قوم کو نوید ہو کہ با لآ خر جمہوریت نے عدالت کو چاروں شانے چِت کر دیا۔اس ”فتح مبیں” کا سہرا ہماری مُدّبر سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے سر رہا جنہوں نے”شاہ جی” کو بچا کر نہ صرف جمہوریت کو ”عدالتی استبداد” سے بچایا بلکہ اپنے خاوند اور بیٹے کا سیاسی مستقبل بھی محفوظ ہاتھوں میں دے دیا۔شنید ہے کہ ذو الفقار مرزا ایک بار پھر ”قُرآنی پریس کانفرنس” میں انکشاف کرنے والے ہیں کہ انہوں نے تو بار بار سپیکر صاحبہ کو تلقین کی کہ موقع اچھا ہے گیلانی صاحب کو رگڑا دے دو لیکن سپیکر صاحبہ نے نرگس سیٹھی کی طرح ”وفا داری بشرطِ استواری” پر قائم رہتے ہوئے مرزا صاحب کو بھی ایسے ہی ”نُکرے” لگا دیا جیسے بی بی شہید نے اپنی زندگی میں زرداری صاحب کو لگایا ہوا تھا۔
ویسے بھی وہ جانتی تھیں کہ اگر گیلانی صاحب پرعدالتی شکنجہ کس دیا گیا تو جمہوریت کی عمارت دھڑام سے گِر جائے گی۔ہمارے ہاں ہمیشہ نظام اور سر براہ لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔بھٹو مرحوم نے کہا تھا ”میرے جانے سے ہمالیہ بھی روئے گا”۔ضیاء مرحوم نے کہا ”اگر آپ مُلک میں اسلامی نظام چاہتے ہیں تو میں پانچ سال کے لئے صدر”۔پرویز مشرف بھی کہتے تھے کہ پاکستان اور نظام کو اُن جیسا کمانڈو ہی بچا سکتا ہے ۔میاں نواز شریف بھی یہی رونا روتے ہیں کہ اگر انہیں موقع دیا جاتا تو جمہوریت کی یوں دُرگت نہ بنتی لیکن آج ہیئرڈ زسٹور لندن سے 21 ہزار پاؤنڈ زکاتازہ خرید کردہ کوٹ پہنے ، کھِلی باچھوں اور دمکتے چہرے کے ساتھ گیلانی صاحب نے فرمایا”مُلکی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوریت فتح یاب ہوئی۔
کوٹ سے یاد آیا کہ میں نے اپنے پچھلے کسی کالم میں یہ عرض کیا تھا کہ ”شاہ جی ” بطور وزیرِ اعظم اپنے آخری دورۂ برطانیہ میں جی بھرکے خریداری کریں گے اور متعصب میڈیا را، موساد اور سی آئی اے کو جاسوسی میں پیچھے چھوڑتے ہوئے سب کچھ سامنے لے آئے گا ۔وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔گیلانی صاحب نے تو اپنی ”غربت” کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہیئرڈ زسٹورسے اپنے لئے صرف 80 لاکھ روپئے (چون ہزار پاؤنڈ) کے تین کوٹ اور 20 لاکھ کا پرفیوم خریدا لیکن خاتونِ اوّل نے لاکھوں پاؤنڈ (کروڑوں روپئے)کی گھڑیاں جیولری اورجوتے خرید ڈالے۔
Yousaf Raza Gilani
دروغ بر گردنِ راوی، بڑھتی ہوئی خریداری کو دیکھ کر پریشان حال گیلانی صاحب نے اہلِ خانہ کے کان میں کہا کہ ”ہتھ ہولا” رکھو کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسی فضول خرچیوں کے باعث کل کلاں مجھے پھر اپنی ”گھڑی” بیچنی پڑ جائے ۔”میڈیائی مخبر” یہ بھی بتاتے ہیں کہ بیگم صاحبہ ماتھے پر ناگواری سے بَل ڈال کر ہیئرڈز سٹور سے باہر نکلیں اور مزید خریداری کے لئے نسبتاََ سستے سٹور میں گھُس گئیں۔یہ تو خیرویسے ہی بات سے بات نکل آئی ۔۔۔ تو میں عرض کر رہی تھی کہ سپیکر صاحبہ کی طفیل ہمیں بھی پہلی بار جمہوریت کو سرخ رو ہوتے دیکھنے کا موقع نصیب ہوا یہ الگ بات ہے کہ چیف صاحب کایہ کہا اپنی قدر و قیمت کھو گیاکہ ”ہمیں اپنے فیصلوں پر عمل در آمد کروانا آتا ہے”۔
پارلیمنٹ کی کسٹوڈین کا دھماکے بلکہ کڑاکے دار فیصلہ تو آ گیالیکن اب پتہ نہیں کیوں الیکٹرونک میڈیا پر چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھانے والوں نے اپنی اپنی عدالتیں سجا رکھی ہیں ۔کوئی سپریم کورٹ کے 77 صفحات پر مشتمل فیصلے کو غیر آئینی کہتا ہے تو کوئی سپیکر کے پانچ صفحاتی فیصلے کو ۔حالانکہ جانتے سبھی ہیں کہ فیصلہ وہی جو ایوانِ صدر میں لکھا جائے اور وزیرِ اعظم کے من بھائے باقی تو بابا سب کہانیاں ہیں۔میں بھی کافی دیر تک اس مسٔلہ ”فیثا غورث” میں اُلجھی رہی کہ آخر ماجرا کیا ہے کہ پوری قوم نے تو الیکٹرانک میڈیا کی بدولت صدر اور وزیرِ اعظم سے لے کرپیپلز پارٹی کے ایک عام سیاسی جوکر تک سبھی کو سرِ عام عدلیہ کی تضحیک کرتے دیکھا لیکن سپیکر صاحبہ کوعینک تو کجا محدب عدسے سے بھی ایسا کچھ بھی نظر نہیں آیا ۔ بعد از خرابیٔ بسیار میاں نواز شریف کے اس بیان سے عُقدہ وا ہوا کہ ”بھکاریوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی ۔
ظاہر ہے جن کی اپنی کوئی عزت نہیں وہ کیا جانیں کہ توہین ،تضحیک اور تذلیل کیا ہوتی ہے ۔اس لئے ضروری ہے کہ آئین میں اکیسویں ترمیم لا کر ہر ادارے کے لئے توہین و تضحیک کے الگ الگ معیار مقرر کئے جائیں تاکہ اداروں میں تصادم نہ ہواور سپریم کورٹ پر بھی یہ واضح ہو سکے کہ ہمارے ہاں توہین و تضحیک کا معیار کیا ہے ۔ اعلیٰ عدلیہ ایسے ہی چھوٹی چھوٹی باتوں کو توہین سمجھ بیٹھتی ہے جو اداروں میں تصادم کا باعث بنتی ہیں۔
supreme court
کچھ لوگ ابھی تک اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ سپیکر کے فیصلے کے بعد اب شاید نواز لیگ اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر باہر آ جائے گی حالانکہ نواز لیگ تو امریکہ کا وہ ”ساتواں بحری بیڑا ” ہے جو 1971 ء میں مشرقی پاکستان بچانے نکلا ۔بیڑا تو نہ پہنچا البتہ ملک ٹوٹ گیا ۔اکابرینِ نواز لیگ کے پاس یہ گھڑا گھڑایا بہانہ ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کو فری ہینڈ نہیں دینا چاہتے کیونکہ خطرہ ہے کہ ان کے مستعفی ہونے سے پیپلز پارٹی اپنا چیف الیکشن کمشنر بھی لے آئے گی اورمرضی کی عبوری حکومت بھی ۔لیکن اکابرینِ نواز لیگ خودبھی خوب جانتے ہیں کہ اصل مسٔلہ وہ نہیں جس کا وہ گلی گلی ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں بلکہ یہ ہے کہ انہیںشدید خدشہ ہے کہ کہیں مستعفی ہونے سے کہیں حالات اتنے بے قابو نہ ہو جائیں کہ تیسری قوت کو بہانہ نہ مل جائے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فوج کو کبھی کسی بہانے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ وہ جب آنے کی ٹھان لیتی ہے تو آ جاتی ہے ۔ اس لئے do or die کے اس مرحلے پر نواز لیگ کی جھجک اس کی سیاسی زندگی کے لئے فی الحال تو Die کی طرف جاتی ہی نظر آ رہی ہے ۔ میاںصاحب کہتے تویہ ہیں کہ ”لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے” لیکن وہ لات مارنے کو بھی تیار نہیں۔
ہو سکتا ہے کہ جو لات وہ مارنا چاہتے ہوں اُس میں ابھی تک ”میثاقِ جمہوریت” کا ہلکا ہلکا درد باقی ہواور وہ اس انتظار میں ہوں کہ افاقہ ہونے پر ”کس کے لات ماریں اُدھر اپنے کپتان صاحب نے اپیل کے بعد آنے والے فیصلے (جس میں ماہرینِ آئین و قانون کے مطابق کم از کم چھ ماہ کا عرصہ درکار ہے) کا بہانہ بنا کر اپنے مُنہ زور ”سونامی” کی طنابیں کھینچ رکھی ہیں۔وہ گا گا کے اپنے سونامی کو سمجھاتے رہتے ہیں کہ ” ہنوز دِلی دور است”۔ویسے بھی خاں صاحب کا ٹارگٹ صرف نواز لیگ ہے پیپلز پارٹی نہیںاور تکلف بر طرف مجھے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے نواز لیگ اور تحریکِ انصاف کے ان تیتر وںاور بٹیروں کابا لآخر یہ حشر ہو گا کہ لڑتے لڑتے ہو گئی گُم ایک کی چونچ اور ایک کی دُم،اور میدان مار لے گی پیپلز پارٹی۔اس لئے میں نے ہواؤں کا مزاج دیکھ کر ابھی سے مدح خوانِ پیپلز پارٹی کے ساتھ اپنے رابطوں کو تیز تر کر دیا ہے کیونکہ مجھے چمڑی بھی عزیز ہے اور دمڑی بھی۔ تحریر : پروفیسر رفعت مظہر