23مارچ 1940ء کو برصغیر کے مسلمانوں نے ایک قرار داد منظور کی جس کو قرار داد پاکستان کا نام دیا گیا اور اس کی یاد میں ایک تاریخی مینار بھی تعمیر کیا گیا جو ہماری آنے والی نسلوں کو بھی یاد کرائے گا کہ اس جگہ وہ تاریخی میٹنگ ہوئی جس کی بدولت ہم آج آزاد حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں اس جگہ پر جو مینار تعمیرکیا گیا ہے اس کو مینار پاکستان کے نام سے جانا جاتا ہے ۔پاکستان کا نام چوہدری رحمت علی نے تجویز کیا تھا اور پھر 14اگست 1947ء قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ایک آزاد ملک حاصل کرلیا ۔ قائداعظم اس کے پہلے گورنر جنرل بنے۔ آپ نے ہمیشہ پاکستان کی خودمختیاری اور بقاء کی جنگ لڑی۔ قائداعظم نے کبھی پاکستان کی غیر ت کا سودا نہیں کیا اور نہ ہی اس کا برا سوچا۔ قائداعظم نے اپنی تمام عمر ہندئووں سے پاکستان کی خوشحالی اور امن کی لڑائی لڑی لیکن بدقسمتی سے قائداعظم کی وفات کے بعد پاکستان کو آج تک کوئی ایسا لیڈر نہ مل سکا جو اس ملک کو سنبھال سکتا۔1948ء سے تاحال جو بھی حکمران آیا اس نے پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ اس نے صرف اپنی جائیداد اور بنک بیلنس بنایا۔
liaqat ali khan
تاریخ گواہ ہے آج تک کوئی حکمران ایسا نہیں جس نے اپنے ملک اور اپنی عوام کا ساتھ دیا ہو وہ جب بھی حکومت میں آئے وہ ووٹ تو پاکستان کی عوام سے لیتے ہیں لیکن خیال اپنے آقاؤں کا کرتے ہیں کیونکہ پاکستان کی عوام تو سیدھی سادھی اور بھولی بھالی ہے۔ وہ ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آجاتی ہے اور ان کو ووٹ دیکر اپنا خیر خواہ سمجھ بیٹھتی ہے لیکن یہ اپنے مفاد کے لیے کسی نہ کسی دوسرے ملک کی غلامی کرتے ہیں اور پاکستان کو ڈش میں رکھ کر دے دیتے ہیں۔لیاقت علی خان ملک کے لیے کچھ اچھے لیڈر ثابت ہونے لگے تو ان کو ایک بھرے جلسے میں گولیوں سے چھلنی کرکے شہید کردیا۔ اس کے بعد ملک میں جو تھوڑا بہت ترقی کا کام ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو کا دور تھا ۔ بھٹو نے جو سب سے اچھا کام کیا وہ ملک کا آئین تھا جو اس وقت سے ابھی تک چلا آرہا ہے مگر اس کی اصل شکل بگاڑدی گئی ہے۔ شاید یہ لیڈر ملک کے لیے اچھا ثابت ہوتا مگر اس کو بھی قربانی کا بکرا بنا کر پھانسی پر لٹکا دیا۔ اس کے بعد ضیا الحق کا دور شروع ہوا اس نے بھی اسلام کے نام بڑی دیر حکومت کی اور اس نے اپنے دور حکومت میں پہلی بار جنرل اسمبلی کے اجلاس میں تلاوت قرآن پاک کرائی۔ مگر حقیقت میں اس کے دور میں کلاشنکوف کلچر شروع ہوا اور وہ بھی ایک طیارے کے حادثے میں شہیدکردیے گئے۔ اس کے بعد تو ملک کا اللہ ہی حافظ ۔ جو حکمران آیا وہ پاکستان کا حکمران نہیں تھا بلکہ وہ کسی نہ کسی ملک کا پٹھو تھا۔
benazeer
پھر ایک لمبے عرصہ کے بعد جمہوری دورکا آغاز ہوا اور اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت کی صورت میں بے نظیر بھٹو کو حکمرانی ملی اور وہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی خاتون وزیراعظم بنیں۔ انہوں نے ملک میں کوئی ایسا کارنامہ انجام نہ دیا جس کو میرا بیان کرنا ضروری ہو۔ ہاں البتہ اتنا ضرور بتاتا چلوں کہ ان کی حکومت کے بعد یہ ایشو ضرور سامنے آیا کہ انہوں نے راجیو گاندھی کو سکھوں کی فہرست دی تھی جو خالصتان کے لیے لڑ رہے تھے اور مسلمانوں کی مد د بھی کررہے تھے۔اس کے بعد میاں نواز شریف کو ملک کی خدمت کرنے کا موقع ملا اور ان کے لیے مشہور تھا کہ یہ ضیاالحق کی باقیات ہیں۔ یہ حکومت بھی زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور پھر بے نظیر بھٹو کو ملک کی قیادت دوبارہ مل گئی اور ایک بارپھراسمبلیوں میں اور اسمبلی کے باہر بندر بانٹ شروع ہوگئی ۔ عوام ایک بار پھر پیچھے اور جیبیں بھرنے والے بے نظیر اینڈ کمپنی سے آگے۔اس حکومت کو بھی پورا ٹائم نہیں کرنے دیا گیا۔ان کی حکومت کو بھی ان کے بنائے ہوئے صدر فاروق لغاری نے کرپشن کے الزام میں فارغ کردیا۔
nawaz sharif
