علامہ طاہر القادری اور حکومت کے درمیان ”مذاق رات” کے بعد لانگ مارچ اپنی منزل مقصود پر پہنچ گیا ہے۔ توقع کے عین مطابق اسلام آباد کی صرف ایک ہی بارش میں انقلاب بہہ کر ”لٹیروں” سے شیر و شکر ہو گیا۔ اٹھارہ کروڑ عوام تین دن سے ہزاروں مریدوں کو ایک ”ڈبہ پیک قائد” کے ہاتھوں ایسے ہی استعمال ہوتی دیکھتی رہی کہ جس میں ”قافلہ کربلا” کا دعویٰ کرنے والا قائد خود بلٹ پروف کنٹینر میں بیٹھ کر کہتا ہے کہ میں اپنی لاش لینے آیا ہوں لہٰذا گولی مجھے مارنا میرے بچوں کو نہ مارنا اور یہ کہہ کر اپنے بم پروف کنٹینر میں آرام دہ سیٹ پر بیٹھ کر مست ہجوم کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔
اس دوران ہزاروں لوگوں کی نمازیں قضاء ہوتی رہیں مگر شیخ الاسلام کو اس پر بھی کوئی رنج نہ تھا۔ بکتر بند نما کنٹینر میں جاری رہنے والے ”مذاق رات” کے بعد جو ڈیکلریشن جاری کیا گیا وہ انہی وزیراعظم کے دستخط سے مزین ہے جنہیں انقلاب نے پہلے روز ہی ”سابق” قرار دے دیا تھا۔ایسے میں حکومتی نمائندوں کی طرف سے اس تحریری اعلامیے کو ”کاغذ کا ٹکڑا” قرار دینے پر ہرگز حیرانگی نہیں ہونی چاہئے۔
لانگ مارچ کے دوران علامہ نے حکمرانوں سے اپنی لڑائی کو حسینیت اور یذیدیت کے درمیان معرکہ قرار دیا لیکن پھر حسینی قافلے کے ”سالار” کو یذیدی لشکر سے ہاتھ ملاتے بھی دیکھا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ انوکھا لانگ مارچ ہے جو اکیلے طاہر القادری کے نزدیک کامیابی سے ہمکنار ہوا، جبکہ اٹھارہ کروڑ عوام اسے محض کسی ڈرامے میں ان کی کامیاب ایکٹنگ سے تعبیر کر رہے ہیںکہ جس میں تجسس بھی شامل تھا لیکن بالآخر یہ ڈرامہ ڈبے میں بند ہو گیا۔ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ سے پہلے بھی میں اس رائے کا اظہار کر چکا ہوں کہ مجھے علامہ صاحب کا ملکی سیاست میں کوئی بڑا کردار نظر نہیں آتا۔
چاہے وہ لانگ مارچ کیلئے لاکھوں افراد جمع کرلیں مگر اس سے کوئی بڑی تبدیلی شاید ہی آ سکے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قادری صاحب کی مقبولیت صرف ”جی ٹی روڈ” تک ہی محدود ہے اور جب تک بڑی سیاسی جماعتیں منظرعام پر موجود ہیں صرف طاہر القادری صاحب کو ہی ”سب کچھ” پلیٹ میں رکھ کر نہیں دے دیا جائے گا۔وہ سوائے ایک مخصوص طبقے کے اتنے بھی مقبول نہ تھے کہ اتنا بڑا مجمع اکٹھا کر سکتے لیکن تھوڑی اپنی کوشش اور زیادہ ”غیروں” کی مہربانی سے لاکھوں کا مجمع اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
بحیثیت ایک پاکستانی شخصیت پرستی کو ایک جانب رکھتے یہ حقیقت واضح ہے کہ طاہر القادری صاحب کا ایجنڈا پاکستانی عوام کے مستقبل کیلئے کرپٹ لٹیروں کی پھیلائی گھور تاریکی میں اُمید کی ایک روشن کرن ہے مگر عین انتخابات کے قریب اصلاحات کا مطالبہ صحیح ہونے کے باوجود اس قلیل وقت میں ناصرف ناقابل عمل ہے بلکہ یہ صرف ”سستی شہرت” کا حصول لگتا ہے۔ علامہ صاحب کے سات نکات جو بعد میں سکڑ کر صرف ”چار” رہ گئے تھے ان میں سے کوئی بھی مطالبہ تاحال پورا نہ ہو سکا۔
