1830 میں تیونس نے بھی یورپی مداخلت کے مسئلے کا سامنا کیا اور غیر ملکی اثرات نے اسے رفتہ رفتہ خود کو عثمانی سلطنت سے علیحدہ کرنے پر مجبور کردیا۔ یورپ کے ناقابل بھروسہ تاجروں کے مشوروں پر Bey نے خود کو مشکوک نوعیت کے اخراجات میں ملوث کرلیا اور مالی مشکلات پر قابو پانے کیلئے غیر ممالک سے قرض پرقرض لیتا رہا اور اس طرح تیونس پر غلامی کے در کھول دیے۔ بارڈو کنونشن نے جس پر 12مئی1881 کو دستخط ہوئے تیونس میں فرانسیسی سرپرست حکومت قائم کردی اور وہاں ایک ریذیڈنٹ جنرل اور وزیر کو تعینات کیاگیا۔ دو سال بعد ریذیڈنٹ جنرل کیمبون اور Bey Ali کے مابین لا مارسا کنونشن پر دستخط ہوئے جس نے Bey کے اختیارات کو محدود کردیا۔ قانون سازی کے اقدامات اور Bey کے احکا مات اس وقت تک قابل نفاذ نہ تھے جب تک کہ ان پر ریذیڈنٹ جنرل کی مہر ثبت نہ ہوتی۔
Tunisia’s independence – Habib Bourguiba
تیونس میں یورپیوں کی آبا دی 1881 میں19 ہزار، 1911میں ایک لاکھ 43 ہزار اور 1956 میں دو لاکھ 55 ہزار تھی جن میں اطالویوں اور فرانسیسیوں کی اکثریت تھی۔ غیر ملکی 1892 میں چار لاکھ دو ہزار ہیکڑ اراضی کے مالک تھے جبکہ 50۔ 1949تک وہ آٹھ لاکھ 53 ہزار ہیکٹر اراضی کے مالک بن چکے تھے۔ غیرملکیوں کی زمین و جائیدا د کو قانونی تحفظ حاصل تھا۔1924 سے تحریک آزادی نے زور پکڑا مگر ناکامی کے نتیجے میں قومی رہنماں کو گرفتار کرلیاگیا۔ ایک نوجوان وکیل حبیب بورغیبہ نے 1934 میں Neo Destour Party کے نام سے ایک جماعت تشکیل دی۔ 1937-38میں تیونس میں فسادات، ہڑتالیں اور خون خرابہ ہوا بورغیبہ کو ان کے گھر میں نظربند کردیاگیا۔ تیونس کے عوام ایک مشکل دور سے گزررہے تھے یہاں تک کہ مینڈس حکومت ریاست تیونس کو غیرمشروط طور پر اندرونی آزادی اور اقتدار فراہم کرنے پر رضامند ہوگئی۔ بورغیبہ واپس آئے مراکش کی آزا دی نے بورغیبہ کو تیونس کیلئے آزا دی کا مطالبہ کرنے پر آمادہ کیا اور 20مارچ 1956 کو یہ مطالبہ پورا ہوا۔