پھر نوازشریف نے دوبارہ دوتہائی اکثریت کے ساتھ ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالی ۔ نواز شریف نے اپنے اس دور میں پاکستان کے مختلف علاقوں میںسڑکوں کا جال بچھا دیاجس میں موٹروے سرفہرست ہے اورپھر پاکستان کو پہلی اسلامی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بنایا ۔ غیر اسلامی طاقتوں کو یہ گوارانہ ہواکہ مسلمان حکمران اپنے ملک کو اتنا طاقت وربنادیںیہی وجہ تھی کہ اسلام دشمن طاقتوں نے سازش کے تحت اپنے چہیتے ٹولوں کے ذریعے جمہوری حکومت کو ختم کرا دیا اور اپنے ایک اور پٹھو پرویز مشرف کی شکل میں پاکستان پر مسلط کردیا۔ اس نے اور اس کے ساتھیوں نے اپنے دور میں پاکستان کے عوام پر بڑے ظلم ڈھائے۔ جس میں بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی کا قتل ، لال مسجدکے واقعات بہت اہم ہیں۔اسی مشرف نے پاکستان میں سٹیجوںپر کھڑے ہوکر مکے دکھائے۔مگر آج اس کے وہ ساتھی اس کوچھوڑ کرموجودہ حکومت کے ساتھ شامل ہوکر پھر عیاشیاں کررہے ہیں۔آج جب اکبر بگٹی کے قتل میںعدالت عالیہ نے مشرف اور اسکے وزیراعظم شوکت عزیز کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرنے کا حکم دیا تو شوکت عزیز جو کبھی مشرف کا چہیتا وزیراعظم تھا تو اس نے یہ بیان دیاکہ یہ میرا نہیںسب کچھ مشرف کا کیا دھرا ہے۔مشرف کے تقریباً دس سال حکومت کرنے کے بعد دوبارہ جمہوری دورکاآغاز ہوا تو پیپلزپارٹی کو حکومت کرنے کا موقع ملا۔ اس وقت تو یہ حکمرانی کے لیے مسلم لیگ ن ،اے این پی، ایم کیو ایم، جے یو آئی ف اور دوسری چھوٹی پارٹیاں اس حکومت میں شامل ہوئیں۔لیکن آہستہ آہستہ اپنے مفاد کی خاطرحکومت سے جدا ہوتے گئے اور کبھی اکٹھے ہوتے رہے۔ آج جب آصف علی زرداری (صدرپاکستان) کو حکومت پر مکمل دسترس حاصل ہے مگر اس کے وزیراعظم اور کابینہ نے وہ کام کیا جس نے مشرف دور کے لال مسجد کے واقعہ کو پس پشت ڈال دیا۔ آج ہماری حکومت نے ایک ایسے ملک کو پسند یدہ قرار دے دیا جو ہمارا ازلی دشمن ہے۔ جس نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ کیا ہمارے لاکھوں نوجوانوں کا خون اسی وقت کے لیے بہایا گیا تھا؟ کشمیر کی عوام کس مقصد کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں اگر بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینا مقصد ہے تو پھر کشمیرکی آزادی چہ معنی دارد؟
آج ہم اتنے کمزور کیوں کہ ہم بھارت جیسے دشمن کو اپنے ملک کا بہترین دوست بنا رہے ہیں۔ کیا یہی ہماری خارجہ پالیسی ہے کہ ہم اپنے دوست اور اسلامی برادر ملک کو چھوڑ کر دشمن کو امیر بنانے کے لیے مہنگے داموں تجارت کررہے ہیں۔ اگر غیر مسلم ہی کو پسندیدہ ملک بنانا مقصد ہے تو پھر چین میں کیا خرابی ہے؟ چین جو ہمارے ہر دکھ اور دردمیں برابر شریک ہے اور ہمارے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر چل رہا ہے کیا یہی صلہ ملنا تھا اس کو۔مشرف جو اپنے دور حکومت میں اپنے آپ کو ملک کا ناخدا سمجھ رہا تھا وہ بھی اس وقت طاقت کے نشے میں بھول گیا کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اور جب اس کی پکڑآتی ہے تو اس سے کوئی نہیں بچ سکتا۔آج کے حکمران بھی اسی طرح کی غلطی کررہے ہیںاور جس ملک کی عوام چین کواپنا بہترین دوست سمجھتی ہے اس کو دھوکا دے کر بھارت سے دوستی کی پینگیں کیوں بڑھائی جارہی ہیں؟ ویسے تو ہر حکمران کہتا نظر آتا ہے کہ ہم فلاں فیصلے کے لیے عوام کے کٹہرے میں جائیں گے ۔ کیا انہوں نے اس فیصلے کے لیے عوام سے رجوع کیا؟ میرے سروے کے مطابق پاکستان کی عوام کبھی بھی بھارت کے ساتھ دوستی نہیں چاہتی ۔ وہ بھارت سے زیادہ چین کی شیدائی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آج کے حکمرانوں کو غلط رپورٹ دے کر یہ کام کرادیا ہو اوراب انہوںنے آنے والے وقت میں مشرف جیسی دشواریاں اپنے لیے پید اکرلیں۔کیونکہ عوام ہی اصل سپرطاقت ہے اورجب یہ بیدار ہوگئی تو اس کے سامنے بڑے سے بڑا پہاڑ بھی نہیں ٹھہر سکتا۔ اے حکمرانوں کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت اپنی عوام کے جذبات کو مدنظر رکھ لینا چاہیے کیونکہ اس کو ایک نہ ایک دن عوام کی عدالت میں آنا ہوتا ہے اور پھر وہ کس منہ سے عوام کو اپنی طرف مائل کریں گے۔بھارت چین سے کسی بھی شے میں آگے نہیں۔چین پاکستان کا دوست اور بھارت امریکہ اور اسرائیل کاپٹھو ہے۔ تحریر : عقیل خان svpresidentccp@gmail.com