کسی جنگل میں ایک بندریا رہا کرتی تھی۔ اس بندریا کا ایک بچہ بھی تھا۔ جس سے وہ بڑی محبت کیا کرتی تھی۔ یہ بچہ سارا سارا دن اپنی ماں کے کندھے پر چڑھا رہتا۔ کسی وقت وہ نیچے اترتا اور کچے پکے پیڑ اور برگدیاں کھا کر دو تین قلابازیاں لگاتا اور ادھر ادھر دوڑتا۔ کہیں کسی پھول کو مروڑتا۔ کسی پودے کو مسلتا اور پھر اپنی ماں سے چمٹ جانا۔
اس کی ماں بھی اپنے بچے کو اپنے سے الگ نہ کرتی تھی۔ اس لیے کہ وہ ابھی کمسن تھا اور جنگل کے راستوں سے بے خبر تھا۔ ایک دن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ بندریا اپنے بچے کو ساتھ لے ایک چشمے کے کنارے بے خبر سو رہی تھی کہ اچانک کسی نے انکے اوپر موٹا سا کمبل ڈال دیا۔
ماں اور بچہ گھبرائے۔ بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے مگر وہ دونوں اس کمبل میں اسطرح جکڑ دیے گئے تھے کہ ذرا بھی نہ ہل سکتے تھے۔ بندریا اور اسکے بچے کو پکڑنے والا آدمی دراصل کسی امیر آدمی کا ڈرائیور تھا۔ جس نے جب بندریا اور اسکے بچے کو سوتے ہوئے دیکھا تو ان پر کمبل ڈال کر ان کو پکڑ لیا۔
ڈرائیور نے انہیں ایک بوری میں ڈال کر اوپر سے منہ کو ذرا ڈھیلا کر کے باندھا اور موٹر میں پھینک کر گھر کی راہ لی۔ کئی میل کا سفر طے کرنے کیبعد موٹر ایک خوبصورت مکان میںداخل ہوئی۔ ڈرائیور نے کار کا دروازہ کھولا ایک موٹا سا آدمی باہر نکلا۔ ڈرائیور نے بندریا اور اسکے بچے کو باہر نکال کر انکے پاؤں باندھ دیے۔ اب مکان کے برآمدے میں گھر کی مالکن اور نوکرانی بھی کھڑی بندریا کے بچے کو خوشی سے دیکھ رہی تھیں۔
” اچھا کیا آپ انہیں لے آئے، اب ہمارا لال بالکل اچھا ہو جائیگا۔ ” بات دراصل یہ تھی کہ اس امیر آدمی کا اکلوتا بچہ بیمار تھا اور بے حد دبلا پتلا ہو رہا تھا۔ کسی نیم حکیم نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ اگر وہ گھر میں کسی بندریا کے بچے کو لاکر رکھ لیں تو انکا بچہ بڑی جلدی اچھا ہو جائیگا کیونکہ جہاں بندریا کا بچہ ہو گا وہاں کی ہوا بچے کیلئے بڑی فائدہ مند ہو گی۔
moneky
اب جناب بندریا اور اسکے بچے کو برآمدے میں ستون کیساتھ باندھ دیا گیا اور پاس ہی ذرا فاصلے پر بیمار بچے کا پنگھوڑا لٹکا دیا گیا۔ بندریا کا بچہ چونکہ بے زبان تھا۔ اس لیے چپکا اپنی امی کے پاس بیٹھا رہتا لیکن بندریا نے گھر والوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا کیونکہ اسکا دل بڑا گھبراتا تھا اور پھر وہ جنگل میں بچے کو لے جانا چاہتی تھی۔
جب گھر والوں نے یہ حالت دیکھی تو انہوں نے بندریا کو موٹر میں ڈالا اور جنگل میں جا کر چھوڑ آئے۔ اب بچہ اپنی ماں کے بغیر اداس رہنے لگا۔ پہلے تو وہ خوشی خوشی اپنے ماں کیساتھ ملکر کھانا کھایا کرتا تھا لیکن اب اس نے کھانا پینا بھی بند کر دیا اور بھوک ہڑتال کر دی مگر اسے یہ بھوک ہڑتال مہنگی پڑی۔ دوسرے ہی دن اسکا دل گھٹنے لگا۔ بے چارے نے فوراً ہی چنے کی تھالی اپنی طرف کھینچ لی اور چنے کھانے لگا۔
