عید کے چاند کی طرح اس بار پاکستان میں الیکشن کا انتظار بھی بڑی ہی بے تابی سے ہورہا ہے جسکی ایک خاص وجہ تحریک انصاف کی عوام میں بڑھتی ہوئی مقبولیت بھی ہے کیونکہ تحریک انصاف سے خائف چند سیاسی جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ الیکشن وقت سے پہلے ہوجائے ۔کب سے پاکستان میں صر ف دو ہی سیاسی جماعتوں نے معصوم عوام کو اپنے شکنجے میںجکڑاہوا ہے اور ان سیاسی جادو گروں نے اپنی جادو گری سے عوام کو ایسے اندھا کیا ہوا ہے کہ عوام سب کچھ دیکھنے کے باوجود بھی کچھ نہیں دیکھ پاتے ہیں اور ہر بار ان سیاسی جادوگروں کو ووٹ نہ دینے کا تہیہ کرکربھی انہیں کو اسمبلیوں میں دبارہ لے کر آتے ہیں کیونکہ اب سے پہلے پاکستان میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی ٹکر کی کوئی تیسری سیاسی جماعت موجود نہ تھی اسی لیئے ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ جمہوریت کے نام پر عوام کو بیوقوف بنایاہے۔ جمہوریت کا راگ سب سے زیادہ پاکستان میںالاپا جاتا ہے ۔جمہوریت !عام لوگوںکی حکومت ،عام لوگوں کے لیے، عام لو گوںکے اُپر لیکن پاکستان کے سیاستدانوں نے جمہوریت کے معنی ہی بدل دئیے یعنی ! جاگیردار وں کی حکومت ، زمیندارورں کے لیے ، غریب اور معصوم عوام کے اُپر۔چند مفاد پرست سیاستدانوں کا عوام کے ساتھ غیر سنجیدہ روئیہ رکھنے کی وجہ سے آج پاکستان کی نوجوان نسل یعنی پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے زیا دہ آمریت کی حمائیت کرتے نظر آتے ہیںاُنکا یہ خیال ہے کہ پاکستان کے بگڑے ہوئے حالات کو مارشل لاء سے ہی ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔پرویز مشرف کی آمریت کے بعد پاکستان میں ایک بار پھر سے جمہویت کا عمل وجود میںآیااور اس جمہوری حکومت کو قا ئم ہوئے تقریباًچارسال کا عرصہ گزر چکا ہے پاکستان کی تقریبا تمام بڑی سیا سی جماعتیں کسی نہ کسی طرح اس حکومت میں شامل رہی ہیںتوکیا آج عام عوام پہلے سے زیادہ خوشحال ہے ، کیا موجودہ جمہوری حکومت میں عوام کے وہ مسائل حل ہو چُکے ہیں جو مسائل دورِآمریت میںنہیں ہوئے تھے ؟ توبڑے ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسا کچھ نظرنہیں آتا بلکہ اِس عرصہ میں ، بھوک، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے ، کبھی پیٹرول تو کبھی گیس غائب، اور کبھی چینی ہے تو آٹا غائب ، کہیں کوئی بھوک اور غربت کی وجہ سے خودکشی کررہا ہے تو کہیں کوئی نوکری نہ ملنے کی وجہ سے حقیقت یہ ہے کہ مو جودہ جمہو ری حکومت میں پاکستان اپنی تاریخ کے سیاہ ترین دورسے گزر رہاہے اگر جمہوریت یہی ہے تو پھر آمریت اور جمہوریت میں فرق کیا رہا؟ یقینا ہمیں پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے کہ جس نے عوام میںاتنا شعور پیداکردیا ہے کہ آج پاکستان کا بچہ بھی سیاسی سوجھ بوجھ رکھتا ہے اور پاکستان میڈیا کی بدولت ہی ہماری سوئی ہوئی عوام بیدار ہو چکی ہے اور اب یہ لوگ سیاستدانوں کے ہر قول و فعل پر پوری پوری نظر رکھتے ہیںچند روز قبل میرا ایک چوراہے سے گزر ہو ا وہاں میں نے چند لوگوں کو اس بات پر بحث کرتے سُناکہ مشرف حکومت سے چُھٹکارہ پانے کے لیئے پاکستان کی تما م چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں متحد تھیںاور آپس میں اِنکا غضب کا اتفاق اورپیارتھا۔ لیکن آج جب عوام کے مسائل حل کرنے کا وقت آیا ہے تو ہمارے سیاسی اداکاروں نے عوام کی توجہ کو مسا ئل سے ہٹانے کے لیے عجیب و غریب ڈرامے شروع کیئے ہوئے ہیں، اسمبلیوں میں ایک دوسرے سے دست وِ گربیاں ہوتے ہیں تو کبھی ایک دوسرے کے لیے نا زیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں اور پھر انہیں گالی گلوچ سے بھرے ڈراموں کے ساتھ ہی اسمبلیوںکے اجلاس ختم ہو جاتے ہیںاور عوام کے کسی ایک مسلئہ کو اُٹھایا تک نہیں جاتا ۔ اصل میں یہ اندر سے سب مِلے ہوئے ہیں اور ایک ہیں ۔ تمام سیاستدانوں نے ہمیشہ عوام کو بیوقوف بنایا ہے ، بنا رہے ہیں اور شایدہمیشہ بناتے رہیں گئے اگر عوام نے اب بھی اِنکے اصلی چہروں کو نہ پہچانا تو۔ پاکستان میں آج بھی ووٹ لسانیئت ، قومیت اور مذہب کے نام پر لیے جاتے ہیں جو کسی طر ح سے بھی ایک پائیدار جمہوریت کے لیے موزوں نہیں ہے۔ آج کل پاکستان میں عمران خان کی بڑی چرچہ ہے اور وہ بھی عوام کو خوب بہلا رہے ہیںکہ بھٹو کے روٹی ،کپڑا اور مکان کے نعرے کو وہ پورا کریں گئے اور ادھر مشرف نے بھی 27سے 30جنوری کے درمیان پاکستان میں واپسی کا اعلان کر دیا ہے اب عمران کا کہنا ہے کے عوام کا سونامی میرے ساتھ ہے مشرف کہتا ہے کہ عوام کا زلزلہ میرے ساتھ ہے جبکہ پیلزپارٹی اور ن لیگ کا کہنا ہے کہ پورا پاکستان ہی انکے ساتھ ہے۔ کیایہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے جلسے ،جلوسوںمیں بڑی بڑی بڑہکیں لگا کر پاکستان کے عوام کی تقدیر بدل سکتے ہیں تو شاید یہ ناممکن ہوگا کیونکہ پاکستان میں اس وقت ضرورت ہے نظام بدلنے کی کیونکہ تبدیلی صر ف چہرے بدلنے سے نہیں آئیگی پاکستان کے عوام لاشعوری اور شعوری طورپر سیاسی ،معاشی اور اخلاقی بدحالی کا شکار ہیںاخلاقیات کی ایک مشال تو عمران خان کے قصور والے جلسئے میں ہی سامنے آگئی کہ لوگوں نے جلسے گاہ کی کرسیوں تک کو نہ چھوڑا لیکن اس واقع پر میرے ایک دوست نے کیا خوب بات کی ہے کہ پاکستان میں غربت ہی اتنی ہے اس میں قصوریوں کا کیا قصور ہے۔ پاکستان زار مُلک ہے اور ہر کسی کا اپنا اپنا نظریہ فکر ہے ،کوئی چاہتا ہے کہ پاکستان میں مارشل لاء لگ جائے کیونکہ ڈنڈے کے زور پر ہی حلات پر قابو پایا جاسکتا ہے ور کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ صر ف اور صر ف خالص جمہوریت ہی پاکستان میں ترقی کا ایک راستہ ہے ہر کسی کی اپنی سوچ ہے اور کسی کی سوچ پر پابندی نہیںلگائی جاسکتی ہے۔ ا گر ہم سب چاہتے ہیںکہ پاکستان خوب ترقی کرے ،پاکستا ن میں مظبوط جمہوریت قائم ہو اور ہمارا ملک پاکستان دنیاکے نقشے پر ایک مثالی مملکت اُبھر کر سامنے آے تو اس کے لیئے سب سے زیادہ ذمہ داری ہم عام عوام کی بنتی ہے اور جسے ا ب انجام دینے کا وقت آگیاہے کیونکہ پاکستان کی اصل طاقت نہ ہی بڑے بڑے زمیندار ،جاگیردار،بیوروکریٹس اور سیاستددان ہیںبلکہ ہم عوام ہیں ، ا گر ہم سب صرف اور صرف اپنے ووٹ کا صیح استعمال شروع کر دیں تو بہت جلد پاکستان میں تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔ لسانیت ، قومیت اور مذہب سے ہٹ کر صرف اور پاکستان کے لیے سوچیں اور ایسے لوگوں کو اسمبلیوں میں لیکر آ ئیںجو اُسکے صیح حقدار ہوں ۔ آو سب مل کر عہدکریں کہ آنے والے الیکشن میں ووٹ صرف صیح اور حقدار لوگوں کو ہی دیں گئے کیونکہ اگر اس بار بھی ایسا نہ ہوا تو پھر آپ خود ہی سوچ لیںکہ کیا ہوگا۔۔ وہی کرپشن ، لوٹ مار ، خودکشیاں،بجلی،گیس کی لوڈ شیڈنگ ، اداروں کی اپنی من مانیاں،پٹواریوںکی چھوٹے زمینداروںپر چودراہٹ اور تھانیداروں کی اپنے اپنے علاقوں میں بادشاہت یعنی ، جس کی لاٹھی اُس کی بھینس، پھر جہاں ایسے حالات ہوں کہ کرپشن ، لوٹ مار ،اور لاقانونیت عام ہو وہاں پھر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حکمران کون ہے کوئی بوٹ ،شیروانی یا کوٹ والا۔ تحریر:کفایت حسین کھوکھر