ستائیس دسمبر 2007ء کو بینظیر بھٹو کو لیاقت باغ روڈ پر ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سلا دیا اور تب سے 27دسمبر کو ان کی برسی نہایت عقیدت و اخترام کے ساتھ منائی جا تی ہے اور یوں ہر سال گڑھی خدا بخش میں ہر سال پی پی پی کے کارکن ،جیالے اور دیگر لوگ فاتحہ خوانی و قرآن خوانی کے لیے جمع ہوتے ہیں اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ یہ موقع در حقیت محتر مہ بینظیر کے ساتھ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کا تھا مگر اس موقع کو بھی سیاست نے اپنی ظالم بانہوں میں سمیٹ لیا،یہ موقع بینظیر کے قاتلوں کو سزا دلوانے کا تھا مگر سزا کے حق دار پی پی پی کے اپنے جیالے ٹھہرے یہ موقع قاتلوں کو بے نقاب کرنے کا تھا مگر بے نقابی انصاف بھانٹنے والوں کے حصے میں آئی یہ موقع ذولفقار علی بھٹو کے نظریات کو اپنانے کا تھا مگر بھٹو کے نظریات موروثی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے یہ موقع ذولفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے افکار کو عیاں کرنے کا تھا مگر افکار کے تقاضوں کے زاویے ہی بدل دیئے گئے۔یہ موقع چاروں اطراف سے مسائل و مشکلات میں پھنسے بے چارے عوام کی دستگیری کا تھا مگر دستگیری کے حق دار دستگیری کرنے والے ہی ٹھہرے۔ ذولفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ تم کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا کاش کہ بھٹو صاحب کو یہ معلوم ہوتا کہ ان کے جانے کے بعد کسی دورے گھر سے کوئی بھٹو نکلے گا اورنہ ہی آج تک کوئی بھٹونکلا۔ ذولفقار علی بھٹو کا یہ قول بھی ناسمجھ لو گوںکی ناسمجھی کی بھینٹ چڑھ گیا ۔بھٹو صاحب نے پی پی پی کی بنیاد اس لیے نہیں رکھی تھی کہ ان کے جانے کے بعد پی پی پی کی قیادت ان کے اپنے ہی خاندان میں تقسیم در تقسیم ہوتی چلی جائے بلکہ ”تم کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا”کا مقصد صرف یہ تھا کہ بھٹو صاحب کے نظریات کی عکاسی ہر گھر سے ہو اور پی پی پی کی قیادت بھٹو کے بعد ان کے قریبی رفقا میں سے کسی ایک کا ملنی چاہئے تھی مگر ایسا نہ ہونے کی وجہ سے بھٹو کے بعد پارٹی میں وہ افادیت نہ رہی ہو ان کی موجودگی میں تھی۔بالکل اسی طرح جب بینظیر بھٹو نے نامساعد حالات میں پارٹی قیادت کی ذمہ داری سنبھالی تھی تو پی پی پی کو ایک نئی نوید مل گئی تھی چونکہ انھوں نے ایک دوسرے گھر سے ذولفقار علی بھٹو کے عزم کو پایہ تکمیل تک پہنچایا تھا جب بینظیر بھٹو کو بھی ظالم قاتلوں نے ابدی نیند سلا دیا تو پی پی پی میں سے بینظیر کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں سے پی پی پی کی قیادت کو سنبھالنا چاہئے تھا مگر ایسا نہ ہو سکا جس وجہ آج پی پی پی کی قیادت اور کارکنان میں خاصہ فاصلہ دیکھنے میں آرہاہے یہی وجہ ہے کہ بھٹو کے عزم و ارادوں سے رو گردانی کر کے آج ملک کو انتہائی تاریکی میں دھکیل دیا گیا ہے ۔اگر” بھٹو ”نا م خاندانی سیاست کا ہو تا تو جناب ذولفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو اپنی زندگی میں ہی پارٹی کو ایک وارث دے کر جاتے جبکہ ایسا نہیں ہوا چونکہ ”بھٹو” خاندانی سیاست کا نام نہیں بلکہ ہر گھر سے بھٹو نکلے گاکا ترجمان تھا مگر اب یہ ہر گھر سے بھٹو نکلنے کا فلسفہ پی پی پی کو زیب نہیں دیتا چونکہ بینظیر بھٹو کے جانے کے بعد جناب آصف علی زرداری کا بطور شریک چیئر مین منتخب ہو نا اور بلاول زرداری کا بطور چیئر مین بلاول بھٹو زرداری ہو نا وراثتی سیاست کو عیاں کرتا ہے اور اب بینظیر کی برسی پر جناب صدر آصف علی زرداری کا یہ کہنا کہ محترمہ بینظیر کا علم آصفہ اٹھا ئیں گی تو اس سے وراثتی سیاست پر مہر تصدیق لگ گئی ہے کہ چاہے ملک ڈوب جا ئے یا ذولفقار علی بھٹو کا عزم ڈوب جا ئے وراثتی سیاست کا سورج نہیں ڈوبنا چاہیے ۔ صدر آصف علی زرداری نے محترمہ بینظیربھٹو کی برسی کے موقع پر بہت سی اہم باتوں پر روشنی ڈالی جس میں سے بینظیر کے علم کو اٹھانے کی ذمہ داری آصفہ معصوم پر ڈال دی ہے نجانے وہ اس بھاری ذمہ داری کو کیسے نبھاپا ئیں گی علم سے مراد پی پی پی کی قیادت سے عبارت لگتی اور اس کے علاوہ علم کی کوئی دوسری کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے جس کو علم کے طور پر لیا جا سکے اگر ایسا ہی ہے تو پھر بلاول بھائی اور جناب صدر کا کیا ہو گا؟؟ اگر قیادت کی تمام تر ذمہ داری آصفہ نے اٹھانی ہے اگر بینظیر کے علم کو آصفہ معصوم نے ہی اٹھانا ہے تو پھر جناب آصف علی زرداری اب تک کس کے علم کو اٹھائے ہو ئے ہیں ؟؟اور بلاول بھٹو زرداری بطور شریک چیئر مین کون سا علم اٹھائیں گے ؟؟؟جبکہ بینظیر کا علم تو روٹی ،کپڑا اور مکان تھا اور اگر آصفہ نے ہی یہ علم اٹھانا تھا توپھر اب تک آصف علی زرداری نے کون سا علم بلند کر رکھا ہے؟؟ نجانے آصفہ اپنی والدہ کے علم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہو پاتی ہیں یا نہیں یا پھر وہ بھی صدر آصف علی زرداری کی طرح ملک کا بھیڑہ گرھک کرنے کی روش کو اپناتی ہیں ۔پارٹی کی قیادت ،جمہوریت کی بقاو اسمبلیوں کی مدت ،بینظیر کا علم اور وفاق کو ٹوٹنے نہ دینا،کیا یہی تھا بینظیر اور ان کے والد ذولفقار علی بھٹو کے عزم اور ارادے ؟؟یا پھر عوامی مشکلات و مسائل کو بھی جناب ذولفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو اپنے عوامی اجتماع سے گوش گزار کرتے تھے ؟؟اگر وہ ایسا کرتے تھے تو جناب صدر بینظیر کی برسی کے موقع پر عوامی اجتماع میں عوامی مشکلات اور مسائل سے کیوں صرف نظر کر گئے ؟؟چونکہ یہی فرق ہونا تھا اپنے گھر سے بھٹو کے نکلنے کا اور ہر گھر سے بھٹوکے نکلنے کا۔ اگر آصف علی زرداری خود کو بھٹو کے جانشین کہہ کر بینظیر کی برسی کے موقع پر عوامی مسائل سے توجہ ہٹا نے کا واضع ثبوت دے رہے تھے تو کیا توقع کی جا ئے کہ مستقبل میں آنے والی آصفہ بھی ایسا ہی کریں گی ؟؟کم سے کم اور کچھ نہیں تو صدر آصف علی زرداری پاکستان کی عوام پر نہیں تو بلوچستان سے آئے ہوئے چند ایک پی پی پی کے جیالوں کی داد رسی کرہی دیتے اور ان زنجیروں میں جکڑے ہوئے بے روزگاری اور غربت سے تنگ حال کارکنان کی مشکلات کا ازالہ کرد یتے ۔افسوس صد افسوس جو اپنی پارٹی کے جیالوں کی اپنی چار سالوں کی حکومت میں مشکلات اور تنگدستی کا ازالہ نہ کر سکے وہ ایک سال میں پورے ملک کی عوام کی تنگدستی کو کیا خاک دور کر سکے گا!جہا ں ہر گھر سے بھٹو نکالنے والے لیڈر کی پارٹی کو ایسا بنا دیا گیا کہ اس پارٹی کے کارکنان بھٹو بننے کی بجائے در در کی ٹھو کریں کھاتے پھریں تو عام لوگوں کی کیا مجال کہ ان کے مطالبات پو رے کیے جا سکیں ۔ سیاسی تماش بینوںکا کہنا تھا کہ صدر آصف علی زرداری نے سیاسی ٹمپریچر کو قابو میں رکھااس سے کس کو کیا فائدہ ہوا؟ اگر سیاسی ٹمپریچر قابو میں رہے یا نہ رہے مگر دوسری طرف عدالتی ٹمپریچر کو بڑھانے کی اچھی خاصی کو شش کی گئی صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ چوہدری افتخار صا حب !بینظیر کیس کا کیا ہو ا؟؟شاید اس سے پہلے آصف علی زرداری کو جناب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے یہ نہیں بتا یا تھا کہ وہ اسی روز یہ فرما چکے تھے کہ بینظیر قتل کیس کی تحقیقات مکمل ہو چکی ہے اوروہ بتانے کے لیے وقت آنے کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور اسی روز وزیر داخلہ جناب رحمن ملک نے یہ بھی کہا کہ بینظیر قتل کیس کی تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں چار ملزمان گرفتا ر ہو چکے ہیں اور آٹھ ملزمان روپوش ہیں اور انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ قاتلوں نے قتل کرنے کے بعد کس کو اطلاع دی ؟بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ صدر پاکستان کو اس کا علم تک نہیں جس کا جناب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ اپنے اپنے بیان میں وضاحت کر چکے ہیں ۔کیا یہ اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی ٹھوس دلیل نہیں ؟؟جبکہ دوسری طرف خود چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری پوچھ رہے تھے کہ بینظیر جیسی قد آور لیڈر کی شہادت کو چار سال گزر گئے حکومت بتائے کہ ان کے قتل کا کیا ہوا؟؟جبکہ گزشتہ چارسالوں سے حکومت بھی پی پی پی کی ہے ۔ہمارے ملک میں عجیب و غریب واقعات ہوتے آئے ہیں اور ان واقعات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کی گزشتہ چار سالوں سے حکومت قائم ہے اور وہ اپنی لیڈر کے قاتلوں کا سراغ نہیں لگا سکے !!کہیں ایسا تو نہیں کہ سراغ لگا یا ہی نہیں جا رہا ہو یا پھر سراغ تو لگا چکے مگر منظر عام پر لانے میں غیر ضروری روڑے اٹکائے جا رہے ہیں ۔ محمد قمر اقبال0321-9338981 m.qammariqbal@gmail.com
ستائیس دسمبر 2007ء کو بینظیر بھٹو کو لیاقت باغ روڈ پر ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سلا دیا اور تب سے 27دسمبر کو ان کی برسی نہایت عقیدت و اخترام کے ساتھ منائی جا تی ہے اور یوں ہر سال گڑھی خدا بخش میں ہر سال پی پی پی کے کارکن ،جیالے اور دیگر لوگ فاتحہ خوانی و قرآن خوانی کے لیے جمع ہوتے ہیں اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ یہ موقع در حقیت محتر مہ بینظیر کے ساتھ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کا تھا مگر اس موقع کو بھی سیاست نے اپنی ظالم بانہوں میں سمیٹ لیا،یہ موقع بینظیر کے قاتلوں کو سزا دلوانے کا تھا مگر سزا کے حق دار پی پی پی کے اپنے جیالے ٹھہرے یہ موقع قاتلوں کو بے نقاب کرنے کا تھا مگر بے نقابی انصاف بھانٹنے والوں کے حصے میں آئی یہ موقع ذولفقار علی بھٹو کے نظریات کو اپنانے کا تھا مگر بھٹو کے نظریات موروثی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے یہ موقع ذولفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے افکار کو عیاں کرنے کا تھا مگر افکار کے تقاضوں کے زاویے ہی بدل دیئے گئے۔یہ موقع چاروں اطراف سے مسائل و مشکلات میں پھنسے بے چارے عوام کی دستگیری کا تھا مگر دستگیری کے حق دار دستگیری کرنے والے ہی ٹھہرے۔ ذولفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ تم کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا کاش کہ بھٹو صاحب کو یہ معلوم ہوتا کہ ان کے جانے کے بعد کسی دورے گھر سے کوئی بھٹو نکلے گا اورنہ ہی آج تک کوئی بھٹونکلا۔ ذولفقار علی بھٹو کا یہ قول بھی ناسمجھ لو گوںکی ناسمجھی کی بھینٹ چڑھ گیا ۔