گزشتہ 66 سالوں سے امریکی غلامی میں رہنے اور امریکیوں کے تلوے چاٹنے والے ہمارے حکمرانوں کو کم ازکم بھارت سے ضرور سبق سیکھ لینا چاہئے اور اِنہیں بھارتی حکمرانوں کا امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر روا رکھی گئی ( امریکاسے) بدلہ لینے کی پالیسی کابھی اپنی کھلی آنکھوں سے ضرور جائزہ لیناچاہئے، تاکہ امریکی غلامی میں لت پت رہنے والے ہمارے حکمرانوں کے مرد ہ ضمیرجاگ جائیں اور اِن کی بند آنکھیں کھل جائیں اور یہ امریکی غلامی سے نکل کر ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے حکمران کے طور پر سانس لیں اور اپنی ذمہ داریاں امریکی حکمرانوں کے ہرقسم کے ڈکٹیشنز اور احکامات سے آزاد ہوکر نبھائیں، اور اِس طرح یہ مُلک اور قوم کو امریکیوں کے ظلم وستم اور ڈرون حملوں سے بھی بچائیں۔
بہر حال؟ یہ تو ہر زمانے کا ہمیشہ سے ہی کلیہ رہاہے کہ دنیا میں جن ممالک اور طاقتوں نے ایک دوسرے سے اپنے تعلقات استوار کئے ہیں اُنہوں نے اِس کی بنیاد برابری کی سطح پر رکھی ہے اور ایک دوسرے کو اِس بات پر قائل کیا ہے کہ یہ ہمیشہ اپنے تعلقات (باہمی احترام اور محبت و ضرورت کے ساتھ ساتھ) رکھنے کے علاوہ ایک دوسرے کو برابری کی سطح پر بھی اہمیت دیں گے، یوں جب تک اِن کے تعلقات اِس نقطے پر قائم رہے یہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے رہے مگر جب بھی کسی ایک نے کسی کو چکمہ دینے کی کوشش کی ہے اورجب کبھی کسی بھی معاملے میں غلطی بیانی کی یا کرنی چاہی تو دوسرے نے اپنی راہ الگ کرلی، اور تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا اور اپنے اُمور مملکت میں مصروف ہو گیا۔
جبکہ یہاں مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ شاید ہماری فطرت اور خصلت اُن غیرت مند ممالک سے بہت مختلف ہے، جو کسی ملک اور طاقت سے دھوکہ کھاکر فوراَ َ علیحد ہو جاتے ہیں اوراس سے اپنا ہر قسم کا رابطہ ختم کر لیتے ہیں اور اپنی اپنی منزلیں علیحدہ کرلیتے ہیں مگر ایک ہمارامُلک پاکستان ہے ا ور ہمارے حکمران ہیں کہ جنہوں نے 66 سالوں کے دوران ہر بار ( امریکا جیسی) دھوکے باز سُپرطاقت سے ہمیشہ ہی دھوکہ کھایا ہے اور جنہوں نے اِس سے ہمیشہ دھوکہ کھانے کے بعد بھی اِس سے کمبل کی طرح چمٹیرہنے میں ہی اپنی عافیت جانی ہے، اور ہنوزیہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
ہمارے مشاہدے اور مشاہدات میں یہ بات باکثرت آئی ہے کہ ہمارے ہر دورکے حکمران( خواہ وہ سول یاآمر حکمران ہی کیوں نہ ہوں سبھوں )نے ہی امریکاجیسی دھوکے بازسُپر طاقت کے تلوے چاٹے ہیں، اور اِس کے مفادات کے خاطراپنے مُلک و قوم کی سالمیت اور بقاء کو ہی گروہی رکھا اور خود کو اِس کے سامنے اِس کے غلاموں کے طور پر پیش کئے رکھا اور اِسی روش میں وہاں تک چلے گئے ہیں کہ آج جہاں پہنچ کر ہمارے حکمران امریکی ڈرون حملوں سے اپنے ہی معصوم لوگوں کو مروا رہے ہیں، مگرپھر بھی امریکا اِن سے خوش نہیں ہے، اور اُلٹا یہ اِن سے ڈومورکی رٹ لگائے ہوئے ہے، اور اِدھر ہمارے حکمران یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ امریکی خوشنودی کے خاطراپنے ہی لوگوں کو مروارہے ہیں مگر پھر بھی تعجب انگیزبات یہ ہے کہ یہ امریکاکے آگے جھوٹ موٹ کا احتجاج کرنے کے لئے بھی اپنے لب کھولنے اور اپنی زبانیں ہلانے سے ڈرتے ہیں،حالانکہ یہ لوگ یہ بھی خُوب جانتے ہیں کہ امریکا اِن کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے، اور امریکا خطے میں چھیڑی گئی اپنی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے اہداف اِن کے بغیرحاصل نہیں کرسکتا ہے، اور یہ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ آج اگر پاکستان امریکی جنگ سے نکل جائے تو افغانستان میں پیئمپر لگا کر لڑنے والی سالی ڈرپوک امریکی اور نیٹو افواج کی کمرہی ٹوٹ جائے۔
مگر یہاں رونے اور افسوس کرنے کا مقام تو یہ ہے کہ ہمارے حکمران ہیں کہ جو ا مریکی مفادات میں اپناسب کچھ لُٹا دینے کے بعد بھی امریکیوں کے آگے کسی بھی جائزاور قانونی (ڈرون حملے رکوانے جیسے) معاملے میں بھی اپنااحتجاج کرنااپنے لئے گناہِ کبیرہ سمجھتے ہیں جبکہ جس میں ہم ایک سُپر طاقت ہونے کے ناطے اپنی امریکی غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، اِسی خطے کا ایک سُپرطاقت مگر غیرت مندمُلک بھارت بھی توہے، جو ہم سے کئی گنازیادہ بڑامُلک ہے، اِس کے یہاں بھی ہماری جیسی غربت ، بے روزگاری، کرپشن،لوٹ مارسمیت اور بہت سی ایسی ہی خرابیاں موجود ہیں، مگریہ امریکا سے اپنے اِن ہی مسائل کے حل کے لئے برابری کی سطح پر آکر اپنے تعلقات استوارکئے ہوئے ہے، یہ بھی تو امریکی امدادوں اور قرضوں پر چلتاہے، اور اِسے سے ملنے والی امدادوں اور قرضوں کے بدولت ہی یہ ہم سے اچھی ترقی کر رہاہ ے، اِس کی معیشت ہم سے بہت اچھی ہے، اِس کے یہاں امریکی ڈالرکی سطح ہم سے بہت نیچے ہے، یہاں افغانستان میں کچھ نہ کرکے بھی امریکا کی نظرمیں ہم سے زیادہ مستحکم پوزیشن میں ہے، بھارت افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ مستقل بنیادوں پر استوار کئے ہوئے ہے، اور بھارت خطے میں امریکی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپناایک پائی کا بھی کردارادانہ کرکے بھی ہر لحاظ سے امریکیوں کی آنکھ کا تارا بنا ہوا ہے، اِس کی ایک خاص اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت نے خود کو امریکی برابری کی سطح پر لاکر خطے میں پہلے اپنے مفادا ت حاصل کئے ہیں پھر امریکی مفادات کو کچھ خیال کیا ہے، بھارت نے پاکستان کی طرح نہیں کیا ہے کہ ہر بارامریکی مفادات کے عوض ہی اپنانقصان نہیں کیاہے،اور اَب یہی وجہ ہے کہ امریکی بھی یہ بات سمجھتے ہیں کہ بھارت کسی بھی صورت پاکستان نہیں بن سکتاہے، کہ اِسے پاکستان کی طرح ڈالرزکی چمک دکھاکر موم سمجھ کر نہ توجھکایاجاسکتاہے اور نہ اپنی مرضی سے اِدھر اُدھر موڑا ہی جاسکتا ہے، آج کیوں کہ بات بھارتی حکمرانوں نے امریکیوں کو سمجھادی ہے اور امریکی بھی سمجھ چکے ہیں۔
Devyani Khobar
