چار سال کے طویل خاموشی کے بعد ہمارے وزیر اعظم کی زیرِ صدارت بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے لئے ہمارے وزیرِ خزانہ حفیظ شیخ اور وزیرِ بجلی نوید قمر صاحبان نے ایک انوکھا فیصلہ کیا کہ پوری قوم 2دن کی چھٹی کرے ۔ شاباش ہے وزیراعظم کی کابینہ کو جس میں اکثریتی جماعتیں شامل تھیں فورا اس لال بھجکڑ فیصلہ کو نہ صرف منظور کر لیا بلکہ اس کو 15اکتوبر 2011 سے نافذ بھی کر دیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے فیصلے کرنے سے قبل تمام صوبوں کے نمائندوں سے مشاورت کی گئی ، کیا تمام صنعتی اداروں جن میں فیڈریشن، چیمبرز ،علاقائی صنعتی ایسو سی ایشن کے نمائندوں سے مشاورت کی گئی؟ دونوں کا جواب ہے کہ نہیں کی گئی صرف بیورو کریٹ حضرات اور عوامی نمائندوں سے کی گئی جن میں اکثریت جاگیرداروں، وڈیروں اور چوہدریوں کی ہوتی ہے ان کو الف کے نام صنعتی ابجد سے بھی ناواقفیت ہوتی ہے ۔ اب آئیے حقیقت کی طرف پاکستان دنیا کا خوش نصیب ترین ملک ہے جس میں خود بجلی پیدا کرنے کی بے پناہ قدرتی صلاحیتیں ہیں اول اس ملک پر سورج سے پڑنی والی شعاعیں بقول سائنسدانوں کے سب سے قریب اور تیز ہیں جنہیں ہم سولر سسٹم سے قابو کر سکتے ہیں،دوئم ہمارے دونوں سمندر جن سے ہم بجلی کے علاوہ دیگر کام بھی لے کر میٹھا پانی ، نمک اور کیمیکل پیدا کر سکتے ہیں اس کی طرف ہمارے کوئی توجہ نہیں ہے جبکہ عرب ممالک اس سے فائدہ اٹھا کر اپنے ریگستانوں کو ہرا بھرا کر کے اجناس ، سبزیاں ، پھل پیدا کر کے کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں، سوئم ہمارے سائنسدان بار بار ہمارے کوئلے کے خزانوں کی طرف توجہ دلا چکے ہیں جو 100سال کے لئے بھی کافی ہیں مگر اس حکومت کو بھی آج 4سال ہونے کو آئے ہیں تھر میں کوئلہ نکالنے کی توفیق نہیں ہوئی ہے جبکہ کوئلے کو قیمتی زرِ مبادلہ خرچ کر کے امپورٹ کیا جارہا ہے،چوتھی خوش قسمتی ہمارے سمندری ساحل ہیں جس سے ہم جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بجلی پیدا کرسکتے ہیں، پانچویں دریاوں پر ڈیم بنا کر اپنے اپنے علاقوں کو بجلی فراہم کر سکتے ہیں مگر سائنسدانوں کا کام ہمارے سیاست دان مورچے بنا کر بیٹھے ہیں ایک ایک وزارت کے لئے لڑتے ہیں مگر پاکستان کی سا لمیت کی ان کو پرواہ نہیں ہے معیشت بھاڑ میں جائے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب قبول مگر ڈیم نامنظور ۔ بھارت نے ایک طرف ہمارا پانی روک کر 100سے زیادہ ڈیم بنا لئے ہیں اور جب بارشیں زیادہ ہو جائیں انہی ڈیموں سے فاضل پانی یک دم چھوڑ کر ان کا رخ ہماری طرف چھوڑ دیتا ہے جس سے2 سال سے ہماری زمینیں سیلاب زدہ ہو چکی ہیں بھری فصلیں تباہ اور عوام بے گھر ہو رہے ہیں ۔ ہماری حکومت کی ساخت خود اپنے عوام میں اور بیرون ملک اتنی خراب ہے کہ کوئی ہم پر بھروسا نہیں کرتا جتنے اعلانات اور وعدے کریں اس سال تو سیلاب زدگان کی کسی نے کوئی مدد نہیں کی۔ اب میں آپ کو بجلی کے بحران کا اصلی تجزیہ پیش کرتا ہوں، بقول وزیر پیداوار بجلی ہم 14500میگا واٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں جبکہ ہماری ضرورت 19000میگا واٹ ہے گویا ہم صرف 4500میگا واٹ کم بجلی پیدا کر رہے ہیں گویا صرف 20فیصد بجلی کی کمی ہے ۔ دن کے 24گھنٹوں میں اگر صرف 4گھنٹے بجلی بند کریں تو بجلی کی ضرورت پوری ہو سکتی ہے تو پھر 12بارہ گھنٹے بجلی پورے ملک سے اوسطا جارہی ہے تو باقی 8گھنٹے کی بجلی کہاں جمع کی جا رہی ہے یہ صرف الفاظوں کا ہیر پھیر ہے جو ایک وزیر بجلی سے دوسرے وزیر بجلی اور ایک وزیر خزانہ سے دوسرے وزیر خزانہ تک 4سال سے جاری ہے ، ہمارے پہلے وزیر بجلی راجہ پرویز اشرف نے کھلے عام میڈیا پر اعلان کیا کہ ایک سال میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کر دی جائیگی اس وقت اسطا تمام دن میں 4گھنٹے کی بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی آج وہ بڑھ بڑھ کر آدھے دن تک تو جا چکی ہیں اور بعض علاقوں میں تو کئی کئی دن بجلی نہیں ہوتی لوڈ شیڈنگ تو دور کی بات ہے ۔ عوام کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ہمارے سب سے بڑے بجلی کے صارفین اپنی ضرورت کی بجلی اپنے اپنے کارخانوں میں جنریٹروں سے پوری کر رہے ہیں ، گھروں میں چھوٹے جنریٹر اور دوکانوں اور دفتروں میں درمیانے جنریٹر ہی بجلی کی ضرورت پوری کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ڈیزل ، گیس اور پیٹرول کا اضافی خرچہ بھی عوام خود اٹھا کر اس عذاب کو جھیل رہے ہیں اس لوڈ شیڈنگ کی آڑ میں ڈیزل ، تیل اور پیٹرول جو دنیا میں آدھے داموں پر دستیاب ہیں ہمارے عوام سے مہینے میں 2دو مرتبہ اضافہ کر کے اپنے بجٹ کی رقم کو پورا کیا جاتا ہے ۔ ہڑتالیں ، قتل ، لسانی تنظیمیں ، مہنگائی کی وجہ سے کئی کئی دن کاروبار بند ہوتا ہے تو وہ بجلی کہاں جاتی ہے کیا اضافی 52چھٹیوں ، شادی ہالوں ، نیون سائنوں سے بھلا لوڈ شیڈنگ ختم ہو سکتی ہے ہر گز نہیں ہر گز نہیں جب تک ہم بجلی کی پیداوار کی طرف جن کی راقم نے نشاندہی کی ہے حکومت اس طرف توجہ دے اور پورے ملک میں ایک چھٹی یا دو چھٹی کے نظام کے بجائے 7دنوں پر مشتمل چھٹیوں کا نظام رائج نہیں کیا جائیگا ، لوڈ شیڈنگ پر قابو نہیں پایا جا سکتا یعنی ایک شہر کو 7دنوں میں تقسیم کیا جائے اور علاقہ وار چھٹی کی جائے جیسا کہ بھارت نے یہ طریقہ رائج کر کے تجربہ کیا تھا آج وہ کامیابی سے جاری ہے مگر پھر بھی اضافی بجلی پیداکرنے کے تمام راستے اپنانے سے ہم اس سے نجات حاصل کر سکیں گے ۔4سال میں ہماری معیشت کو بٹھا دیا گیا تھا جو اب لیٹ چکی ہے اور آخر کار اس کو سلا دیا جائے گا ۔ بقول ہمارے وزیر خزانہ 18ویں ترمیم کے بعد تمام صوبے اپنی اپنی بجلی خود کیوں نہیں پیدا کرتے تو ایک صوبے والوں کو دوسرے صوبے والوں پر اعتبار ہی کب ہے پاکستان تو دور کی بات 100سال تک بھی ہم بجلی کا بحران ختم نہیں کر سکیں گے اوریوں ہی لڑتے لڑتے ملک گنوا لینگے۔