپنی حکومت کو یہ مشورہ ہے کہ خیبرپختونخواہ والوں کے رمضان المبارک اور عیدالفطر سے متعلق جلدبازی میں دیکھے جانے والے چاندوں سے جنم لینے والے انتشارکو ختم کرنے کے لئے ایسالائحہ عمل مرتب کیاجائے جس سے خیبرپختونخواہ والے آئندہ سال ایساکوئی عمل نہ دہرائیںجس سے صوبے میں پھر رمضان المبارک اور عیدالفطر کے چاند پر تنازعہ کھڑاہوجائے اور پھر اِس صوبے کے باسی تین عیدیںمنائیں ملک میں ایسادوبارہ ہونے سے بچنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ اِنہیں مجبورکیاجائے کہ وہ ہر حال میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ حتمی تسلیم کریںاور اُسی روز رمضان المبارک کے روزے رکھیں اور اُسی دن عید منائیںجب مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے مفتی منیب الرحمان اعلان کریں۔اس سال ایک رمضان کی ابتداء سے قوم میں یہ قوی اُمیدپیداہوئی تھی کہ عیدالفطر بھی سارے ملک میں ایک ساتھ منائی جائے گی جس سے ہم دنیا کو یہ بھی پیغام دینے میں کامیاب ہوجائیں گے ہم ایک قوم ہیں،ہم ایک اللہ ، ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ایک قرآن کے ماننے والے لوگ ہیںکسی نے ہماری جانب اپنی میلی آنکھ سے بھی دیکھاتوہم اِس کا جینادوبھرکردیں گے ،مگر افسوس ہے کہ عید کے چاند پر ایسانہ ہوسکا اَب آپ اِسے اپنی قوم کی بدقسمتی کہیں یا تباہی و بربادی کا ذریعہ کہ ہم نے عیدکے چاند کو جس طرح متنازعہ بناکر ساری دنیا میں اپنی قوم اور شعائرِ اسلام کو مذاق بناکر پیش کیاہے،اس کی مثال کہیں نہیں ملتی ہے۔
eid namaz
ہمارا ملک پاکستان کی جس کل آبادی کم وبیش 18کروڑ کے قریب ہے اور چار صوبوں سندھ ، پنجاب، خیبرپختونخواہ اوربلوچستان پر مشتمل ہے رکھنے اِس ملک میں اِس مرتبہ دونہیں بلکہ تین دن علیحدہ علیحدہ نمازعید کے اجتماعات منعقد کرکے عید منائی گئی سب سے پہلے ایک صوبے خیبر پختونخواہ میں ہفتہ18اگست، اورپھراُسی صوبے میں اکثر مقامات پراتوار19اگست کو بھی عید کی نماز کے اجتماعات منعقد ہوئے جس میںصوبے کے وزیراعلیٰ نے نماز عید ادا کی جبکہ اِسی صوبے کے گورنر نے اِس روز روزہ رکھ کر اپنے تیس روزے پورے کئے اور اُنہوں نے پیر20اگست 2012کو تین صوبوں سندھ ، پنجاب اور بلوچستان سمیت ملک بھر میں منائی جانے والی عیدکے ساتھ عید مناکر مکمل ملی یکجہتی اور اتحاد و یگانگت کا ثبوت دیا۔
صوبہ پختونخواہ کے اس طرز عمل نے یہ ثابت کردیا ہے ہم ایک ایسی قوم سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں جو نہ صرف دنیاوی معاملا ت میں ہی نہیںبلکہ شریعت کے اٹل اصولوں میں بھی باہم متحد ومنظم نہیں ہیں،پھر وہی مرغی کی ایک ٹانگ والی ضدپر آڑکراور اپناطرہ اُونچارکھنے کی فکر میں اُس حد تک پہنچ جاتے ہیںجس کی نہ تو شریعت ہی اجازت دیتی ہے اور نہ ہی ملک کا آئین وقانون اپنے اندر کوئی گنجائش رکھتاہے، امسال ہماری قوم نے تین عیدیں مناکر جہاں ساری دنیامیں اپنے ملک کو طنزاور استہزاکا نشانہ بنوایا،یہ بات حکومت پاکستان کوسوچنی چاہیے کہ اس ملک میں ایسا نظام کیوں چل رہاہے؟ اس صوبے کے عوام پر قانون تو پاکستان کے لاگو ہوں مگر اسلام کو بدنام کرنے کے لیے یہ اپنی مرضی کریںاور ان کی ایسی حرکت سے نہ صرف پاکستان کی بدنامی ہے بلکہ اس سے زیادہ اسلام پر دھبہ لگتا ہے۔
ملک میں ایسادوبارہ ہونے سے بچنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ اِنہیں پا بند کیا جائے کہ وہ ہر حال میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ حتمی تسلیم کریں اور اُسی روز رمضان المبارک کے روزے رکھیں اور اُسی دن عید منائیںجب مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین اعلان کریں،لہٰذا ہمارا حکومت سے مطالبہ کرے کہ وہ خیبرپختونخواہ والوں کو ہر حال میں مجبورکرے کہ وہ آئندہ مرکزی رویت ہلال کیمٹی کے ہر فیصلے کے پابند رہیں وگر نہ ان کے خلاف آئین وقانون کے خلاف کاروائی کیجائے۔تحریر: محمداعظم عظیم اعظم