ان چار نکات میں سے الیکشن کمیشن کی تحلیل، نگران سیٹ اپ میں فوج کی مشاورت اور اسمبلیوں کو فوری ختم کرنے سے متعلق وہ اپنے تین بنیادی مطالبات سے دستبردار ہو گئے ہیں۔ اس انقلابی دھرنے کے ڈراپ سین نے اُن ہزاروں لوگوں کو مایوس کیا جن کی اکثریت لانگ مارچ میں اس لیے بھی شامل تھی کہ شاید ”امیر انقلاب” اپنے دعوئوں کو سچ ثابت کرتے ہوئے مہنگائی، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی کا خاتمہ کرینگے مگر یہ مسائل بھی تاحال موجود ہیں۔ بڑا لیڈر ہمیشہ عوام کے درمیان ان کی ہی طرح جیتا ہے، یہ نہیں کہ جب اس کے ساتھ لانگ مارچ میں شامل ہونے والوں کی زندگیاں دائو پر لگی ہوں اور وہ موسم اور حالات کے تھپیڑے کھا رہے ہوں تو اُس وقت ”لیڈر صاحب” اپنے خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ بلٹ پروف کنٹینر میں ہیٹر لگائے بیٹھا رہے۔
Najeem Shah
قوم کی مائیں، بیٹیاں اور نوجوان سخت سردی میں سڑک پر حکومتیں رخصت ہونے اور انقلاب برپا ہونے کے منتظر رہیں۔ افسوس کہ ہزاروں مظاہرین کی پانچ روز کی محنت رائیگاں گئی جو گھروں سے اس ارادے کے ساتھ نکلے تھے کہ اسلام آباد کو ”تحریر اسکوائر” بنائیں گے مگروہ صرف ”تقریر اسکوائر” سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
عوام یہ پوچھتے ہیں کہ کیا دھرنے کے نتیجے میں حکومت چلی گئی؟ کیا الیکشن کمیشن تحلیل ہو گیا؟ کیا کرپٹ ٹولے سے نجات مل گئی؟ کیا ملک سے کرپشن، بے روزگاری، جہالت ختم ہو گئی؟ کیا لوڈ شیڈنگ ختم ہو گئی؟ کیا عوام کو سی این جی اب آسانی کے ساتھ مل رہی ہے اور کیا اس بات کی گارنٹی مل گئی ہے کہ آئندہ انتخابات میں نیک اور صالح قیادت ہی اقتدار تک پہنچے گی۔
شاید علامہ صاحب کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہوگا کیونکہ لانگ مارچ کے ڈرامے اور سکرپٹ میں ان سوالوں کے جواب نظر نہیں آتے۔ طاہر القادری صاحب اپنے طور پر نظام کے خلاف لانگ مارچ کرتے ہیں اور دھمکی پنجاب حکومت کو دیتے ہیں۔ اسی طرح متحدہ کے قائد الطاف حسین اپنی ہی حکومت کے خلاف لانگ مارچ میں قادری کا ساتھ دیتے ہیں مگر نیند پنجاب کے حکمرانوں کی حرام کرتے ہیں۔
شاید اسی وجہ سے بعض حلقے طاہر القادری صاحب کی پاکستان آمد کو شریف برادران کیخلاف صدر زرداری کا ایسا ”خفیہ ایجنڈہ” قرار دیتے ہیں کہ جس میں علامہ ”ٹشوپیپر” کی طرح استعمال ہوئے۔ بہرحال معاملہ جو بھی ہو فی الوقت اس لانگ مارچ نے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو ”نیڑے نیڑے” کر دیا ہے اور نون لیگ کیلئے یہ لانگ مارچ ایک لحاظ سے قابل ستائش بھی ہے کہ اس نے میاں صاحب کا کام بہت آسان کر دیا ہے اور وہ کچھ جو عام حالات میں مشکل ہو رہا تھا اُس نے قاف لیگ اور متحدہ کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کو میاں صاحب کی ”چھتری” میں جگہ دے دی ہے اور ان سیاسی جماعتوں کا راستہ بھی واضح ہو گیا ہے۔
لانگ مارچ کا ڈراپ سین چاہے کچھ بھی ہوا مگر اُن نوجوانوں، مائوں، بہنوں، بیٹیوں، بچوں اور بوڑھوں کو خراج تحسین پیش کرنا بھی ضروری ہے کہ جنہوں نے بڑے اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ چار روز تک اسلام آباد کی خون جما دینے والی سردی میں استقامت اور جرأت کے نئے باب رقم کیے مگر ساتھ ہی ساتھ دعا بھی ہے کہ خدا انہیں اس کا اجر بھی دے اور فہم و فراست بھی عطاء فرمائے کہ کوئی ان کی اس جدوجہد کا سودا کرنے نکلے تو وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی جدوجہد اور قربانی کا حساب مانگ سکیں۔ ایسا نہ ہوا تو پھر ان عقیدتوں اور محبتوں کے سودے کیے جاتے رہیں گے۔ لانگ مارچ پاکستانی عوام کو یہ سبق ضرور دے گیا ہے کہ اپنے مطالبات کیلئے آواز اُٹھائو ، چاہے انقلابی لیڈر دستیاب نہ ہو کوئی ”مداری ”بھی چلے گا۔