وطن عزیز کو معرض وجود میں آئے 65 سال کا عرصہ گزر چکا ہے ”یوم آزادی” ایک طرف تاریخ کے لہو رنگ اوراق کی یاد تازہ کرتی ہے، تو دوسری طرف وہ آزادی کے حسین خواب پر قربان ہوئی قیمتی جانوں، لٹی عصمتوں سے تجدید عہد وفا کا ایک اور موقع بھی فراہم کرتی ہے تاکہ ہم اپنے ماضی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حال کا محاسبہ کریں اور مستقبل کے لئے ان راہوں کا انتخاب کریں جو ہماری قوم کو زندہ ضمیرلئے حقیقی معنوں میں آزاد قوموں کی فہرست میں لا کھڑا کریں۔ ہم آج تک قومی محاسبہ سے نگاہیں چراتے ہوئے ہر سال چودہ اگست کے دن کو بھر پور جوش وخروش سے منانا قومی روایت تو سمجھتے آرہے ہیں۔ جشن آزادی کا مقصد بحیثیت قوم ہمارا قومی محاسبہ ہونا چاہیے جو گزشتہ ماہ و سال کے آئینے میں ہمیں ہماری ناکامیاں اور کامیابیاں صاف صاف دکھائے تاکہ ہم دوسری قوموں سے مقابلہ کرنے کا ظرف پیدا کر سکیں۔
اگر آزادی کا صحیح مفہوم سمجھنا ہے تو ایک نظر جرمنی اور جاپان پر ڈال لیجئے جو دوسری جنگ عظیم1945کی بھیانک تباہی کے بعد دوبارہ نئے سرے سے اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی کوشش میں جٹ گئے تھے اور ہم نے بھی تقریباً اسی وقت 1947میں ایک نوزائیدہ آزاد مملکت کے طور پر اپنا سفر اختیار کیا تھا اگر آج ان سے موازنہ کریں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ 65 برس کا عرصہ آگے کی بجائے ہمیں مزید صدیوں پیچھے لے گیا ہے۔ جرمن قوم کے اتحاد و یکجہتی نے دیوار برلن تک گرا دی …مگر ہماری قومی نائو فرقہ وارانہ چھیدوں نے قومی سلامتی منافرت کے سیلاب میں بہا دی۔ جاپانی قوم کے حوصلے اور قوت ارادی نے انہیں ایک بار پھر سے دنیا کی عظیم ترقی یافتہ قوموں میں سر فہرست لا کھڑا کیا ….. مگر جہالت اور ضمیر فروشی نے ہمیں آسمان کی بلندیوں سے ذلت کی گہرائیوں میں لا پٹخا …کہ آج ہمیں آزادی کا دن تو یاد رہا مگر آزادی کا حقیقی مفہوم کیا ہے یہ بھول گئے.. آج تک ہم جس نام و نہاد آزادی کی مالا جپتے چلے آرہے ہیں وہ تو ہمیں کبھی نصیب ہی نہ ہوئی تھی۔
independence day
لیکن پھر بھی اگر ہمیں اپنی قومی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے آزادی کا جشن منانا ہے تو پھر شوق سے منائیے مگر ساتھ ساتھ غربت میں آزادی کا جشن بھی منائیے … ، بے روزگاری میں آزادی کا جشن بھی منائیے … خودکشیوں میں آزادی کا جشن بھی منائیے… اخلاقی اقدار سے آزادی اور قانون سے آزادی کا جشن بھی منائیے…، دہشت گردی اور جرائم میں آزادی کا جشن بھی منائیے … انسانی حقوق سے آزادی کا جشن بھی منائیے …. اور پھر اپنی قومی جہالت کی آزادی کا جشن بھی منائیے۔آج ہم بحیثیت قوم ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں چاروں طرف سینکڑوں بحران جبڑے کھولے ہماری ذرا سی لغزش کے منتظر ہیں۔ ایک طرف ہمارا سب سے بڑا بحران نظریاتی یکجہتی ،فکری وحدت اور اتحاد و اتفاق سے محروم ہے تو دوسری طرف امن و امان کی دگرگوں صورتحال کا بحران ہے ، ایک طرف ہمارا حال ہے ۔
جو روز بروز لا قانونیت کی دلدل میں دھنسا چلا جا رہا ہے تو دوسری طرف ہمارا مستقبل وہ نوجوان نسل ہے جسے علم کو اپنا آلہ کار بنانا ہے،مگر وہ خود دہشت گردی کا آلہ کار بن چکی ہے۔ جن کے ہاتھوں کوکل قوم کے مستقبل کی باگ ڈور سنبھالنی ہے ان میں آج کتابیں نہیں بلکہ قوم کی تباہی کے سامان ہیں۔ دماغ علم کی روشنی سے منور نہیں بلکہ اسلحہ اور ہتھیاروں سے لیس ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ طبقاتی تفریق ، استحصالی نظام ، ہنر کی نا قدری ، تعلیمی ڈھانچے کا کھوکھلا پن ، اختیارات کا نا جائز استعمال اور اخلاقی اقدار کا فقدان جیسی خوفناک آندھیاں ہیں جن سے ہمارا حال بری طرح لرز رہا ہے۔جمہوری روایات کے فقدان کا المیہ جس نے ماضی تباہ حال سے بے حال اور اب مستقبل کو رسوا کرنے کا بیڑہ اپنی قوم کو ہر پل گرتی معیشت کے ساتھ ہاتھوں میں کشکول کا تحفہ دے کر ایک شان سے اٹھا رکھا ہے۔
غریب کا چولہا بجھ گیا ہے تو اشیائے خورد و نوش کے نرخ آسمان کو چھو رہے ہیں۔ 60 فیصد ہم وطن پہلے ہی خط غربت تلے زندگیاں گزارنے پر مجبور تھے تو رہی سہی کسرقدرتی آفات سے بے گھر ہوئے ہم وطنوں نے پوری کر دی۔ پینے کے صاف پانی سے محروم اور بجلی کی نعمت چھینی جا چکی ہے۔ نظام صحت کے اخراجات ناقابل برداشت اور ایک عام انسان کے بس سے باہر ہیں۔ یہی قیامتیں کیا کم تھیں کہ کراچی اور لاہور کی دہشت گردی سے اور ملک بھر میں ہوتے ہوئے بم دھماکو ں نے لاشوں کے انبار لگا دئے۔
میرے ہم وطنو ! …ابابیلوں کے لشکر ہم جیسی بے ایمان ، بے یقین اور بے حس قوموں کی طرف نہیں اترا کرتے۔ ہم ایک ضمیر فروش وطن فروش اور ایمان فروش قوم ہیں۔ ہم وہ قوم ہیں کہ جن کے مولوی حلوے کی چند پلیٹوں کی خاطر تو کافر میں مومن میں مسلمان تو مرتد کا ورد کرتے ہیں اور ہم اس پر آمین کرتے چلے آرہے ہیں …ہم خود وہ غربت کی ماری قوم ہیں جو یوں تو جمہوریت کا رونا روتے ہیں مگر چودھری وڈیرے اور جاگیردارانہ نظام کے تناور درخت کو اپنے لہو سے سینچتے چلے آرہے ہیں . … ہم وہ بے غیرت قوم ہیں جو” امریکی کتے ہائے ہائے” کے نعرے تو بہت غیرتمندی سے لگاتے ہیں
مگر جب بھی مصیبت پڑے کشکول تھا مے بے غیرتی سے اسی کی طرف دوڑتے ہیں …۔ ہم وہ بے ضمیر قوم ہیں جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اپنے مسلمان بھائیوں کا لہوتک بیچتے ہیں …کہ آؤ ہم پر سے اقتصادی پابندیاں اٹھانے کا وعدہ کرو ہم افغانستان کو قبرستان بنانے کے لئے تمہاری راہیں ہموار کرتے ہیں … آؤ اور مال و زر سے ہماری تجوریاں بھر دو ہم اپنے مادر وطن کے کسی بھی حصے پر بمباری کرنے کی پوری اجازت دیتے ہیں … آئواور ہمیں جنت کے ٹکٹ دو ہم ملک کو جہنم بناکے تمہارے ازلی سپنے پورے کرتے ہیں ….آئواور صرف ہمیں مسلمانیت کا سرٹیفکیٹ دے دو اور ہم اپنی سر زمین پاک پر کافروں کے لہو کی ندیاں بہا کر تمہاری خواہشوں کی تکمیل کرتے ہیں …۔ یہ ہے ہمارا اسلامی جمہوریہ پاکستان،جہاں عدالتوںمیںانصاف، درسگاہوں میں ڈگریاں، اسمبلیوں میں ضمیر ، اسپتالوں میں جعلی دوائیاں اور مسجدوں میں ایمان تک بکتے ہیں۔ جہاں کلمہ پڑھنے، سلام کرنے اور بسم اللہ کہنے پرتو ایک غیر مسلم کو پھانسی پر بھی چڑھایا جا سکتا ہے مگر مزار قائد پر دختر ملت کی آبرو ریزی کرنے والے کو کٹہرے تک نہیں لایا جا سکتا۔اگر مسجدوں سے نفرت کی منادی اور مدرسوں سے خودکش بمبار جہادی بن کر نکلتے ہیں تو نکلنے دو ہم اپنے گھروں میں بیٹھے اسلام کے نام کی مالا جپتے رہیں گے۔
American Army
اگر امریکی فوج اور طالبان نامی ظالمان ہماری ہی سر زمیں پر ایک دوسرے کا لہو پی کر زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں تو کرنے دو ،ہم منرل واٹر سے اپنی پیاس بجھاتے رہیں گے۔اگر مائوں بہنوں کی عصمتیں نیلام ہوتی ہیں تو ہونے دو ہم جوش و خروش سے مدر ڈے منا لیا کریں گے ….. اگر حکمران ملکی خزانہ لوٹتے ہیں تو لوٹنے دو، تو ہم بسنت کی چڑھتی پتنگیں لوٹتے رہیں گے ….اگر ہم وطنوں کی تمنائوں کے پھول مرجھاتے ہیں تو مرجھانے دو ہم ویلن ٹائن ڈے دھوم سے منا لیا کریں گے …اگر غریب کا چولہا بجھتا ہے ، فاقوں سے بچے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بلبلاتے ہیں ، صاف پانی نہ پینے سے ہزاروں امواتیں ہوتی ہیں ،بے روزگاری کے ستائے مینار پاکستان سے چھلانگیں لگا کر جان دینے والوں کی آرزوئیں لٹتی ہوں یا پھر مزار قائد پر قوم کی بیٹیوں کی عصمتیں …ہمیں سوچنے کی بھلا کیا ضرورت ہے ہمارے لئے تو اتنا ہی بہت ہے کہ ہمارا پاکستان آزاد ہے۔
پاکستان زندہ باد…پاکستان زندہ باد …پاکستان زندہ باد ….. میرے عزیز ہم وطنو !…کب تک خون بہے گا اپنے اس گلستان میں ؟ …کب تک وقت کی آندھیاں ہماری شاخیں قلم کرتی رہیں گی ؟..کب تک ہم اپنے ہاتھ اپنے ہی ہم وطنو کے لہو سے رنگتے رہیں گے ؟…کب تک ہم غلامی کی زنجیروں میں جکڑی اس نام و نہاد آزادی کا جشن دھوم دھام سے مناتے رہیں گے ؟ … کب تک اس 65سالہ بوسیدہ آزادی کے تصور کو لئے خود کو دھوکہ دیتے رہیں گے ؟ …احساس کی کونپلیں اب بھی نہ پھوٹیں تو پھر کب پھوٹیں گی ؟ ہمارا سویا ہوا ضمیر اب بھی نہ جاگا تو پھر کب جاگے گا ؟ آخر کب تک ہم اپنی ناکامیوں پر آزادی کے جشن کا پردہ ڈال کر ناچتے رہیں گے ؟… آخرکب تک؟ ایک نہ ایک دن تو ہمیں بھی وقت کے کٹہرے اور ضمیر کی عدالت میں کھڑے ہو کر اس سوال کا جواب دینا ہی ہو گا کہ ” کیا ہم آزاد ہیں ؟راقم کالمسٹ کونسل آف پاکستان کے صدرکے طورپر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ تحریر:ایم اے تبسم