اگر بچوں کے مسائل کے حل پر کوئی اختلاف نہ ہے تو پھر تمام سیاسی جماعتیں ، سماجی تنظیمیں اور حکومتی و اپوزیشنی کارپرداز اس اہم ترین ایشو پر اکٹھے جدوجہد کرتے کیوں نظر نہیں آتے؟ دراصل واقعہ یہ ہے کہ ظالم جاگیردار، بد کردار وڈیرے، لٹیرے سرمایہ دار اور سود خورصنعت کار ہی تو وہ مکروہ چہرے ہیں جو ان بچوں کو بزور (زبردستی) پر تشدد مشقت پر لگائے ہوئے ہیں۔ وہی بات ہوئی نہ کہ ایک بڑے جاگیردار کی راجھدانی کے قریب سکول کھولنے کے لئے سرکاری رقوم کی منظوری آگئی تو کہنے لگا کہ پھر ” ہمارے حُقوں کی چلمیں کون بھرے گا اور مجھاں نو ں پٹھے کون پائو گا ” (بھینسوں کو چارہ کون ڈالے گا) اور اگر یہ غریب طبقہ کے بچے بھی پڑھ لکھ گئے تو ہماری نوکری کون کریگا۔ اسی طورسے تو ہمارا ٹھاٹھ باٹھ چل رہا ہے۔ اس لئے وہ سکول کبھی بھی جاگیردار کی ” ریاست ” کے قریب نہ بن سکا۔ بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق ملک کی 50فیصد سے زائد آبادی حالات کے رحم و کرم پر اور چل چلائو کے منصوبے کے سپر دہے۔ روزانہ ہر ساتواں بچہ جنسی تشدد کا شکار ہورہا ہے ہر چوتھے گھر میں ایک بچہ بطور نوکر کام کررہا ہے۔
یہ جسمانی تشدد ہی ہے چاہے وہ سکولوں میں ہو یا گھروں میں بچے باغی ہوکر گھروں سے نکل پڑتے ہیں اور پھر سڑکوں ، سٹیشنوں ، لاری اڈوں اور سینمائوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ صرف پاکستان کی جیلوں میں مقیدتقریباََ2375سے زائد بچے نا کردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ انہیں سرمایہ پرستوں نے خود اسلحہ دے کر اپنے مفاد میں استعمال کر ڈالا تھا اور وہ اب بے یار و مددگاراور لاوارث جیلوں میں پڑے گل سڑ رہے ہیں۔خوامخو ا ہ ظلم کا شکار ہونے والے یہی بچے جیلوں سے باہر نکلتے ہی کوئی ایسے ماہر ڈکیت بنیں گے جو عرصہ تک پکڑائی ہی نہ دیں گے کہ بلا آخر اسے ہماری ”بہادر پولیس ”مقابلہ دکھا کر پار (قتل) کر ڈالے گی اور اس خون ناحق پر انعام کی مستحق بھی ٹھہرے گی۔ ”یہی تو ہیں وہ لوگ جو خون مزدور شرابوں میں ملادیتے ہیں” دراصل حقوق اطفال نام کی کوئی چیز سیاسی جماعتوں کے منشور میں موجود تک نہ ہے۔ حالانکہ 14-15سال سے کم عمر بچوں کی تعداد آبادی کا چوتھا حصہ ہے۔ چائلڈ لیبر کے محاذ پر سیاسی ، سماجی تنظیموں ، این جی اوز، کاکام صرف اور صرف چندے بٹورنا اور بیرونی ممالک سے دی گئی امدادوں کو ہڑپ کرناہی رہ گیا ہے۔
وگرنہ کیا ملوں میں کم عمر بچے کام کرتے سرکاری درباری لوگوں کو نظر نہیں آتے؟کیا وہ بچے وہاں مزدوری کرنے اُڑ کرجاتے ہیں؟ یا زیر زمین راستوں کے ذریعے ملوں میں داخل ہوتے ہیں؟ یہ سب کچھ دنیا میں اور بالخصوص اسلامی ممالک میں قابض حکمرانوں کی ناکوں کے نیچے ہی ہورہا ہے۔ مگر چونکہ صنعت کار ، وڈیرے ، جاگیردار اور سرمایہ دار طبقہ کا تعلق ”حکومتی اشرافیہ طبقے ” سے ہی ہوتاہے اس لئے کوئی ان کے خلاف کاروائی کس طرح کرسکتا ہے۔ کہ 95فیصد اس طبقہ کے نام نہاد افراد توڈکٹیٹروں ،آمروں، فوجی و سول بیوروکریسی کے تلوے چاٹنے کے کاروبار میں ایکسپرٹ ہونے کی بنیاد پر حکومت کے چرنوں میں پناہ گیر ہوجاتے ہیں، مقتدر اور وی آئی پی ٹھہرتے ہیں اور اپنی من مانیوں کا جواز پاتے ہیں۔غریب پسماندہ اور ترقی پذیرملکوں میں چائلڈ لیبر کی بیماری عروج پر ہے اور لا علاج مرض کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ اگر دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو یہ کینسر کا روپ دھار چکی ہے۔ ہمارے ہاں تو صرف دوسری صنعتوں ہی میں نہیںبلکہ اینٹیں بنانے والے بھٹوں میں بھی بچے مشقت پر مجبور ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ غربت ہی ہے۔ جس کے باعث سارا خاندان (خواتین مرد اور بچے) بھٹہ مالکان کے ہاں ایک طرح کا گروی رکھا جا چکا ہوتا ہے۔
اس کو ایڈوانس ادائیگی کے ذریعے جال میں پھانس لیا ہوتا ہے۔ چونکہ ہر سرمائے کے پیچھے ایک دھاندلی ہوتی ہے اس لئے سود خور ظالم سرمایہ دار جو کہ بھٹہ مالکان کی صورت میں موجود ہیںنے غریب پر قرضہ ہی اتنا بڑھا لیا ہوتا ہے کہ اس کو ملنے والی محدود اجرت اسے اتارنے کے قابل ہی نہیں رہتی۔ یہی چیز پورے کے پورے کنبوں کو بھٹوں پر مزدوری کیے جاتے رہنے پر مجبور کر ڈالتی ہے۔ اگر وہ کسی طرح سے بھاگ بھی جائیں تو چند ٹکوں کے عوض متعلقہ تھانہ کا عملہ جو کہ ہمہ وقت بکنے کو تیار بیٹھا ہوتا ہے۔ وہ سرمایہ داروں ہی کی امداد کرتا ہے جو جھوٹے فرضی قرضہ کے کاغذات پیش کرکے مقدمہ اندراج کرواکر متعلقہ مزدور کی چھترول کرواڈالتا ہے۔ یہی امر باقی مزدوروں کیلئے ”مشعل راہ ” بن جاتا ہے۔ تو پھرآئندہ کوئی ان بردہ فروشوں کے قبضہ سے بھاگنے کی کوشش نہیں کرتا۔ کہ سابقہ ساتھی کا” عالیشان حشر” دیکھ چکے ہوتے ہیں۔
اینٹوں سے بننے والی یہ عالی شان عمارتیں ، محلات نما کوٹھیاں اور پلازے انہیں بے کس و مجبور اور مفلس بچے مزدوروں کے خون پسینہ سے ہی تعمیر ہوئے ہیں۔بقول خود کیا ملیں اسی لئے ریشم کے تار بنتی ہیں ۔ کہ مزدور کے ننگے بچے اس کی تار تار کو ترسیں ” کہ وہ ننگے دھڑنگے بچے غلیظ گلیوں میں بھاگے پھرتے ہم سبھی روزانہ دیکھتے ہیں صرف مملکت خداد دادِ پاکستان میں اس وقت 38لاکھ سے زائد بچے جبری مشقت یا مزدور بچے کا کردار ادا کررہے ہیں۔
پاکستان میں 8سے 13سال کے 78فیصد بچے نابالغ بچہ مزدوری (فورسڈ چائلڈ لیبر فورس ) کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔آمرانہ ادوار کی طوالتوں کی وجہ سے جیسے جیسے غربت بڑھتی جارہی ہے بچہ مزدوری کا کریہہ عمل بھی شیطان کی آنت کی طرح روز بروز بڑھتا جارہا ہے اور یہ بچوں کی جبری مشقت کی لعنت آمریت (فوجی ہو یا سول ) اور بادشاہت کے زیر نگرانی غیر جمہوری اقتدار کے حامل اسلامی ممالک ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں پھیلتی جارہی ہے۔ بین الاقوامی تنظیموں حتیٰ کہ اقوام متحدہ کی تنظیم آئی ایل او (انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن) کے بھی مطابق دنیا بھر میں آٹھ سے پندرہ سال کی عمر کے تقریباً 15کروڑ بچے یہ نا پسندیدہ فعل کررہے ہیں۔ ایسے بچے جو کہ ہوٹلوں ، ملوں ، کھیتوں ، کارخانوں ، بھٹوں اور گھروں میں جسمانی مشقت کررہے ہیں وہ تعلیمی سہولیات سے مبرا رہ جاتے ہیں اور مستقبل میں کسی دوسرے کام کے نہیں رہتے۔ نہ ہی سماج میں ترقی کے مواقع پاسکتے ہیں اس طرح سے ان کی صحیح نشوونمااور تعلیم و تربیت رک جاتی ہے اور بچپن و مستقبل سب کچھ تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ جہاں پر بچوںپر محنت و مشقت کیلئے کئی کئی تنظیمیں کام کررہی ہیں وہاں بھی لاکھوں کروڑوں بچے یہ کام کررہے ہیں۔ جس کی مثال ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان سے لی جاسکتی ہے جہاں پر ڈیڑھ کروڑ سے زائد بچے یہ ناپسندیدہ عمل با امر مجبوری کررہے ہیں۔ پاکستان میں مزدور بچوں میں بچوں کی تعداد بچیوں کی تعداد کی نسبت دوگنا ہے۔ جن سے 8سے 18گھنٹے مشقت لی جارہی ہے اور تعلیم جیسی سہولت سے تو مکمل محروم ہیں۔ دنیا میں غلام بچوں کی تعداد بھی بڑھتے بڑھتے 80لاکھ سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ بچوں کی سمگلنگ کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔ کہ سالانہ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک سے 15لاکھ سے زائد بچے مختلف مزدوریوں ، اونٹ ریس اور جنسی سرگرمیوں کیلئے سمگل کیے جاتے ہیں۔ جہاں وہ اس آخری عمل کیلئے تو بازاروں میں دکانوں پر سجا کر ”برائے فروخت ”(جتنے گھنٹوں کیلئے چاہو) رکھے جاتے ہیں۔
ہماری پاکستان کی زمین پر ہی چند سالوں سے بچوں کے قتل اور جنسی وارداتوں میں 75فیصد سے زائد اضافہ ہوچکا ہے اور یہیں پر 2لاکھ سے زائد بچے جسم فروشی پر مجبور ہوچکے ہیں۔ اور یہ ملک بھی جنسی و دیگر تشدد کے ضمن میں دنیا میں چوتھے نمبر پر آگیا ہے بھارت میں تو اکتوبر 2006ء میں بچوں سے مزدروی نہ لینے کے خلاف قانون پاس ہوچکا ہے 14سال سے کم عمر بچوں سے مزدوری کروانے پر 2سال قید اور 20ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ مگر ہمارے حکومتی کار پردازوں کے کانوں پر (کہ وہ خود ملوث ہیں ) آج تک جوں تک نہیں رینگی اور اپنے پائوں پر کلہاڑا کون مارتا ہے ؟ اگر ہمارا ہی برسر اقتدار ٹولہ ایسے قوانین پاس کرنے لگ جائے تو ان کی ملوں ، بھٹوں اور محلات میں کام کون کرے گا اور چونکہ ایسے بچہ مزدور نصف سے بھی کم تنخواہ پر دستیاب ہوجاتے ہیں۔ اس لئے ایسی ”سونے کی چڑیا” کو کون اڑنے دے گا۔ وگرنہ ان مکروہ زرپرستوں کا سالانہ منافع تقریباً نصف رہ جائے گا اور ایسا گھاٹے کا سودا کم از کم ہماری نام نہاد اسمبلیوں کے کرپٹ لالچی اور سرمایہ پرست ممبران کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ بقول میرے ”کہ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا ۔جب پاس ہوجائے گا کوئی بھی بل ایسا۔ ”کے مصداق ایسا نا ممکنات میں سے ہے ویسے بھی دنیا بھر میں 80لاکھ بچے بیگار کیمپوں میں کام کررہے ہیں دنیا میں ہر آٹھواں بچہ نا مناسب انسانی ماحول اور خطرناک صورتحال میں کام کررہا ہے حتیٰ کہ 5سے 15سال کی عمر کے بھی 27کروڑ سے زائد بچے مزدوری کررہے ہیں جن میں19کروڑ بچے اور 8کروڑ بچیاں ہیں۔ براعظم ایشیا میں تو مزدور بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ 63فیصد جبری مشقت کے شکار بچے اسی براعظم سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ترقی پذیر ممالک میں 28لاکھ بچے فورسڈ چائلڈ لیبر فورس کا حصہ بنے ہوئے ہیں ہمارے ملک کی کل چائلڈ لیبر میں 82فیصد بچے اور 18فیصد بچیاں ہیں۔