بھٹو صاحب نے پی پی پی کی بنیاد اس لیے نہیں رکھی تھی کہ ان کے جانے کے بعد پی پی پی کی قیادت ان کے اپنے ہی خاندان میں تقسیم در تقسیم ہوتی چلی جائے بلکہ ”تم کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا”کا مقصد صرف یہ تھا کہ بھٹو صاحب کے نظریات کی عکاسی ہر گھر سے ہو اور پی پی پی کی قیادت بھٹو کے بعد ان کے قریبی رفقا میں سے کسی ایک کا ملنی چاہئے تھی مگر ایسا نہ ہونے کی وجہ سے بھٹو کے بعد پارٹی میں وہ افادیت نہ رہی ہو ان کی موجودگی میں تھی۔بالکل اسی طرح جب بینظیر بھٹو نے نامساعد حالات میں پارٹی قیادت کی ذمہ داری سنبھالی تھی تو پی پی پی کو ایک نئی نوید مل گئی تھی چونکہ انھوں نے ایک دوسرے گھر سے ذولفقار علی بھٹو کے عزم کو پایہ تکمیل تک پہنچایا تھا جب بینظیر بھٹو کو بھی ظالم قاتلوں نے ابدی نیند سلا دیا تو پی پی پی میں سے بینظیر کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں سے پی پی پی کی قیادت کو سنبھالنا چاہئے تھا مگر ایسا نہ ہو سکا جس وجہ آج پی پی پی کی قیادت اور کارکنان میں خاصہ فاصلہ دیکھنے میں آرہاہے یہی وجہ ہے کہ بھٹو کے عزم و ارادوں سے رو گردانی کر کے آج ملک کو انتہائی تاریکی میں دھکیل دیا گیا ہے ۔اگر” بھٹو ”نا م خاندانی سیاست کا ہو تا تو جناب ذولفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو اپنی زندگی میں ہی پارٹی کو ایک وارث دے کر جاتے جبکہ ایسا نہیں ہوا چونکہ ”بھٹو” خاندانی سیاست کا نام نہیں بلکہ ہر گھر سے بھٹو نکلے گاکا ترجمان تھا مگر اب یہ ہر گھر سے بھٹو نکلنے کا فلسفہ پی پی پی کو زیب نہیں دیتا چونکہ بینظیر بھٹو کے جانے کے بعد جناب آصف علی زرداری کا بطور شریک چیئر مین منتخب ہو نا اور بلاول زرداری کا بطور چیئر مین بلاول بھٹو زرداری ہو نا وراثتی سیاست کو عیاں کرتا ہے اور اب بینظیر کی برسی پر جناب صدر آصف علی زرداری کا یہ کہنا کہ محترمہ بینظیر کا علم آصفہ اٹھا ئیں گی تو اس سے وراثتی سیاست پر مہر تصدیق لگ گئی ہے کہ چاہے ملک ڈوب جا ئے یا ذولفقار علی بھٹو کا عزم ڈوب جا ئے وراثتی سیاست کا سورج نہیں ڈوبنا چاہیے ۔ صدر آصف علی زرداری نے محترمہ بینظیربھٹو کی برسی کے موقع پر بہت سی اہم باتوں پر روشنی ڈالی جس میں سے بینظیر کے علم کو اٹھانے کی ذمہ داری آصفہ معصوم پر ڈال دی ہے نجانے وہ اس بھاری ذمہ داری کو کیسے نبھاپا ئیں گی علم سے مراد پی پی پی کی قیادت سے عبارت لگتی اور اس کے علاوہ علم کی کوئی دوسری کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے جس کو علم کے طور پر لیا جا سکے اگر ایسا ہی ہے تو پھر بلاول بھائی اور جناب صدر کا کیا ہو گا؟؟ اگر قیادت کی تمام تر ذمہ داری آصفہ نے اٹھانی ہے اگر بینظیر کے علم کو آصفہ معصوم نے ہی اٹھانا ہے تو پھر جناب آصف علی زرداری اب تک کس کے علم کو اٹھائے ہو ئے ہیں ؟؟اور بلاول بھٹو زرداری بطور شریک چیئر مین کون سا علم اٹھائیں گے ؟؟؟جبکہ بینظیر کا علم تو روٹی ،کپڑا اور مکان تھا اور اگر آصفہ نے ہی یہ علم اٹھانا تھا توپھر اب تک آصف علی زرداری نے کون سا علم بلند کر رکھا ہے؟؟ نجانے آصفہ اپنی والدہ کے علم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہو پاتی ہیں یا نہیں یا پھر وہ بھی صدر آصف علی زرداری کی طرح ملک کا بھیڑہ گرھک کرنے کی روش کو اپناتی ہیں ۔پارٹی کی قیادت ،جمہوریت کی بقاو اسمبلیوں کی مدت ،بینظیر کا علم اور وفاق کو ٹوٹنے نہ دینا،کیا یہی تھا بینظیر اور ان کے والد ذولفقار علی بھٹو کے عزم اور ارادے ؟؟یا پھر عوامی مشکلات و مسائل کو بھی جناب ذولفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو اپنے عوامی اجتماع سے گوش گزار کرتے تھے ؟؟اگر وہ ایسا کرتے تھے تو جناب صدر بینظیر کی برسی کے موقع پر عوامی اجتماع میں عوامی مشکلات اور مسائل سے کیوں صرف نظر کر گئے ؟؟چونکہ یہی فرق ہونا تھا اپنے گھر سے بھٹو کے نکلنے کا اور ہر گھر سے بھٹوکے نکلنے کا۔ اگر آصف علی زرداری خود کو بھٹو کے جانشین کہہ کر بینظیر کی برسی کے موقع پر عوامی مسائل سے توجہ ہٹا نے کا واضع ثبوت دے رہے تھے تو کیا توقع کی جا ئے کہ مستقبل میں آنے والی آصفہ بھی ایسا ہی کریں گی ؟؟کم سے کم اور کچھ نہیں تو صدر آصف علی زرداری پاکستان کی عوام پر نہیں تو بلوچستان سے آئے ہوئے چند ایک پی پی پی کے جیالوں کی داد رسی کرہی دیتے اور ان زنجیروں میں جکڑے ہوئے بے روزگاری اور غربت سے تنگ حال کارکنان کی مشکلات کا ازالہ کرد یتے ۔افسوس صد افسوس جو اپنی پارٹی کے جیالوں کی اپنی چار سالوں کی حکومت میں مشکلات اور تنگدستی کا ازالہ نہ کر سکے وہ ایک سال میں پورے ملک کی عوام کی تنگدستی کو کیا خاک دور کر سکے گا!جہا ں ہر گھر سے بھٹو نکالنے والے لیڈر کی پارٹی کو ایسا بنا دیا گیا کہ اس پارٹی کے کارکنان بھٹو بننے کی بجائے در در کی ٹھو کریں کھاتے پھریں تو عام لوگوں کی کیا مجال کہ ان کے مطالبات پو رے کیے جا سکیں ۔ سیاسی تماش بینوںکا کہنا تھا کہ صدر آصف علی زرداری نے سیاسی ٹمپریچر کو قابو میں رکھااس سے کس کو کیا فائدہ ہوا؟ اگر سیاسی ٹمپریچر قابو میں رہے یا نہ رہے مگر دوسری طرف عدالتی ٹمپریچر کو بڑھانے کی اچھی خاصی کو شش کی گئی صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ چوہدری افتخار صا حب !بینظیر کیس کا کیا ہو ا؟؟شاید اس سے پہلے آصف علی زرداری کو جناب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے یہ نہیں بتا یا تھا کہ وہ اسی روز یہ فرما چکے تھے کہ بینظیر قتل کیس کی تحقیقات مکمل ہو چکی ہے اوروہ بتانے کے لیے وقت آنے کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور اسی روز وزیر داخلہ جناب رحمن ملک نے یہ بھی کہا کہ بینظیر قتل کیس کی تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں چار ملزمان گرفتا ر ہو چکے ہیں اور آٹھ ملزمان روپوش ہیں اور انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ قاتلوں نے قتل کرنے کے بعد کس کو اطلاع دی ؟بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ صدر پاکستان کو اس کا علم تک نہیں جس کا جناب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ اپنے اپنے بیان میں وضاحت کر چکے ہیں ۔کیا یہ اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی ٹھوس دلیل نہیں ؟؟جبکہ دوسری طرف خود چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری پوچھ رہے تھے کہ بینظیر جیسی قد آور لیڈر کی شہادت کو چار سال گزر گئے حکومت بتائے کہ ان کے قتل کا کیا ہوا؟؟جبکہ گزشتہ چارسالوں سے حکومت بھی پی پی پی کی ہے ۔ہمارے ملک میں عجیب و غریب واقعات ہوتے آئے ہیں اور ان واقعات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کی گزشتہ چار سالوں سے حکومت قائم ہے اور وہ اپنی لیڈر کے قاتلوں کا سراغ نہیں لگا سکے !!کہیں ایسا تو نہیں کہ سراغ لگا یا ہی نہیں جا رہا ہو یا پھر سراغ تو لگا چکے مگر منظر عام پر لانے میں غیر ضروری روڑے اٹکائے جا رہے ہیں ۔ محمد قمر اقبال