تب توآج یہی وجہ ہے کہ صرف ایک خاتون بھارتی سفارت کار دیویانی کھوبراگڑے کے ذراسے معاملے پر بھارت اور امریکاکے تعلقات میں نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بھارت اور امریکا میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے، اِدھر امریکا سے بھارت واپس پہنچنے پر خاتون سفارتکار دیویانی کھوبر اگڑنے ائیرپورٹ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ میں رائٹ پر ہوں اور میں اپنی حمایت کرنے پر بھارتی حکومت اورعوام کی شکرگزارہوں، اب میرے متعلق امریکیوں سے میری حکومت اور وکلا میرے لئے بولیں گے، مجھے اپنی صفائی میں جوکچھ بولنا تھا میں بول چکی ہوں، اور پھراِسی بنیاد پر ادھر امریکا سے بدلہ لینے اور اِسے منہ تو ڑ جواب دینے کے خاطربھارت نے بھی ایک امریکی سفارت کار کو اپنے یہاں سے 48 گھنٹے میں بھارت سے نکل جانے کا کہہ دیا ہے،(جس پر یہ کالم کی اشاعت ہونے تک عمل ہو چکا ہو گا) جبکہ اِس بھارتی ردِ عمل پر سلمان خورشید کا یہ کہناہے کہ یہ ایساکرناہماری اپنی وجوہات ہیں اور اِس کے بارے میں ہم نے پہلے ہی امریکا کو آگاہ کر دیا ہے، جبکہ اِس بدلے کی پاداش میں امریکیوں نے جیسے خوشامدانہ انداز سے بھارت سے یہ کہا ہے کہ” بھارتی سفارتکار خاتون کو اَب امریکا میں کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے اور امریکامیں اِنہیں گرفتاری کے لئے وارنٹ جاری کیا جاسکتاہے یہ امریکا آئیں تو گرفتارہوں گیں، اور اِس پر بھارتی سلمان خورشید نے امریکیوں کی آنکھ میں جیسے آنکھ ڈالتے ہوئے اِنہیں ایک بار پھر باور کرایا ہے کہ ”ہم اپنے بدلے کے بعد بھی امریکا سے رابطے میں ہیں ہم وہ کریں گے جو کرنا ضروری ہے، سلمان خورشید کے خیال میں بھارتی بدلے پر مزیدبحث کی ضرورت نہیں، اِن کے نزدیک سفارتی سطح پر جاری تلخی میں سفارتکارکا معاملہ دوطرفہ تعلقات میں ایک جھوٹا ساہی مسئلہ ہے، جو بھارت نے امریکا سے بدلہ لے کر برابر کرلیا ہے، مگر اِس کے باجود بھی دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے لئے مزید اقدامات کئے جائیں گے۔
ویسے اِس منظر اور پس منظرمیں اگر مگر کے علاوہ بھی دیکھا جائے تو یہ بات ساری دنیاپر عیاں ہوچکی ہے کہ چاپلوس بھارت نے کبھی بھی اپنا بدلہ کسی پر معاف نہیں کیا ہے، اور یہ بھارت کی اچھی عادت ہے، کوئی کتنابھی بڑا ہواِ س نے سب کو ایک حد میں رکھاہے، کوئی بڑا ہوگ اتو اپنے گھرکا …آخر بھارت کی بھی اپنی کوئی عزت ہے، آج بھارت نے امریکا کے ساتھ پہلی مرتبہ ایسا نہیں کیا ہے، بھارت اِس سے قبل بھی کئی دفعہ امریکا کے ساتھ اور دوسرے معاملات میں ایسا کر(یعنی بدلہ لے )چکا ہے، نہ صرف امریکا بلکہ بھارت بدلے لینے کے معاملے میں سعودی عرب جیسے ملک کو بھی نہیں چھوڑتا ہے، کئی مرتبہ بھارت نے سعودی عرب سے نکالے گئے یا وہاں سزا پانے والے لوگوں کا بدلہ بھارت نے ویسا کچھ اپنے یہاں سعودی باشندوں کے ساتھ کرکے بدلہ لے چکاہے، جب ہی تو بھارت کی امریکا اور سعودی عرب سمیت دیگر ممالک میں عزت ہے مگر اِس موقع پر میں کے ساتھ ایک مرتبہ پھر یہی کہوں گا کہ ہم اور ہمارے حکمران خواہ امریکا ہو یا سعودعرب اور یا دنیا کے دیگر ممالک سب کے ساتھ اپنی بے عزتی کروا کراور اپنا بڑے سے بڑا نقصان کرکے بھی سب کی دوستیاں نبھاتے رہتے ہیں، تب تو سب نے ہماری اِس کمزوری کا پھر پور فائدہ اٹھایا ہے اور یہ ہمیں کھلے عام ذلیل کرتے رہتے ہیں اَب یہ بات تو ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو سوچنی چاہئے کہ وہ اِن ممالک کے ساتھ کس قسم کا اور کس سطح پر آکر تعلقات برقرار رکھیں۔
Azam Azim Azam
تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com فون نمبر: 03312233463