تیرے جانے کے بعد یہ کیا ہوا

shikwa

shikwa

تیرے جانے کے بعد یہ کیا ہوا ہرے آسماں کو ترس گئے
گھرے ہم بھنور میں کچھ اسطرح کھلے بادباں کو ترس گئے

مرے شہر کے جو چراغ تھے انہیں آندھیوں نے بجھا دیا
چلی ایسی اب کے ہوائے دل کہ مکیں مکاں کو ترس گئے

یہ عجیب خوف و ہراس ہے کوئی دور ہے کوئی پاس ہے
وہ جو آشیاں کے تھے پاسباں وہی آشیاں کو ترس گئے

جنہیں پیار پر رہی دسترس وہی دور ہم سے ہیں اس برس
اے بہار تیری بہار میں درِ دوستاں کو ترس گئے

تھے جو کل تلک مرے آشنا سبھی یار نکلے وہ بے وفا
سدا خوش رہیں مرے خوش نوا بھلے ہم زباں کو ترس گئے

وہ جو جان سے بھی عزیز تھے وہی لوگ میرے رقیب تھے
بھلا کیسے اپنے نصیب تھے کہ کہاں کہاں کو ترس گئے

نہ وہ راگ ہے نہ وہ راگنی نہ وہ چاند ہے نہ وہ چاندنی
مری خواہشوں کے جو تیر تھے وہ کڑی کماں کو ترس گئے

نہ ہی تذکرہ یہاں ہیر کا نہ ہی ذکر مصرعئہ میر کا
حسن ایسے کتنے ہی بے نوا شب داستاں کو ترس گئے

حسن رضوی