بچہ مزدوروں کا 8تا9فیصد کام کے دوران ہی شدید بیماری کے باوجود مسلسل کام کرتے رہنے اور دیگر حالات کی وجہ سے زخمی ہوجاتاہے پھر ان کا کوئی مالک علاج تک نہیں کرواتا جو معذور ہو کر رہ جاتے ہیںوہ ماں باپ پر بوجھ بن کر رہ جاتے ہیں اور معا شرہ میں ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ 25فیصد بچے اس عمل سے لازماً گزرتے ہیں صرف جنسی تشدد کا شکار ہونے والوں کی تعداد بھی 8فیصد سے کم نہ ہے۔ صرف پاکستان میںگذشتہ سال میں 1658ایسے دلسوز واقعات ہوئے ہیں۔جبکہ گذشتہ 5 سالوں کے تناسب میں 1331بچوں کے ساتھ یہ عمل ہوا تھا۔یہ تفصیل ان واقعات کے علاوہ ہے جو پولیس کے ساتھ ”مک مکا” اور بچے کے لواحقین ، ماں باپ سے رقوم کی ”لین دین” کے بعد کمپرومائز کرکے عدالتوں میں پیش ہی نہیں کئے جاتے۔ کئی ایسے غیرت مند یا بے غیرت کہہ لیں ایسے لواحقین بھی ہیں جو کہ بچیوں سے زنابالجبر کے واقعات کو چھپا لیتے ہیں تاکہ ساری زندگی بچی کے ”منہ پر کالک” نہ لگ جائے۔ اسلامی قوانین لاکھ سخت سہی مگر اس جدید دور میں بھی ایسے واقعات کا توڑ ان کے عملاً نفاذ ہی سے ممکن ہے۔ بچے جو فیکٹریوں، گھروں، ورکشاپوں ، ہوٹلوں ، بھٹوں اور تعمیراتی یونٹس میں کام کرتے ہیں انتہائی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ جب تک پاک وطن کے نعرہ باز سیاستدانوںمقتدر فوجی و جمہوری آمروں اور دکھاوے کے جعلی اپوزیشنی لیڈروں زرداریوں،شریفیوں،نام نہاد کٹھ ملاوئںبڑھکیں لگانے والے خانوں،فرقہ پرست و برادری پرست تنظیموں کے کار پردازوں کا یہی وطیرہ قائم ہے اور سیاست مال بنانے اور حکومتی خزانے لوٹنے کا ذریعہ بنی ہوئی ہے بچوں پر جنسی تشدد اور ظلم بڑھتا ہی رہے گا کاش اللہ کا کوئی بندہ کھڑا ہوکر ان سارے جعلی کرداروں کو ننگا کر ڈالے اور عوام “اللہ اکبر تحریک” کوگلے کا ہار بنا کر مقتدر کر ڈالیں تووہ لوٹ کھسوٹ کا نظام تہہ و بالا کرکے ملک کو صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بنا ڈالے گی۔
جہاں ظلم و ناانصافی اور بچوں پر تشدد ختم ہوکر بندوں پر بندوں کی خدائی کا نظام بندوں پر خدا کی حکومت میں منتقل ہوجائے گا ۔ جہاں غریبوں کو بنیادی سہولیات غذا ، لباس ، رہائش انصاف ،تعلیم ، علاج ہر صورت مفت مہیاہو گا۔بے روزگاروں کو عالمِ اسلام کے تعاون سے وظیفہ ملے گا اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں 1/5 اور ہمہ قسم تیل و سی این جی کی قیمتیں 1/3 بذریعہ سبسڈی ہو جائیں گی تمام مزدور و ملازمین کی تنخواہ ایک تولہ سونا کی قیمت کے برابر ہو گی۔تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری