جڑوں کی تلاش ( قسط 2)

new street

new street

ایکس ٹو نے اپنے ماتحتوں کو باقاعدہ طور پر ہدایت کردی تھی کہ وہ عمران کے متعلق کسی چکر میں نہ پڑیں۔ نہ تو اس کے فلیٹ کے فون نمبر رنگ کئے جائیں اور نہ کوئی ادھر جائے۔ جولیا کو اس قسم کی ہدایت دیتے وقت اس کا لہجہ بیحد سخت تھا۔
جولیا اس پر بری طرح جھلا گئی تھی لیکن کرتی بھی کیا۔ ایکس ٹو بہرحال اپنے ماتحتوں کے اعصاب پر سوار تھا۔ وہ اس سے اسی طرح خائف رہتے تھے جیسے ضعیف الاعتقاد لوگ ارواح کے نام پر لرزہ براندام ہوجاتے ہیں۔
مگر جولیا الجھن میں مبتلا تھی۔ آج کل ایک ناقابل فہم سی خلش ہر وقت ذہن میں موجود رہتی اور اس کا دل چاہتا کہ وہ شہر کی گلیوں میں بھٹکتی پھرے۔ چھتوں اور دیواروں کے درمیان گھٹن سی محسوس ہوتی تھی۔

آج صبح اس نے فون پر بڑے جھلائے ہوئے انداز میں ایکس ٹو سے گفتگو کی تھی۔ اسے بتایا تھا کہ سرسوکھے کی بھاگ دوڑ کا اصل مقصد کیا ہے۔ پھروہ اس کے لئے عمران کو تلاش کرے یا نہ کرے۔
۔۔
“بس اسی حد تک جولیا ناکہ وہ مطمئن ہوجائے۔ ” ایکس ٹو نے جواب دیا تھا۔ ” اسے یہ شبہ نہ ہونا چاہیئے کہ تم اسے ٹال رہی ہو بلکہ عمران کی گمشدگی پر پریشانی بھی ظاہر کرو”
جولیا برا سا منہ بنا کر رہ گئی تھی۔

سرسوکھے کی فرمائش کے مطابق آج اسے عمران کی تلاش میں اس کا ساتھ دینا تھا۔ سب سے پہلے وہ عمران کے فلیٹ میں پہنچے لیکن سلیمان سے یہی معلوم ہوا کہ عمران پچھلے پندرہ دنوں سے غائب ہے پھر جولیا نے ٹپ ٹاپ نائٹ کلب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران وہاں کا مستقل ممبر ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہاں اس کے متعلق کچھ معلومات حاصل ہوسکیں۔

وہ ٹپ ٹاپ کلب پہنچے۔ یہاں بھی کوئی امید افزا صورت نہ نکل سکی۔ آخر سرسوکھے نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔ “اب کہاں جائیں۔ میں واقعی بڑا بدنصیب ہوں مس جولیانا۔ آیئے کچھ دیر یہیں بیٹھیں۔ ”

جولیا کو اس پہاڑ نما آدمی سے بڑی الجھن ہوتی تھی اس کے ساتھ کہیں نکلتے ہوئے اس کے ذہن میں صرف یہی ایک خیال ہوتا تھا کہ وہ بڑی مضحکہ خیز لگ رہی ہوگی۔ آس پاس کے سارے لوگ انہیں گھور رہے ہوں گے مگر اس کمبخت ایکس ٹو کو کیا کہیئے جس کا حکم موت کی طرح اٹل تھا۔

وہ سرسوکھے کے ساتھ بیٹھی اور بور ہوتی رہی لیکن پھر اس نے ریکرئیشن ہال میں چلنے کی تجویز پیش کی۔

مقصد یہ تھا کہ وہاں کوئی نہ کوئی اس سے رقص کی درخواست ضرور کرے گا اور سرسوکھے سے پیچھا چھوٹ جائے گا۔ سرسوکھے اس تجویز پر خوش ہوا تھا۔
وہ ریکریشن ہال میں آئے۔ یہاں ابھی آرکسٹرا جاز بجا رہا تھا اور چند باوردی منتظمین چوبی فرش پر پاڈر چھڑکتے پھر رہے تھے۔

وہ گیلری میں جا بیٹھے۔ تھوڑی دیر بعد رقص کے لئے موسیقی شروع ہوئی۔
“کیا میں آپ سے رقص کی درخواست کرسکتا ہوں۔” سرسوکھے نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔ آپ!” جولیا نے متحیرانہ لہجے میں سوال کیا،اس کا سر چکرا گیا تھا۔

“اوہ”۔ دفعتا سرسوکھے بیحد مغوم نظر آنے لگا۔ کرسی کی پشت سے ٹکتے ہوئے اس نے چھت پر نظریں جما دیں۔ جولیا کو اپنے رویے پر افسوس ہونے لگا کیونکہ سرسوکھے کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ جولیا نے محسوس کیا کہ اس کا وہ “آپ” گویا ایک تھپڑ تھا جو سرسوکھے کے دل پر پڑا تھا کیونکہ “آپ” کہتے وقت جولیا کے لہجے میں تحیر سے زیادہ تضحیک تھی۔
“اوہو۔۔ تو پھر۔۔ آپ اٹھیے نا” جولیا نے بوکھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔
وہ ہنسنے لگا۔ بے تکی سی ہنسی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے خود اسے بھی احساس ہو کہ وہ یوں ہی احمقانہ انداز میں ہنس پڑا ہے۔ پھر وہ آنکھیں ملنے لگا۔
“نہیں ۔” وہ کچھ دیر بعد بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ “میں اپنی اس بے تکی درخواست پر شرمندہ ہوں میں آپ کو بھی مضحکہ خیز نہیں بنانا چاہتا”
وہ پھر ہنسا مگر جولیا کو اس کی ہنسی دردناک معلوم ہوئی تھی ایسا لگا تھا جیسے متعدد کراہوں نے ہنسی کی شکل اختیار کرلی ہو۔

“مس فٹز واٹر” اس نے اپنے سینے پر ہاتھ مار کر کہا۔ “ہڈیوں اور گوشت کا یہ بنجر پہاڑ ہمیشہ تنہا کھڑا رہے گا۔ میں نے نہ جانے کس رو میں آپ سے درخواست کردی تھی۔ اداس اور تنہا آدمی بچوں کی سی ذہنیت رکھتے ہیں”۔ گوشت اور ہڈیوں کے اس بیہنگم سے ڈھیر میں چھپا ہوا سرسوکھے رام بچہ ہی تو ہے جو بڑی لاپروائی سے اس بدنما ڈھیر کو اٹھائے پھرتا ہے۔ اگر باشعور ہوتا تو۔۔”
“اور دیکھیئے آپ بالکل غلط سمجھے سرسوکھے میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا دراصل مجھے اس پر حیرت تھی کہ”
“نہیں۔ مس جولیانا میں خود بھی تماشہ بننا پسند نہیں کروں گا” وہ ہاتھ اٹھا کر دردناک آواز میں بولا۔

جولیا خاموش ہوگئی۔ رقص شروع ہو چکا کا تھا! سرسوکھے رقاصوں کو کسی بچے ہی کے سے انداز میں دیکھتا رہا۔ نہ جانے کیوں جولیا سچ مچ اس کے لئے مغموم ہوگئی تھی۔
***************

جوزف بس چلتا ہی رہا، اسے احساس نہیں تھا کہ وہ کتنا چل چکا ہے اور کب تک چلتا رہے گا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی زبان ہی چل رہی تھی ۔ نوجوانی کے قصے چھیڑ رکھے تھے۔

نوجوانی کے قصے بھی جوزف کی ایک کمزوری تھی۔ وہ مزے لے لے کر اپنے کارنامے بیان کرتا تھا اور ان کہانیوں کے درمیان قبیلے کی ان لڑکیوں کا تذکرہ ضرور آتا تھا جو اس پر مرتی تھیں۔ اس مرحلہ پر جوزف کے ہونٹ سکڑ جاتے اور آواز میں سختی پیدا ہوجاتی۔ ایسا لگتا جیسے حقیقتا اسے کبھی ان کی پرواہ نہ ہوئی ہو۔ اس وقت وہ بوڑھے سے کہہ رہا تھا۔ “بھلا بتاؤ۔ مجھے ان باتوں کی فرصت کہاں ملتی تھی۔ میں تو زیادہ تر رائفلوں اور نیزوں کے کھیل میں الجھا رہتا تھا۔ جب بھی سفید فام شکاری میرے علاقہ میں داخل ہوتے تو انہیں تندوے کی تلاش ضروری ہوتی تھی۔ میں ہی ان کی رہنمائی کرتا تھا۔ ان کی زندگیاں میری مٹھی میں ہوتی تھیں۔۔ اب بتاؤ۔۔ تم ہی بتاؤ۔۔ میں کیا کرتا! نگانہ جو قبیلے کی سب سے حسین لڑکی تھی، اس نے مجھے بددعائیں دی تھیں۔۔ آہ۔۔ آج میں اسی لئے بھٹکتا پھر رہا ہوں۔ مگر بتاؤ! اس کے لئے کہاں سے وقت نکالتا۔۔!”

جوزف نے پھر بکواس شروع کردی۔ تاڑی کی تین بوتلیں ہٹلر بھی بن سکتی ہیں اور علم الکلام کی ماہر بھی۔۔
اچانک بوڑھا چلتے چلتے رک گیا اور خوش ہو کر بولا! “واہ۔۔ اب تو وہ بیرل یہاں سے لے جائے بھی جاسکتے ہیں! میرے آدمی ٹرک لے آئے ہیں لیکن پولیس کا کہیں پتہ نہیں ہے۔۔”
ہائیں!” جوزف منہ پھاڑ کر رہ گیا۔ پھر بولا! “اب میرے انعام کا کیا ہوگا!”
“ایک بیرل تمہارا ہے دوست!” بوڑھے نے اس کی کمر تھپتھپا کر کہا! “تم اب انہیں ٹرک میں چڑھانے میں مدد دو گے”۔

ٹرک قریب ہی موجود تھا۔ اس کا پچھلا ڈھکنا زمین پر ٹکا ہوا تھا۔ جوزف نے چندھائی ہوئی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھا یہ ایک ویرانہ تھا۔ گھنیرے درخت اور جھاڑ جھنکار قریب وجوار کے اندھیرے میں کچھ اور اضافہ کرتے ہوئے سے معلوم ہو رہے تھے۔
“چلو۔ اندازہ کرلو کہ تم بیرل اوپر چڑھا سکو گے یا نہیں!” بوڑھے نے کہا اور ٹرک پر چڑھ گیا۔

جوزف کی رفتار سست تھی۔ لیکن وہ بھی اوپر پہنچ ہی گیا۔ ٹرک تین طرف سے بند تھا اور اس کی چھت کافی اونچی تھی لیکن جوزف جیسے لمبے تڑنگے آدمی کو تو جھکنا ہی پڑا تھا۔
“چڑھا سکو گے نا؟” بوڑھے نے پوچھا۔
“بل۔۔ بل۔۔ بلکل۔۔” جوزف لڑکھڑایا اور آندھی سے اکھڑتے ہوئے کسی تناور درخت کی طرح ڈھیر ہوگیا اسے اس پر بھی غور کرنے کا موقع نہیں مل سکا تھا کہ کھوپڑی پر ہونے والے تین بھرپور وار زیادہ نشہ آور ہوتے ہیں۔۔ یا تاڑی کی تین بوتلیں۔۔

اس کا ذہن تاریکی کی دلدل میں ڈوبتا چلا گیا پھر دونوں ٹرک کے اگلے حصے میں چلے گئے۔
تھوڑی دیر بعد ٹرک چل پڑا!
***************

صفدر نے اس دن کے بعد سے اب تک ڈھمپ اینڈ کو کے دفتر کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ جب وہاں عمران کی موت کی اطلاع لے کر گیا تھا۔ ایکس ٹو کی طرف سے اسے یہی ہدایت ملی تھی۔
لیکن وہ عمران کے متعلق الجھن میں تھا کبھی یقین کرنے پر مجبور ہوتا کہ اب عمران اس دنیا میں نہیں اور کبھی پھر کئی طرح کے شبہات سر اٹھاتے مگر یہ تو اس کی آنکھوں کے سامنے کی بات تھی کہ عمران چیخ مار کر ندی میں جا پڑا تھا کچھ بھی ہو دل نہیں چاہتا تھا کہ عمران کی موت پر یقین کرے۔

جولیا نے کسی کو بھی نہیں بتایا تھا کہ عمران زندہ ہے اور اسے اس واقعہ کے بعد اس کی کوئی تحریر ملی تھی ایکس ٹو تو اسے یقینی طور پر صحیح حالات کا علم تھا۔ ورنہ وہ جولیا کو فون پر سرزنش کیوں کرتا۔ یہی سوچ کر جولیا نے اس سے بھی اس مسئلہ پر کسی قسم کی گفتگو نہیں کی تھی۔
بہرحال صفدر آج کل زیادہ تر گھر ہی میں پڑا رہتا تھا۔۔ اس وقت بھی وہ آرام دہ کرسی میں پڑا اونگھ رہا تھا اچانک فون کی گھنٹی بجی جو ان دنوں شاذ و نادر ہی بجتی تھی
وہ اچھل پڑا۔۔

“ہیلو۔۔!” اس نے ماؤتھ پیس میں کہا۔
“ہائیں۔۔!” دوسری طرف سے آواز آئی۔ “کیا تم زندہ ہو؟”
“ارے!” صفدر پرمسرت لہجے میں چیخا! “آپ۔۔!”
اس نے عمران کی آواز صاف پہچان لی تھی۔
“اتنی زور سے نہ چیخو کہ تمہاری لائن کو شادی مرگ ہوجائے۔ ویسے میں عالم بالا سے بول رہا ہوں!
“عمران صاحب خدا کے لئے بتایئے کہ وہ سب کیا تھا؟”
“یار بس کیا بتاؤں”۔ دوسری طرف سے مغموم لہجے میں کہا گیا! ” میں تو یہی سمجھ کر مرا تھا کہ گولی لگ چکی ہے مگر فرشتوں نے پھر دھکا دے دیا کہنے لگے کھسکو یہاں سے۔ یہاں چارسو بیسی نہیں چلے گی۔ گولی وولی نہیں لگی۔ آئندہ اچھی طرح مرے بغیر ادھر کا رخ بھی نہ کرنا۔ نہیں تو اب کی دم لگا کر واپس کئے جاؤ گے”

صفدر ہنسنے لگا وہ بیحد خوش تھا۔ اس کی بیک بہت بڑی الجھن رفع ہو گئی تھی
“جولیا بے حد پریشان تھی۔۔” صفدر نے کہا۔
“پچھلے سال میں اس سے ساڑھے پانچ روپے ادھار لیئے تھے نا۔۔ آج تک واپس نہیں کرسکا۔۔

“عمران صاحب خدا آپ کو جمالیاتی حس بھی عطا کردے تو کتنا اچھا ہو”
“تب پھر لوگ مجھے جمال احمد کہیں” عمران خوش ہو کر بولا۔ “اور میں جمالی تخلص کرنے لگوں خیر اس پر کبھی سوچیں گے۔ اس وقت تمہیں ایک آدمی کا تعاقب کرنا ہے جو ٹپ ٹاپ نائٹ کلب کے بلیرڈ روم نمبر میں بلیرڈ کھیل رہا ہے۔ اس کے جسم پر سرمئی آئیرن کا سوٹ ہے اور گلے میں نیلی دھاریوں والی زرد ٹائی۔ اگر وہ تمہارے پہنچنے تک وہاں سے جاچکا ہو تو پھر وہیں ٹھہرنا”۔
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہوگیا!

bileard

bileard

صفدر کو ٹپ ٹاپ نائٹ کلب پہچنے میں بیس منٹ سے زیادہ نہیں لگے تھے وہ آدمی اب بھی بلیرڈ روم میں موجود تھا جس کے متعلق عمران نے بیس منٹ پہلے اس سے فون پر گفتگو کی تھی۔ یہ ایک لمبا تڑنگا اور صحت مند جوان تھا۔ جبڑوں کی بناوٹ اس کی سخت دلی کا اعلان کر رہی تھی۔ البتہ آنکھیں کاہلوں اور شرابیوں کی سی تھیں۔ آنکھوں کی بناوٹ اور جسم کے پھرتیلے پن میں بڑا تضاد تھا۔

صفدر اس طرح ایک خالی کرسی پر جا بیٹھا جیسے وہ بھی کھیلنے کا ارادہ رکھتا ہو! یہاں چار بلیرڈ روم تھے اور ہر کمرے میں دو دو میزیں تھیں! اس کمرے کی دونوں میزوں پر کھیل ہو رہا تھا۔

بھاری جبڑے والے کا ساتھی تھوڑی دیر بعد ہٹ گیا اور بھاری جبڑے والے صفدر سے پوچھا!
“کیا آپ کھیلیں گے؟”
“جی ہاں۔۔!” صفدر اٹھ گیا۔
دونوں کھیلنے لگے کچھ دیر بعد صفدر نے محسوس کیا کہ اس کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتی ہیں۔ پتہ نہیں کیسے وہ عورتوں اور آرائشی مصنوعات کا تذکرہ نکال بیٹھا تھا
“کیا خیال ہے آپ کا یہ عورتیں سال میں کتنی لپ اسٹک کھا جاتی ہوں گی؟”
اس نے پوچھا!
“ابھی تک میں عورتوں کے معاملات سمجھنے کے قابل نہیں ہوا”۔ صفدر نے جواب دیا۔
“اوہو۔۔ تو کیا ابھی تک سنگل ہی ہو یار۔۔”
“بالکل سنگل۔۔”

“یہ تو بہت بری بات ہے کہ تمہاری آمدنی کا بہت بڑا حصہ لغویات پر نہیں صرف ہوتا”۔
“تم شائد بہت زیادہ زیربار ہوجاتے ہو”۔ صفدر مسکرایا۔
“دو بیویاں ہیں لیکن ایک کو دوسری کی خبر نہیں۔۔!”
“یہ کیسے ممکن ہے؟”
“دن ایک کے ہاں گزرتا ہے، رات دوسری کے ہاں”۔ ایک سمجھتی ہے کہ میں فلموں کے لئے کہانیاں لکھتا ہوں وہی جس کے ہاں رات بسر ہوتی ہے اور دوسری سمجھتی ہے کہ میں ایک مل میں اسسٹنٹ ویونگ ماسٹر ہوں اور ہمیشہ رات کی ڈیوٹی پر رہتا ہوں”۔
“تو تم حقیقتا” کیا کرتے ہو؟”
“فلموں کے لئے کہانیاں لکھتا ہوں۔۔!” اس نے جواب دیا۔ “اور یہ کہانیاں کہیں بھی بیٹھ کر لکھی جاسکتی ہیں اور کبھی ناوقت سیٹ پر جانا پڑا تو اس وقت والی بیوی سمجھتی ہے کہ اوورٹائم کر رہا ہوں۔ یا شوٹنگ طویل ہوگئی ہے۔۔
“کما ل کے آدمی ہو۔۔

“بیویوں کو دھوکا دینا میری تفریح ہے۔ اب تیسری کے امکانات پر غور کر رہا ہوں لیکن وقت کیسے نکالوں گا”۔
“واہ۔۔ تیسری بھی کرو گے۔۔”
“کرنی ہی پڑے گی۔ دیکھو یار قصہ دراصل یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ شادیاں کرنے سے سالیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔۔ اور سالیاں۔۔ ہا۔۔ اگر سالیاں نہ ہوں تو دنیا ویران ہوجائے”

“مجھے تو اس نام ہی سے گھن آتی ہے”۔ صفدر نے کہا۔
“آہا۔ تو تم انہیں سالیوں کی بجائے بتاشیاں یا جلیبیاں کہہ لیا کرو! کیا فرق پڑتا ہے”۔
صفدر ہنسنے لگا اور تھوڑی دیر بعد یہ بھول ہی گیا کہ وہ یہاں کس لئے آیا تھا۔
کھیل ختم ہوجانے کے بعد وہ ڈائننگ روم میں آ بیٹھے۔ بھاری جبڑے والا ایک لاپرواہ اور فضول خرچ آدمی معلوم ہوتا تھا۔

کافی پیتے وقت اس نے صفدر سے کہا۔”یار مجھ پر ایک احسان کرو”۔
“کیا؟” صفدر چونک پڑا۔
اس نے کلائی کی گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔ “چھ بج رہے ہیں لیکن میں رات والی بیوی سے آج پیچھا چھڑانا چاہتا ہوں۔ میں اس سے کہوں گا کہ تم اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہو۔ آج رات بھی شوٹنگ ہوگی۔ اس لئے ڈائریکٹر نے تمہیں ساتھ کردیا ہے تاکہ تم مجھے اپنے ساتھ ہی لے جاؤ! ساڑھے سات بجے ہم گھر ہی پر رات کا کھانا کھائیں گے۔ تم برابر کہتے رہنا، بھئی جلدی چلو اور بس ہم آٹھ بجے تک گھر سے نکل آئیں گے۔کیوں؟ پھر ہم دونوں دوست ہوجائیں گے اور تم آئندہ بھی ایسے مواقع پر میرے کام آیا کرنا۔”

صفدر ہنسنے لگا۔ مگر بھاری جبڑے والے کی سنجیدگی میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آیا۔
“میں سنجیدہ ہوں دوست۔ ” اس نے کہا۔ “اگر تم یہ کام نہ کرسکو تو صاف جواب دو۔ تاکہ میں کسی دوسرے کو پھانسوں۔ بس کسی اور کے ساتھ کچھ دیر کھیلنا پڑے گا۔ سارے ہی آدمی تمہاری طرح ٹھس تھوڑا ہی ہوں گے۔ ایڈوینچر کا شوق کسے نہیں ہوتا۔ بہتیرے پھنسیں گے۔”

صفدر نے سوچا چلو دیکھا ہی جائے گا کہ یہ آدمی کس حد تک بکواس کر رہا ہے اور اسے بہرحال اس کے متعلق معلومات فراہم کرنی تھیں پہلے چوری چھپے یہ کام سرانجام دینا پڑتا۔ مگر اب۔۔ اب تو وہ اسے کھلی ہوئی کتاب کی طرح پڑھ سکے گا۔
اس نے حامی بھر لی۔

باہر نکل کر بھاری جبڑے والے نے کہا۔ “یہ تو اور اچھی بات ہے کہ تمہاری کار بھی موجود ہے اب وہ شبہ بھی نہ کرسکے گی کہ میں اسے الو بنا رہا ہوں۔ وہ تمہارے اسسٹنٹ ڈائریکٹر پر ایمان لے آئے گی”۔
“قطعی۔!” صفدر یوں ہی بولنے کے لئے بولا۔

وہ صفدر کی رہنمائی کرتا رہا اور پھر ماڈل کالونی کی ایک دور افتادہ عمارت کے سامنے کار روکنے کو کہا۔ عمارت نہ خوبصورت تھی اور نہ بڑی تھی۔ پائیں باغ ابتر حالت میں تھا۔ جس سے مالک مکان کی لاپرواہی یا مفلوک الحالی ظاہر ہو رہی تھی۔ اس نے اسے نشست کے کمرے میں بٹھایا اور خود اندر چلا گیا۔

صفدر سوچ رہا تھا کہ اسے فلموں یا فلموں کی شوٹنگ کے متعلق بالکل کچھ نہیں معلوم اگر اس کی بیوی اس سلسلے میں اس سے کچھ پوچھ بیٹھی تو کیا ہوگا۔۔
لیکن اس کے کچھ پوچھنے سے پہلے تین چار آدمی اس پر ٹوٹ پڑے۔ حملہ پشت سے ہوا تھا۔ اس لئے اسے سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا۔

ایک نے اس کا منہ دبا لیا تھا اور دو بری طرح جکڑے ہوئے دروازے کی جانب کھینچ رہے تھے لیکن جب وہ اس طرح اسے کمرے سے باہر نہ لے جاسکے تو تین مزید آدمی ان کی امداد کے لئے وہاں آپہنچے اور صفدر کشاں کشاں ایک تہہ خانے میں پہنچا دیا گیا۔ تہہ خانے کا علم تو اسے اس وقت ہوا جب اس کی آنکھوں پر سے پٹی کھولی گئی۔ بعد میں آنے والے تین آدمیوں میں سے ایک نے اس کی آنکھوں پر رومال باندھ دیا تھا اور کسی نے دونوں ہاتھ پشت پر جکڑ دیئے تھے۔
لیکن جب آنکھوں پر سے رومال کھولا گیا تو اس کے سامنے صرف ایک ہی آدمی تھا اور یہ تھا وہی بھاری جبڑے والا جو اسے ٹپ ٹاپ نائٹ کلب سے یہاں تک لایا تھا۔

“مجھے افسوس ہے دوست!” اس نے سر ہلا کر مغموم لہجے میں کہا۔ “اس وقت دونوں بیویاں یہاں موجود ہیں۔ اس لئے یہ ابتری پھیلی ہے۔ سالیوں کی بجائے دونوں طرف کے سالے اکھٹے ہوگئے ہیں اور انہیں شبہ ہے کہ تم ہی مجھے بہکایا کرتے ہو،
صفدر نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے ہوئے اسے گھورتا رہا!

وہ کوشش کر رہا تھا کہ پشت پر بندھے ہوئے ہاتھ آزاد ہوجائیں لیکن کامیابی کی امید کم تھی۔ اگر کسی طرح وہ اپنے ہاتھ استعمال کرنے کے قابل ہوسکتا تو اس بھاری جبڑے کے زاویوں میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں ضرور نظر آتیں کیونکہ وہ ایک بے جگر فائٹر تھا!
دفعتا بائیں جانب دیوار میں ایک دروازہ نما خلا نمودار ہوئی اور جوزف جھکا ہوا اندر داخل ہوا۔ اس کے سر پر پٹی چڑھی ہوئی تھی اور اس کے دونوں ہاتھ بھی پشت پر بندھے ہوئے تھے۔ سر شاید زخمی تھا شاید یہ صفدر کی چھٹی حس ہی تھی جس نے اس کے چہرے پر حیرت کے آثار نہ پیدا ہونے دیئے اور جوزف تو پہلے ہی سے سر جھکائے کھڑا ہوا تھا۔ اس نے کسی طرف دیکھنا بھی نہیں تھا۔ اس کے چہرے پر نظر آنے والے آثار اکھڑے ہوئے نشے سے پیدا ہونے والی بوریت کی غمازی کر رہے تھے۔ زیادہ دیر تک شراب نہ ملنے پر اس کی پلکیں ایسی ہی بوجھل ہوجاتی تھیں کہ وہ کسی کی طرف دیکھنے میں بھی کاہلی محسوس کرتا تھا۔

اچانک بھاری جبڑے والے نے صفدر سے پوچھا۔ ” یہ کون ہے؟”
“میں کیا جانوں” صفدر غرایا۔ “کہیں تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا؟
بھاری جبڑے والے کا قہقہہ کافی طویل تھا لیکن جوزف اب بھی سر جھکائے کسی بت کی طرح کھڑا رہا ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے یہ آوازیں اس کے کانوں تک پہنچی ہی نہ ہوں۔ جو آدمی اسے یہاں لایا تھا اس کی رائفل کی نال اب بھی اس کی کمر سے لگی ہوئی تھی۔

“تم بکواس کرکے کامیاب نہیں ہوسکتے دوست”۔ بھاری جبڑے والے نے کہا۔ “تم عمران کے آدمی ہو اور اس وقت بھی اس کے ساتھ تھے۔ جب وہ ندی پر مقبرہ کے قریب گھیرا گیا تھا”۔
“مجھے اس سے کب انکار ہے مگر میں اس آدمی کو نہیں جانتا”۔ صفدر نے لاپروائی سے کہا۔
“یہ عمران کا ملازم نہیں ہے؟” بھاری جبڑے والے نے غرا کر کہا۔
“میں نے تو کبھی عمران کے ساتھ نہیں دیکھا”۔ صفدر نے جواب د یا وہ جانتا تھا کہ جوزف اب عمران کے ساتھ اس کے فلیٹ میں نہیں رہتا بلکہ مستقل طور پر رانا پیلس ہی میں اس کا قیام ہے۔ اس لئے وہ اس کے معاملے میں محتاط ہو کر زبان کھول رہا تھا۔

“رانا تہور علی کو جانتے ہو؟”
“یہ نام میرے بالکل نیا ہے”۔ صفدر نے متحیرانہ لہجے میں کہا۔
“او۔۔ حبشی۔۔” دفعتا وہ جوزف کی طرف مڑ کر گرجا “اب تم اپنی زبان کھولو۔ ورنہ تمہارے جسم کا ایک ایک ریشہ الگ کردیا جائے گا”۔
“جا۔۔” جوزف سر اٹھائے بغیر بھرائی سی آواز میں بولا! “پہلے میری پیاس بجھا پھر میں بات کروں گا۔ تم لوگ بہت کمینے ہو۔ تمہیں شاید نہیں معلوم کہ شراب ہی میری زبان کھلواسکے گی”۔
“شراب نہیں مل سکے گی”۔
“تب پھر مجھے کسی کی بھی پروا نہیں جو تمہارا دل چاہے کرو”۔

“ادھر دیکہو۔ کیا تم اس آدمی کو پہچانتے ہو؟” اشارہ صفدر کی طرف تھا۔
“کیوں دیکھوں؟ کیسے دیکھوں؟ میری آنکھوں کے سامنے غبار اڑ رہا ہے۔ مجھے اپنے پیر بھی صاف نہیں دکھائی دیتے۔ شراب لا۔ یا مجھے گولی ماردے”۔
“پلا۔ اسے۔ پلا”۔ دفعتا بھاری جبڑے والا دونوں ہاتھ ملا کر غرایا ۔ “اتنی پلا کہ اس کا پیٹ پھٹ جائے”۔
رائفل والا جوزف کے پاس سے ہٹ کر پچھلے دروازے سے نکل گیا۔

“عمران کہاں ہے؟” وہ پھر صفدر کی طرف متوجہ ہوا۔
“اگر تم یہ جانتے ہو کہ میں اس دن عمران کے ساتھ تھا جب ہم پر چاروں طرف سے گولیاں برس رہی تھیں تو یہ بھی جانتے ہو گے کہ عمران کام آگیا تھا اور میں بچ کر نکل گیا تھا”۔
“ہمیں تو اس پر یقین تھا کہ تم بھی نہ بچے ہوگے لیکن آج تم یہاں میرے سامنے موجود ہو تم اتنی چالاکی سے نکل گئے تھے کہ ہمیں پتہ ہی نہ چل سکا تھا”۔

“عمران گولی کھا کر دریا میں گر گیا تھا”۔ صفدر نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا لیکن وہ ڈر رہا تھا کہ کہیں جوزف یہ جملے سن کر چونک نہ پڑے۔ اس وقت کی گفتگو سے اچھی طرح اندازہ کرچکا تھا کہ وہ رانا تہور علی اور عمران کی الجھن میں پڑ گئے ہیں۔
لیکن صفدر کے اندیشے بے بنیاد ثابت ہوئے کیونکہ جوزف کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی تھی اس نے نہ تو سر اٹھایا اور نہ کسی طرف دیکھا۔

تھوڑی دیر بعد قدموں کی آہٹ سنائی دی اور رائفل والا دیسی شراب کی دو بوتلیں لئے دروازے سے اندر داخل ہوا۔
“ایک بوتل کھول کر اس کے منہ سے لگا دو”۔ بھاری جبڑے والے نے کہا۔ تعمیل کی گئی ۔ جوزف کے موٹے موٹے ہونٹ بوتل کے منہ سے چپک کر رہ گئے بڑا مضحکہ خیز منظر تھا۔ ایسا ہی لگ رہا تھا کہ جیسے کسی بھوکے شیرخوار بچے نے دودھ کی بوتل سے منہ لگا کر چسر چسر شروع کردی ہو۔

آدھی بوتل غٹا غٹ پی جانے کے بعد اس نے بوتل کا منہ چھوڑ کر دو تین لمبی لمبی سانسیں لیں اور مسکرا کر بولا۔
“تم بڑے اچھے ہو بڑے پیارے آدمی ہو تم پر آسمان سے برکتیں نازل ہوتی رہیں اور آسمانی باپ تمہیں اچھے کاموں کی توفیق دے”۔
بھاری جبڑے والا کینہ توز نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے سالہا سال سے اسے مار ڈالنے کی خواہش پال رہا ہو جوزف نے بقیہ آدھی بوتل بھی ختم کردی۔

اب وہ کسی جاگتے ہوئے آدمی کی سی حالت میں آگیا تھا۔ آنکھیں سرخ ہوگئیں تھیں اور چہرے کی سیاہی چمکنے لگی تھی۔

“ارے۔۔ یہ آدمی۔۔” دفعتا اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ “ہاں! مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے اسے ایک آدھ بار مسٹر عمران کے ساتھ دیکھا تھا”۔
“لیکن میں نے تو تمہیں کبھی نہیں دیکھا”۔ صفدر نے غصیلی آواز میں کہا۔
“یہ بھی ممکن ہے مسٹر کہ تمہاری نظر مجھ پر کبھی نہ پڑی ہو”۔
“عمران کہاں ملے گا؟” بھاری جبڑے والا غرایا۔
“میں کیا بتا سکتا ہوں مسٹر”۔ جوزف نے متحیرانہ انداز میں پلکیں جھپکائیں۔ “بہت دنوں کی بات ہے جب میں مسٹر عمران کے ساتھ تھا لیکن وہ میرے پینے پلانے کا بار سنبھالنے کی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس لئے انہوں نے خود ہی میرا پیچھا چھوڑ دیا۔۔ اس طرح میں نے اطمینان کا سانس لیا ورنہ مجھے تو اس کا غلام رہنا ہی پڑتا ہے جو مجھے زیر کرلے اور پھر میرا تو ڈاکٹر طارق والا مقدمہ بھی چل رہا ہے”۔
“کیسا مقدمہ۔۔؟”
اس پر جوزف نے ڈاکٹر طارق کی کہانی دہراتے ہوئے کہا۔ مسٹر عمران نے مجھے بہت پیٹا تھا۔ وہ شاید پولیس کے لئے کام کرتے ہیں۔۔

بھاری جبڑے والا تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا! “رانا کون ہے؟”
“باس ہے میرا۔ جوزف نے فخر سے سینہ تان کر کہا۔
“وہ کہاں ملے گا۔۔؟”
“میں نہیں جانتا۔ ان سے تو بس کبھی کبھی ملاقات ہوتی ہے”۔
“عمران سے اس کا کیا تعلق ہے۔۔؟”
“میں کیا بتاسکتا ہوں مسٹر۔ میں کیا جانوں میں نے کبھی ان کے ساتھ مسٹر عمران کو نہیں دیکھا”۔
“تم رانا کے پاس کیسے پہنچے تھے؟”
“بس یوں ہی میں ایک دن سڑک پر جا رہا تھا کہ ایک کار میرے پاس رکی! اس پر سے رانا صاحب اترے اور کہنے لگے میں نے پچھلے سال شاید تمہیں نیٹال میں دیکھا۔ میں نے کہا کہ میں تو دس سال سے اس ملک میں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے ان کے ذہن میں کوئی اور ہو۔ پھر وہ مجھ سے میرے متعلق پوچھ گچھ کرنے لگے۔۔ یہ۔۔ دوسری بوتل بھی مسٹر۔۔ خدا تمہیں ہمیشہ خوش رکھے اور عورت کے سائے سے بچائے۔ تم بہت نیک ہو”۔

بھاری جبڑے والے کے اشارے پر دوسری بوتل بھی کھولی گئی اور جوزف چوتھائی پینے کے بعد بولا۔ “ہاں تو تم کیا پوچھ رہے تھے۔ برادر۔۔”
“تم رانا کے پاس کیسے پہنچے تھے؟”
“ہاں۔۔ ہاں۔۔ شاید میں یہی بتا رہا تھا کہ وہ مجھ سے میرے بارے میں پوچھ گچھ کرنے لگے”
“چلو کہتے رہو رکو مت” بھاری جبڑے والا بولا۔

“میں نے انہیں بتایا کہ مجھے نوکری کی تلاش ہے۔ انہوں نے پوچھا باڈی گارڈز کے فرائض انجام دے سکو گے اوہ۔۔ بڑی آسانی سے میں نے انہیں بتایا اور یہ بھی کہا کہ میرا نشانہ بڑا عمدہ ہے اور میں کبھی ہیوی ویٹ چیمپین بھی رہ چکا ہوں۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے نوکر رکھ لیا۔ میں ان کے پسینے کی جگہ خون بھی بہا سکتا ہوں۔ لارڈ آدمی ہیں۔ کبھی نہیں پوچھتے کہ میں دن بھر میں کتنی بوتلیں صاف کردیتا ہو”۔

بھاری جبڑے والا پھر کسی سوچ میں پڑ گیا ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ اس کے بیان پر تذبذب میں پڑ گیا ہو۔

دوسری طرف صفدر پر جوزف کے جوہر پہلی بار کھلے تھے وہ اب تک اسے پرلے درجے کا ایڈیٹ ہی تصور کرتا رہا تھا لیکن اس وقت تو عمران ہی کا یہ قول کرسی نشین ہوا تھا کہ جوزف ایک نادر الوجود شکاری کتا ہے۔ سادہ لوحی اور چیز ہے لیکن بیضرر نظر آنے والے کتے بھی شکار کے وقت اپنی تمام تر صلاحیتوں سے کام لیتے ہیں بشرطیکہ وہ شکاری ہوں جوزف پر صحیح معنوں میں یہ مثال صادق آتی تھی۔

“دیکھو میں تمہاری ہڈیاں چور کردوں گا۔ ورنہ مجھ سے اڑنے کی کوشش نہ کرو”۔
“بس یہ بوتل ختم کر لینے دو اس کے بعد جو دل چاہے کرنا” جوزف نے ہونٹ چاٹتے ہوئے کہا۔
“صرف ایک دن کی مہلت اور دی جاتی ہے۔ تم عمران کا پتہ بتاؤ اور تم رانا تہور علی کا۔۔” بھاری جبڑے والا ہاتھ اٹھا کر بولا۔
وہ رائفل والے کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتا ہوا دروازے سے نکل گیا اور پھر وہ دروازہ بھی غائب ہوگیا۔ دیوار برابر ہوگئی تھی۔

جوزف دوسری برتل کی طرف ندیدوں کی طرح دیکھنے لگا جس میں ابھی تین چوتھائی شراب باقی تھی۔ اس پر کاگ بھی نہیں تھا۔
وہ تھوڑی دیر تک حسرت بھری نظروں سے اسے دیکھتا رہا پھر پشت پر بندھے ہوئے ہاتھوں کے بل فرش پر نیم دراز ہوگیا دیکھتے ہی دیکھتے بوتل دونوں پیروں میں دبائی اور پیر سر کی طرف اٹھنے لگے اور بوتل کا منہ اس کے ہونٹوں سے جالگا۔

صفدر کھڑا پلکیں چھپکاتا رہا “غٹ غٹ” کی صدائیں تہہ خانے کے سکوت میں گونج رہی تھیں۔ بوتل خالی ہوئے بغیر ہونٹوں سے نہ ہٹ سکی۔

whip

whip

دفعتا کھٹاکے کی آواز آئی اور بھاری جبڑے والا پھر اندر داخل ہوا اس بار اس کے اس کے ہاتھ میں چمڑے کا چابک تھا نہ جانے کیوں جوزف مسکرا پڑا مگر وہ جوزف کی طرف متوجہ نہیں تھا۔
“سرسوکھے رام کو عمران کی تلاش کیوں ہے؟” اس نے صفدر سے پوچھا۔
“میں نہیں جانتا”۔
“تم جانتے ہو۔۔” وہ چابک زمین پر مارتا ہوا دہاڑا۔
“میرے ہاتھ کھول دو۔ پھر اس طرح اکڑو تو یقینا مرد کہلاؤ گے”۔
اس بار چابک صفدر کے جسم پر پڑا اور وہ تلملا گیا۔
“بتاؤ۔
صفدر اس کی طرف جھپٹا لیکن اس نے اچھل کر پیچھے ہٹتے ہوئے پھر چابک گہما دیا اس طرح صفدر نے کئی چابک کھائے اور یک بیک سست پڑ گیا یہ حماقت ہی تو تھی کہ وہ اس طرح پٹ رہا تھا ادھر جوزف کا یہ حال تھا کہ وہ کوشش کے باوجود بھی فرش سے نہیں اٹھ سکتا تھا پورے چھتیس گھنٹوں کے بعد اسے شراب ملی تھی اور اس نے یہ دو بوتلیں جس طرح ختم کی تھیں اس طرح کوئی دوسرا پانی بھی نہ پی سکتا۔

“میں نہیں جانتا۔۔”
“ڈھمپ اینڈ کو کا اصل بزنس کیا ہے؟”
“فارورڈنگ اینڈ کلیرنگ”
“تم وہاں کام کرتے ہو؟”
“ہاں۔۔”
“پھر عمران کا اور تمہارا کیا ساتھ۔۔؟”
“مجھے شوق ہے سراغرسانی کا”۔ صفدر بولا۔ “عمران کی وجہ سے میں بھی اپنا یہ شوق پورا کرسکتا ہوں کیونکہ وہ پولیس کے لئے کام کرتا ہے”۔
“تمہارے دفتر کی اسٹینو ٹائپسٹ جولیا کا عمران سے کیا تعلق ہے؟”
“یہ وہی دونوں بتا سکیں گے” صفدر نے ناخوشگوار لہجے میں کہا۔

بھاری جبڑے والا کھڑا دانت پیستا رہا۔ پھر آنکھیں نکال کر آہستہ آہستہ بولا۔ “تم مجھے نہیں جانتے میں تمہارے فرشتوں سے بھی اگلوا لوں گا خواہ اس کے لئے تمہارا بند بند بھی کیوں نہ الگ کرنا پڑے۔۔”
وہ پیر پٹختا ہوا چلا گیا دیوار کی خلا اس کے گذرتے ہی پر ہوگئی تھی ایک تختہ سا بائیں جانب کھسک کر دوسری جانب کی دیوارسے جا ملتا تھا۔
*******************************

جیسے ہی جولیا کی نظر سرسوکھے پر پڑی وہ ستون کی اوٹ میں ہوگئی۔ یہاں پام کا بڑا گملا رکھا ہوا تھا اور پام کے پتے اسے چھپانے کے لئے کافی تھے۔
وہ سرسوکھے سے بھاگنے لگی تھی کیونکہ وہ اسے بیحد بور کرتا تھا وہ پرانی کہانی جس کے سلسلہ میں وہ عمران کا تعاون حاصل کرنا چاہتا تھا بار بار دہرائی جاتی اور پھر اس کے ساتھ سرسوکھے کی اداسی بھی تو تھی اسے غم تھا کہ اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے۔ کوئی ایسا نہیں ہے جسے وہ اپنا کہہ سکے۔

جوانی ہی میں موٹاپا شروع ہوگیا تھا اور اسی بنا پر خود اس کی پسند کی لڑکیاں اسے منہ لگانا پسند نہیں کرتی تھیں۔۔ وہ جولیا سے یہ ساری باتیں کہتا رہتا ٹھنڈی سانسیں بھرتا اور کبھی کبھی اس کی آنکھوں میں آنسوتیرنے لگتے جنہیں وہ چھپانے کے لئے وہ طرح طرح کے منہ بناتا اور ہزاروں قہقہے جولیا کے سینے میں طوفان کی سی کیفیت اختیار کرلیتے پھر اسے کسی بہانے سے اس کے پاس سے اٹھ جانا پڑتا۔۔ وہ کسی باتھ روم میں گھس کر پیٹ دبا دبا کر ہنستی۔۔ اکثر سوچتی کہ اسے تو اس سے ہمدردی ہونی چاہیئے پھر آخر اسے اس پر تا ؤکیوں آتا ہے۔۔ وہ غور کرتی تو سرسوکھے کی زندگی اسے بڑی دردناک لگتی لیکن زیادہ سوچنے پر اسے یا تو ہنسی آتی یا غصہ آتا کبھی وہ سوچتی کہ کہیں سرسوکھے اس کام کے بہانے اس سے قریب ہونے کی کوشش تو نہیں کر رہا۔

اس خیال پر غصے کی لہر کچھ اور تیز ہوجاتی مگر پھر کچھ دیر بعد ہی اس شام کا خیال آجاتا جب وہ اس کے دفتر میں بیٹھی سونے کی اسمگلنگ کی کہانی سن رہی تھی اور دوسرے کمرے کی میز الٹنے کی آواز نے انہیں چونکا دیا تھا اور پھر اس نے میز کی سطح پر پیروں کے نشانات محفوظ کئے تھے۔۔ وہ سوچتی رہی اور اس نتیجے پر پہنچی کہ وہ حقیقتا پریشانیوں میں مبتلا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہر قسم کی پریشانیوں کا تذکرہ بیک بوقت کردینے کا عادی ہو۔

وہ روزانہ شام کو عمران کی تلاش میں نکلتے تھے لیکن آج کے لئے جولیا نے ایک ضروری کام کا بہانہ کرکے اس سے معافی مانگ لی تھی۔۔ لیکن وہ گھر میں نہ بیٹھ سکی شام ہوتے ہی اس نے سوچا آج تنہا نکلنا چاہیئے مقصد عمران کی تلاش کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا وہ ٹپ ٹاپ نائٹ کلب کے پورچ میں پہنچی ہی تھی کہ اچانک غیر متوقع طور پر سرسوکھے نظر آگیا تھا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ آج وہ بھی وہیں آ مرے گا۔
جیسے ہی وہ پورچ میں پہنچا جولیا گملے کی آڑ سے نکلی اور جھپٹ کر کلرک روم میں د اخل ہوگئی یہاں سے ایک راہداری براہ راست ریکریئشن ہال میں جاتی تھی جہاں آج اسکیٹنگ کا پروگرام تھا۔۔

وہ بڑی بدحواسی کے عالم میں یہاں پہنچی!
“اف خدا۔۔” وہ بڑبڑائی اور اس کا سر چکرا گیا کیونکہ سرسوکھے دوسرے دروازے سے ریکریئشن ہال میں داخل ہوا تھا ویسے اس کی توجہ جولیانا کی طرف نہیں تھی جولیانا کلوک روم والی راہداری ایک گیلری میں لائی تھی۔ اس نے ذہنی انتشار کے دوران فیصلہ کیا کہ سرسوکھے سے تو کھوپڑی نہیں چٹوائے گی خواہ کچھ ہوجائے۔ پھر؟
وہ جھپٹ کر ایک میز پر جا بیٹھی جہاں ایک اداس آنکھیوں والا نوجوان پہلے ہی سے موجود تھا۔

“معاف کیجیئے گا” جولیا نے کہا۔ ذرا سر چکرا گیا ہے۔۔۔ ابھی اٹھ جاؤں گی”۔
“کوئی بات نہیں محترمہ” وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
جولیا نے آنکھوں پر رومال رکھ کر سرجھکا لیا اور چڑھتی ہوئی سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگی۔۔
“کیسی طبعیت ہے۔۔ آپ کی؟” تھوڑی دیر بعد نوجوان نے پوچھا۔
“اوہ۔۔ جی ہاں۔۔ بس ٹھیک ہی ہے۔۔ اب۔۔”
“برانڈی منگواؤں۔۔”
“جی نہیں شکریہ میں اب بالکل ٹھیک ہوں” وہ سر اٹھا کر بولی۔
“آج کل موسم بڑا خراب جارہا ہے” نوجوان بولا۔
“جی ہاں۔۔ جی ہاں۔۔ یہی بات ہے”۔

یہ دبلے چہرے والا مگر وجیہہ نوجوان تھا اس کی آنکھوں کی غم آلود نرماہٹ نے اسے کافی دلکش بنادیا تھا۔ پیشانی کی بناوٹ بھی نرم دلی اور اور ایمانداری کا اعلان کر رہی تھی۔۔
“میں اس شہر میں نووارد ہوں”۔ جولیا نے کہا۔ “مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہاں اسکیٹنگ بھی ہوتی ہے مجھے بیحد شوق ہے۔ اس کا۔
“جی ہاں”۔ اس نے تھکی ہوئی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ “دلچسپ کھیل ہے”۔
“آپ کو پسند ہے؟”
“بہت زیادہ۔۔!” نوجوان کا لہجہ بیحد خم انگیز تھا۔۔
ٹھیک اسی وقت سرسوکھے ان کے قریب پہنچا جولیا کی نظر غیر ارادی طور پراس کی طرف اٹھ گئی تھی اور وہ بطور اعتراف شناسائی سر کو خفیف سی جنبش دے کر آگے بڑھ گیا تھا جولیا بھی بادل ناخواستہ مسکرائی تھی۔

بہرحال اس کے اس طرح آگے بڑھنے پر اس کی جان میں جان آئی تھی وہ اس پر یہ بھی نہیں ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ اس سے بچنے کی کوشش کر رہی ہے سرسوکھے آگے بڑھ کر ایک میز پر جا بیٹھا تھا۔ جولیا سوچ رہی تھی کہ اگر وہ اس میز سے اٹھی اور سرسوکھے کو شبہ بھی ہوگیا کہ وہ تنہا ہے تو وہ تیر کی طرح اس کی طرف آئے گا۔

اتنے میں اسکیٹنگ کے لئے موسیقی شروع ہوگئی اور جولیا نے اس انداز میں نوجوان کی طرف دیکھا جیسے مطالبہ کر رہی ہو کہ مجھ سے رقص کی درخواست کرو مگر نوجوان خالی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔۔
جولیا نے سوچا بدھو ہے لہذا اس نے خود ہی کہا اگر آپ کو اسکیٹنگ سے دلچسپی ہے ۔۔ تو۔۔ آئیے۔۔”
“میں۔۔” نوجوان کے لہجے میں تحیر تھا پھر اس کی آنکھوں کی اداسی اور گہری ہوگئی۔۔ اس نے چھبتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔ “آپ میرا مذاق کیوں اڑا رہی ہیں محترمہ؟”
“میں نہیں سمجھی” جولیا بوکھلا گئی۔

crutch

crutch

“یا آپ یہ بیساکھی نہیں دیکھ رہی ہیں” اس نے ایک کرسی سے ٹکی ہوئی بیساکھی کی طرف اشارہ کیا۔

جولیا کی نظریں اگر پہلے اس پر پڑی بھی ہوگی تو اس نے دھیان نہ دیا ہوگا بہرحال اب وہ کٹ کر رہ گئی۔
“اوہ۔۔ معاف کیجیئے گا” اس نے لجاجت سے کہا۔ ” میں نے خیال نہیں کیا تھا میں بیحد شرمندہ ہوں جناب کیا آپ معاف نہیں کریں گے؟”
“کو ئی بات نہیں” وہ ہنس پڑا۔
اس کا بایاں پیر شاید کسی حادثے کی نظر ہو کر گھٹنے کے پاس سے کاٹ دیا گیا تھا اور اب لکڑی کا ایک ڈھانچہ پنڈلی کا کام دے رہا تھا۔

“یہ کیسے ہوا تھا؟” جولیا نے پوچھا۔ وہ سچ مچ اس کے لئے غمگین ہوگئی تھی۔
“فوجیوں کی زندگی میں ایسے حادثات کوئی اہمیت نہیں رکھتے”۔ اس نے کہا اور بتایا کہ وہ پچھلی جنگ عظیم میں اطالولیوں کے خلاف لڑا تھا اور مورچے پر ہی اس کی بائیں ٹانگ ایک حادثہ کا شکار ہوگئی تھی وہ سیکنڈ لیفٹنٹ تھا۔
بات لمبی ہوتی گئی اور وہ جنگ کے تجربات بیان کرتا رہا۔ تھوڑی ہی دیر بعد جولیا نے محسوس کیا کہ اب اس میز سے اٹھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوسکتا اس کے بعد بھی وہ تھوڑی دیر تک ادھر ادھر کی گفتگو کرتے رہے۔ پھر پہلا دور ختم ہوگیا۔۔ نوجوان نے کافی منگوائی اور جولیا کو انکار کے باجود بھی پینی ہی پڑی۔ ویسے بھی وہ اس مغموم نوجوان کی درخواست رد نہیں کرنا چاہتی تھی۔

کچھ دیر بعد کسی جانب سے ایک خوبصورت اور صحت مند نوجوان ان کی طرف آیا اور جولیا سے ساتھی بننے کی درخواست کی۔ جولیا اس کی آواز سن کر چونک پڑی۔
“اگر کوئی حرج نہ ہو تو۔۔” وہ کہہ رہا تھا۔
“ضرور۔۔ ضرور۔۔” جولیا مسکراتی ہوئی اٹھ گئی تھی ساتھ ہی اس نے لنگڑے نوجوان کی طرف دیکھ کر سر ہلایا اور یہ بھی محسوس کیا تھا کہ وہ کھسیاسا گیا ہے لیکن یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس آدمی کی درخواست رد کردیتی جس کے لئے خود اتنے دنوں سے بھٹکتی پھر رہی تھی۔ صورت سے تو وہ اسے ہرگز نہ پہچان سکتی کیونکہ وہ میک اپ میں تھا لیکن جب اپنی اصلی آواز میں بولا تھا تو جولیا اسے کیوں نہ پپہچان لیتی وہ عمران کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔

skating

skating

وہ اس جگہ آئے جہاں اسکیٹس ملتے تھے جلدی جلدی انہیں جوتوں سے باندھا اور چوبی فرش پر پھسل آئے عمران اس کے دونوں ہاتھ پکڑے ہوئے تھا۔
“تم کہاں تھے درندے؟” جولیا نے پوچھا۔
“شکار پر۔۔” عمران نے جواب دیا پھر بولا۔ “تم اس شام ندی پر کیوں دوڑی آئی تھیں؟”
“یہ اطلاع دینے کیلئے کہ تمہاری موت پر کرائے کے رونے والے بھی نہ مل سکیں گے”
“لیکن میں تمہیں اس وقت یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ تمہارا پورا دفتر ان لوگوں کی نظروں میں آگیا ہے”۔

“پھر کیا کرنا چاہئے؟”
“پرواہ مت کرو” لیکن فی الحال یہ بھول جاؤ کہ تمہارے ساتھ کبھی کوئی عمران بھی تھا میں نے انہیں شہبے میں مبتلا کردیا ہے۔ کبھی انہیں میری موت پر یقین سا آنے لگتا ہے اور کبھی وہ میری تلاش شروع کردیتے ہیں”۔
“ایک آدمی اور بھی تمہاری تلاش میں ہے”۔ جولیا نے کہا اور سرسوکھے کا واقعہ بتایا۔
“فی الحال میں اس کے لئے کچھ نہیں کرسکتا”
“ایکس ٹو تو اس کے کیس میں دلچسپی لے رہا ہے اور میں بڑی شدت سے بور ہو رہی ہوں”۔

“ہوسکتا ہے وہ اس لئے دلچسپی لے رہا ہو کہ تم میری تلاش جاری رکھو خوب بہت اچھے یہ ایکس ٹو تو یقینا بھوت ہے وہ شاید مجرموں پر یہی ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ عمران کے ساتھیوں کو بھی اس کی موت پر یقین نہیں آیا۔۔ اچھا جولیا تم دن میں تین چار بار میرے فون نمبر پر رنگ کرکے سلیمان سے میرے متعلق پوچھتی رہو۔ میرا خیال ہے کہ وہ لوگ میرا فون ٹیپ کر رہے ہیں۔ سرسوکھے کے ساتھ مل کر میری تلاش بھی جاری رکھو”

“اس کی رام کہانیاں مجھے بور کرکے مار ڈالیں گی”
“اگر تم اتنی آسانی سے مر سکو تو کیا کہنے ہیں” عمران نے کہا اور جولیا نے اسے لاکھوں سلواتیں سنا ڈالیں۔
وہ کچھ دیر خاموشی سے اسکیٹنگ کرتے رہے پھر جولیا نے کہا۔
“سرسوکھے یہیں موجود ہے۔۔”
“کہاں۔۔؟”
جولیا نے بتایا عمران کنکھیوں سے موٹے آدمی کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔ “یہ تو صحیح معنوں میں پہاڑی معلوم ہوتا ہے کیا تم اس کے ساتھ اسکیٹنگ نہیں کرو گی؟”
جولیا نے اسے بتایا کہ کس طرح اس سے پیچھا چھڑانے کے لئے وہ ایک لنگڑے آدمی کے پاس جا بیٹھی تھی۔
“بہت بری بات ہے۔۔ موٹاپا اپنے بس کی بات نہیں”۔ عمران نے مغموم لہجہ میں کہا۔ “تمہیں اس سے شادی کر لینی چاہیئے”
“میں تمہارا گلا گھونٹ دوں گی۔۔” جولیا جھلا گئی۔
“آ ج کل تو سب ہی مجھے مار ڈالنے کی تاک میں ہیں۔۔ ایک تم بھی سہی”۔

جولیا نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے اسکیٹنگ کرتی رہی۔۔ اس غیر متوقع ملاقات سے پہلے اس کے ذہن میں عمران کے متعلق ہزاروں باتیں تھیں جنہیں اس وقت قدری طور پر اس کی زبان میں آنا چاہیئے تھا لیکن وہ محسوس کر رہی تھی کہ اب اس کے پاس جھنجھلاہٹ کے علاوہ اور کچھ نہیں رہ گیا ویسے یہ اور بات ہے کہ اس جھنجھلاہٹ کو بھی اظہار کے لئے الفاظ نہ ملتے۔۔

تو گویا یہ عمران اس کے لئے سوہان روح بن کر رہ گیا تھا اس کی عدم موجودگی اس کے لئے بے چینی اور اضطراب کا باعث بنتی تھی لیکن جہاں مشکل نظر آئی تاؤ آگیا۔۔ وہ تاؤ لانے والی باتیں ہی کرتا رھا۔۔
جولیا کا ذہن بہک گیا تھا اور وہ کسی ننھی سی بچی کی طرف سوچ رہی تھی یہ بھول گئی تھی کہ وہ کون ہے اور کن ذہنی بلندیوں پر رہتی ہے۔
“غالبا۔۔ تم میرے فیصلے پر نظرثانی کر رہی ہو”۔ عمران نے کچھ دیر بعد مسکرا کر کہا
“کیا مطلب۔۔؟”
“یہی کہ تمہیں سرسوکھے سے شادی کر ہی لینی چاہیئے” عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ “ہوسکتا ہے اس کے بعد ہی وہ صحیح معنوں میں سرسوکھے کہلانے کا مستحق ہوسکے
جولیا نے جھٹکا دے کر اپنے ہاتھ اس سے چھڑا لیئے اور تھوڑا سا کترا کر تنہا پھسلتی چلی گئی!

تحریر: ابن صفی

جڑوں کی تلاش ( پہلی قسط)
جڑوں کی تلاش ( قسط 2)
جڑوں کی تلاش (آخری قسط )