تہران (جیوڈیسک) ایرانی وزارت داخلہ نے تشخیص مصلحت نظام کونسل کے سکریٹری جنرل محسن رضائی کے اس بیان کے درست ہونے کی تردید کی ہے جس میں رضائی نے کہا تھا کہ دہشت گرد تنظیم “داعش” نے تہران میں جمعے کی نماز کے دوران دھماکوں کی کوشش کی۔
یہ سوال کئی بار حیرت کے ساتھ اٹھایا گیا ہے کہ “داعش” اور ایران کے درمیان اعلانیہ ظاہری عداوت کے باوجود داعش نے اب تک ایرانی اہداف کو نشانہ کیوں نہیں بنایا۔ اس کے جواب میں ایران کے کئی ذمہ داران کی جانب سے “ایران کے مختلف علاقوں میں داعش کی کارروائیاں ناکام بنا دیے جانے سے متعلق بیانات” سامنے آتے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے کبھی کوئی ثبوت یا ایسی معلومات نہیں پیش کی گئیں جن سے ان دعوؤں کی درستی ثابت ہو۔
محسن رضائی نے یہ دعوی کیا کہ “داعش کے ایک گروپ نے تہران کا رخ کیا۔ اس گروپ کو نماز جمعہ کے دوران دھماکوں کے لیے بم فراہم کیے جانے تھے تاہم گروپ کے ارکان کو ہمدان اور تہران کے درمیان راستے میں ہی سکیورٹی فورسز اور پاسداران انقلاب نے گرفتار کر لیا”۔ حالیہ چند ماہ میں ایرانی ذمہ داران نے کئی مرتبہ داعش تنظیم کے ارکان یا تنظیم سے وابستگی کا ارادہ رکھنے والے افراد کی گرفتاری کا دعوی کیا ہے۔
ایران کے وزیر انٹیلجنس محمود علوی نے 26 اگست کو اعلان کیا تھا کہ “سکیورٹی فورسز نے داعش تنظیم سے جُڑنے کا ارادہ رکھنے والے سیکڑوں ایرانی نوجوانوں کو حراست میں لے کر ان کو اس سے روک دیا”۔ دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ مذکورہ اعلان ایران میں اہل سنت (سنیوں) کے متحرک عناصر کو “داعشی قرار دینے” کی ایک کڑی ہے۔ بالخصوص رواں ماہ کے آغاز میں 25 سنی کارکنان اور مبلغین کو موت کے گھاٹ اتار دینے کے بعد۔
اگست کے وسط میں سکیورٹی ذمہ داران نے اعلان کیا تھا کہ کرمان شاہ صوبے میں ایرانی فورسز اور “داعش” سے تعلق رکھنے والے گروپوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ جھڑپوں کے نتیجے میں 4 افراد ہلاک اور 6 گرفتار ہوئے۔ تاہم ان افراد کی شناخت اور ان کے ملک میں داخل ہونے کے طریقہ کار کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔ اس وجہ سے تجزیہ کاروں نے اس معاملے کو متحرک سنی عناصر کو ختم کرنے کی پالیسی سے منسوب کیا۔