پاکستان اور آزاد کشمیر میں جمہوریت پنپ رہی ہے مگر اس کے ثمرات ابھی تک عوام کو نہیں مل پائے،اس کی وجہ کیا ہے؟یہ وہ سوال ہے جس کا جواب حاصل کرنے کے لیے اذہان کو بھی جمہوری سوچ کا حامل ہونا ہو گا کیونکہ اس کے سوا چارہ نہیں،جب اذہان جمہوری ہں گے تو ہر سوال کا جواب بھی جمہوری ہو گا۔ ہمارے یہاں رواج پڑ گیا ہے کہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر وہ سب جائز سمجھا جاتا ہے جو جدید جمہوری معاشرے میں سنگین جرائم کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ جمہوری دعوے ایسی شکل اختیار کر چکے ہیں جن پر اعتبار نہیں کیا جاتا ان دعووں کے خالق سیاستدان اتنا گند مچا چکے ہیں جس کی صفائی میں ایک طویل عرصہ لگے گا۔
ہمارے یہاں کی سیاست اتنی گندی کبھی نہ ہوتی مگر نظریہ ضرورت کے تحت اسے گندہ کیا گیا (ککھ پتی لکھ پتی بن گئے اور لکھ پتی کروڑ پتی اور اب یہ ہوس تو اربوں کھربوں سے بھی آگے نکل چکی ہے،مزے والے مزے لے رہے ہیں اور بیچارے غریب مجبوریوں کی دلدل میں گلے گلے تک اتر چکے ہیں مگر ان کے حوصلوں کو شاباش کہ ابھی تک چوں تک نہیں کی۔کچھ روز کی ہی بات ہے جب انسانوں کا ایک بحر بیکراں اسلام آباد کی معروف شاہراہ پر دھرنا دیے بیٹھا تھا،دھرنے کا نظم و ضبط اور مطالبوں سے لگتا تھا کہ حقیقی تبدیلی آنے والی ہے مگر قادری صاحب چند نکاتی مطالبوں پر مزاکرات کا لالی پاپ لے کر رخصت ہو لیے اور عوام بیچارے بیچ منجدھار میں دیکھتے رہ گئے کہ اب کی بار ایک عالم فاضل نے ان سے ہاتھ کر دیا ہے جب تک ان کی سمجھ میں یہ بات آتی دھرنا منتشر ہو چکا تھا اور وہ سب اپنے اپنے گھروں میں موجود تھے اور اس بات سے قطعی بے خبر کہ اب کوئی کسی پر اعتبار نہیں کرے گا،عوام بھی اس واقعے کو بھولتے جا رہے ہیں۔
Islamabad Long March
اب تو لگتا ہے کہ قوم کو کنٹینر کی سیاست کا عادی بنایا جائے گا جس کا جب جی چاہا ایک کنٹینر بنوا کر لوگوں کے ریوڑ ساتھ لے کر اپنے مطالبات منوانے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرتا دکھائی دے گا اور اپنا الو سیدھا کر کے بیچاری عوام کو کسی اور (کنٹینر والے) کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔کسی گائوں میں دو بلیوں کو روٹی کا ایک ٹکڑا ملا اور وہ اس کی تقسیم پر جھگڑ پریں قریبی درخت پر موجود ایک بندر نے یہ تماشہ دیکھا تو وہ (انصاف )کی غرض سے نیچے اتر آیا اور بلیوں سے بولا کیا ماجرا ہے؟بلیوں نے اسے اپنی رام کہانی بتائی تو وہ کہنے لگا آئو میں انصاف کروں،یہ کہا اور ایک ترازو لے آیا اور روتی کے دو ٹکڑے کر کے وزن کرنے لگا کہ برابر تقسیم کیے جائیں گے،وہ روٹی کا وزن برابر کرنے کے لیے ایک ٹکڑے کو اٹھاتا اور تھوڑا ساکھا کر پلڑے میں رکھ دیتا پھر دوسرے پلڑے میں رکھے ٹکڑے کو اٹھاتا اور برابر کرنے کے چکر میں تھوڑا سا کھا لیتا ، الغرض اسی برابری کے چکر میں وہ دونوں ٹکڑے چٹ کر گیا اور بیچاری بلیاں منہ دیکھتی رہ گئیں۔
