واشنگٹن (جیوڈیسک) ترکی میں حکام نے اتوار کو رات گئے اعلان کیا کہ صدر رجب طیب اردوان کو وسیع اختیارات دینے پر منعقدہ ریفرنڈم کی گنتی مکمل ہو گئی ہے، جس کے بعد ترکی کی حکمراں جماعت نے جیت کا دعویٰ کیا ہے۔
اہل کاروں نے فوری طور پر ریفرنڈم جیتنے والے کے نام کا اعلان نہیں کیا، جنھیں جمہوریہ کی 84 سالہ تاریخ میں انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
”ہاں” میں ملنے والے ووٹوں کی تعداد 51.3 فی صد تھی جب کہ مخالفت میں 48.6 فیصد آئے۔
اردوان کے حامیوں نے خوشی مناتے ہوئے دارلحکومت میں آتش بازی کی اور وزیر خارجہ مولود کواس اوگلو نے اپنے آبائی شہر، اناتولیہ میں حامیوں کو بتایا کہ ”آج سے ترکی نیا ملک بن چکا ہے۔ نئی ترکی میں استحکام ہوگا، اعتماد ہوگا”۔
‘ہاں’ کی فتح کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ اب ترکی کا پارلیمان کافی حد تک رواجی وقعت کھو دے گا۔ وزیر اعظم اور کابینہ ختم ہوجائیں گے؛ اور صدر وزرا کو تعینات کریں گے جو اُنہی کو جوابدہ ہوں گے۔ صدر ہی بجٹ تیار کریں گے۔
آئینی تبدیلی سے اب صدر کی سرکاری طور پر غیر جانبدار حیثیت بھی ختم ہوگئی ہے، اُنھیں یہ اجازت ہوگی کہ وہ سیاسی جماعت کی قیادت کریں۔ صدر کے پاس پارلیمان کو تحلیل کرنے اور ہنگامی حالت کے نفاذ کا اختیار ہوگا، جب کہ اُن کے پاس اعلیٰ عدالت اور آئینی کورٹ کے جج مقرر کرنے بھی اختیار ہوگا۔
ریفرینڈم کی وجہ سے قوم منقسم ہوچکی ہے، جب کہ حامی اور مخالفین اس دلیل پر بحث کرتے دکھائے دیتے ہیں کہ ملک کا مستقبل دائو پر ہے۔
استنبول ضلع سے تعلق رکھنے والے ایک شخص، کادیکو نے، جنھوں نے اتوار کی صبح رائے دہی میں حصہ لیا، کہا ہے کہ ”میں نے ‘ناں’ میں ووٹ دیا”۔
اُنھوں نے کہا کہ ”دنیا میں کہیں بھی ایسا آئین نہیں، جیسا کہ ہمارے پاس ہے۔ یہ جمہوریہ نہیں، جمہوری نہیں، کچھ بھی نہیں۔ تمام اختیارات ایک ہی شخص میں مرکوز ہو چکے ہیں۔ ہم یہ تصور کر لیتے ہیں کہ صدر ایک اچھے انسان ہیں۔ لیکن آگے کیا ہوگا؟ کوئی بھی اِن اختیارات کو خراب طریقے سے استعمال کر سکتا ہے”۔