چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ ان دنوں کراچی میں تشدد کے واقعات کے محرکات اور ان میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے تک لانے کے لیے روزانہ کی بنیادوں پر سماعت کر رہا ہے اور آئے روز حکام کی طرف سے نمائندگی کرنے والے وکلا کراچی میں امن و امان سے متعلق نئے نئے انکشافات کر رہے ہیں۔ صوبائی حکام نے عدالت میں کراچی میں بد امنی کو لسانی مسئلہ قرار دیا ہے۔لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے صوبائی حکام کی رپورٹس پر عدم اطمینان کے بعد ایک روز قبل یعنی جمعرات کو آئی ایس آئی کی جانب سے عدالت عظمی کے پانچ رکنی بینچ کو کراچی میں بد امنی سے متعلق بند کمرے میں بریفنگ دی گئی ۔ تاہم اس بریفنگ کے بارے میں میڈیا کو کوئی معلومات نہیں دی گئی ہیں۔ اس مقدمے کی جمعہ کو سماعت میں سندھ پولیس کے سربراہ واجد درانی نے عدالت کو بتایا ہے کہ کراچی میں تعینات کیے جانے والے پولیس کے تیس سے چالیس فیصد اہلکاروں کی بڑی سیاسی جماعتوں سے ہمدردیاں ہیں۔ جس کی وجہ سے پولیس کی شہر میں امن قائم کرنے کی کوششیں موثر ثابت نہیں ہورہیں۔ لیکن اب ایسے عناصر کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہیں اور جو ں جوں معلومات مل رہی ہیں ان اہلکاروں کے خلاف کاروائی ہورہی ہے۔ آئی جی سندھ کا موقف سننے کے بعد جج صاحبان کا کہنا تھا کہ عدالت بھی پولیس کو سیاسی اثر سے آزاد دیکھنا چاہتی ہے اور اس سلسلے میں درپیش رکاوٹوں سے عدالت کو آگاہ کیا جائے تاکہ پولیس کی مدد ہو سکے۔ ایک موقع پر جج صاحبان نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ کورنگی چکرا گوٹھ میں پولیس کی بس پر فائرنگ میں نامزد ملزمان میں سے دو کو انسداد دہشتگردی کی عدالت نے بری کردیا ہے۔ انہیں غلط نامزد کیوں کیا گیا ۔ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ اس سلسلے میں پولیس نے متعلقہ تھانے کے تفتیشی افسر اور ایس ایچ او کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے انہیں معطل کر دیا ہے ۔ جج صاحبان نے پولیس حکام کو حکم دیا کہ وہ کراچی میں بدامنی کے خلاف بلا تفریق کاروائی کریں۔ کراچی میں امن و امان کے قیام کے لئے پولیس کی جانب سے ماضی میں موثر کارروائی نہ کیے جانے پر انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت مختلف حلقے پولیس سے سیاسی وابستگیوں کو ختم کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔ چند روز قبل ڈی جی رینجرز سندھ اعجاز چوہدری نے کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ رینجرز امن کے قیام کے لیے بلا تفریق کارورائی کر رہی ہے لیکن ٹارگٹ کلنگ میں موجودہ کمی عارضی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر رینجرز کو پولیس کے دیے گئے اختیارات امن بحال ہونے تک جاری رکھے جائیں تو شرپسندوں کو سر اٹھانے نہیں دیا جائے گا ۔ کراچی میں بد امنی سے متعلق سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کی آئندہ سماعت 13 ستمبر کو ہو گی۔