کچھ یہی حال ہماری بھولی عوام کا ہے کہ وہ چالاک بندروں کے( انصاف) میں ماری گئی ہے،عوامی اثاثے ایک ایک کر کے بھوکے بندروں کے پیٹ میں جا رہے ہیں اور وہ پھر بھی انصاف کے چکر میں بندروں کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گئی ہے۔جمہوری دعوے کیے جا رہے ہیں کہ یہ کر دیا جائے گا،وہ کر دیا جائے گا،یہ کرنے کا ارادہ ہے، وہ کر لیا گیا ہے ، بھولے عوام کو کیا پتہ کہ ان کی قسمتوں کے فیصلے تو پہلے سے طے کر لیے جاتے ہیں جمہوری مشق تو محض ایک ڈھونگ ہے جس میں الجھا کر ایک نئی کھیپ عوامی اثاثوں کو ہڑپ کرنے کے لیے میدان میں اتر آتی ہے،نسل در نسل یہ ظلم جاری ہے اور جانے کب تک جاری رہے گا بیچاری عوام کو امیدیں لگی ہوئی ہیں کہ اب کی بار ان سے انصاف ضرور ہو گا اور اسی امید میں وہ اپنا ووٹ غلط بندے کے ڈبے میں ڈال کر اگلے پانچ سال کے لیے فارغ ہو جاتے ہیں مگر ان کی نسلیں ان کی اس غلطی کا خمیازہ کئی پنجسالوں تک جھیلتی ہیںدہشت گردی، خود کشیاں، ڈاکے، زنا بالجبر،اغوا کاری، بیروزگاری، تعلیم کی زبوں حالی ، عوامی محکموں کی حالت زار، ناانصافیاں ، ایسے مظالم ہیں جن کا حساب کسی کو تو دینا ہو گا۔
عوام تو پینسٹھ سال سے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں مگر پھر بھی پر امید ہیں مگر وہ جو مسیحا ہیں وہ کب اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گے؟کیا ایسا کوئی کنٹینر نہیں بن سکتا جس میں محکوموں مظلوموں کی پناہ کی جگہ ہو؟غریبو امید کا دامن نہ چھوڑنا کیونکہ دوزخ کا کنٹینر منہ کھولے انتظار میں ہے یہاں نہیں تو وہاں تمھارے ساتھ پورا انصاف ہو گا ، انشاء اللہ۔ ہمارے یہاں جو سچ کا دامن پکڑتا ہے اسے مصلحت کی سولی پر لٹکنا پڑتا ہے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اسے کسی چکر میں الجھا کر مار دیا جاتا ہے۔
Pakistan
اب ہمیں اپنے کردارو عمل سے اس چکر کو ختم کرنا ہو گا تا کہ وطن عزیز کو گند سے پاک کر کے اسے رہنے کے قابل بنایا جا سکے اور قائد کے خوابوں کو تعبیر دی جا سکے ، اس حوالے سے پاکستان کی واحد امید اس کے نوجوان ہیں جنہیں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور خوب سوچ سمجھ کر ، تا کہ کوئی انہیں ٹریپ نہ کر سکے اور ان کا عمل پاکستان کو ایک حقیقی قیادت دے جائے۔نوجوانوں کو مبنی بر انساف کردار و عمل ہی جمہوری تقاضے پورے کر سکتا ہے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ کون کیا ہے سب کو پتہ ہے مگر برے کو برا نہ کہا جائے تو قصور کس کا ، یہی وقت ہے جب برے اور اچھے میں تمیز کی جانی بہت ضروری ہو گئی ہے۔