اب بندریا کا حال سیئے وہ بیچاری اپنے بچے کے بغیر اداس ہوئی تو واپس اپنے گھر کو چل پڑی جہاں اس کا بچہ قید تھا۔ راستہ تو اسے معلوم ہی تھا۔ ایک دو روز میں پہنچ گئی۔ بھاگ کر بچے کو گلے لگایا۔ بچہ بھی اپنے ماں کو پاس دیکھ کر بہت خوش ہوا اور فوراً اسکے کندھے پر چڑھ کر کودنے لگا۔ اسوقت وہاں کوئی موجود نہ تھا۔
بندریا نے موقع غنیمت جانا اور بچے کو لیکر باہر چل پڑی۔ ابھی چند ہی قدم چلی ہو گی کہ بچہ کندھے سے نیچے گر پڑا۔ پھر سے اٹھایا اور پھر چل پڑی۔ بچہ پھر گر پڑا۔ بیچاری کو اب معلوم ہوا کہ بچہ تو ستون کیساتھ زنجیر سے باندھا ہوا ہے۔ بے بسی کے عالم میں وہیں بیٹھ گئی اور بچے کو سینے سے لگا کر پیار کرنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد جب گھر کے لوگوں کو بندریا کا علم ہوا تو سب بڑے حیران ہوئے مگر انہوں نے اسے کچھ نہ کہا۔ لیکن بندریا نے پھر اب گھر میں پھر چیزوں کی توڑ پھوڑ شروع کر دی۔
جب اسے رسی سے باندھا جانے لگا تو رسی تڑوا کر بھاگ کھڑی ہوئی۔ اس نے سامنے سڑک پار والے باغ کے ایک درخت کو اپنا گھر بنا لیا۔ اب وہ ہر روز دن میں دو یا تین بار اپنے بچے کے پاس آتی اور اسے پیار کرتی اور گھر سے ایک آدھ چیز توڑ پھوڑ کر واپس درخت کیطرف بھاگ جاتی۔
monky at tree
اسی طرح دو مہینے گزر گئے اور سردیوں کا موسم آ گیا۔ بندریا کو سردی لگنے لگی۔ جنگل میں ہوتی تو کسی غار یا کھوہ میں چھپ جاتی۔ شہر میں کہاں جائے۔ اسکے بچے کو اب برآمدے میں سے کھول کر اندر ایک کمرے میں باندھ دیا گیا تھا وہ تو سردی سے بچ گیا تھا۔
مگر ماں کی محبت بچے کو دور رکھنا نہ چاہتی تھی۔ آخر ایک دن اس سے نہ رہا گیا۔ دھوپ نکلی ہوئی تھی اور اسکا بچہ باہر باغ میں باندھا ہوا تھا۔ امیر آدمی کا بیمار بچہ پاس ہی پنگوڑے میں لیٹا ہوا تھا۔ نوکرانی آرام سے کرسی پر بیٹھی اونگھ رہی تھی۔
بندریا آہستہ آہستہ پہلے اپنے بچے کے پاس گئی، اسے پیار کیا۔ اسکی زنجیر کو دیکھا اور لپک کر بیمار بچے کے پنگھوڑے میں کودی اور ایک ہاتھ سے بچے کو جو کمزور ہو گیا تھا گلے سے لگایا اور ایک درخت پر چڑھ گئی۔ نوکرانی ایک دم چونک کر اٹھی اور اس نے شور مچا دیا۔ سارا گھر ایک دم جمع ہو گیا۔
کسی نے کہا۔” بندریا کو گولی مار کر گرا دو۔” پھر سوچا کہیں انکا بچہ زخمی نہ ہو جائے۔ بچے کی ماں رو رہی تھی۔ باپ الگ پریشان تھا۔ بہن بھائی فکر مند تھے۔ بندریا کو بہتیرا بہلایا پھسلایا پر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی اور بیمار بچے کو لیکر درخت پر بیٹھی رہی۔ آخر بچے کے والد کو ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے فوراً بندریا کے بچے کی زنجیر کھول دی۔ بچہ آزاد ہو کر درخت کے نیچے آ گیا۔
ادھر سے بندریا نے اپنے بچے کو اور بچہ نے بندریا کو دیکھا، بندریا نے درخت سے اترنا شروع کر دیا۔ گھر کے سارے لوگ پرے پرے ہٹ گئے۔ نیچے آ کر بندریا نے انسانی بچے کو گھاس پر لٹا دیا۔
اپنے بچے کو پیار سے گلے لگا کر چوما، اسے کندھے پر بٹھایا اور سڑک پار والے باغ کے درخت کیطرف بھاگ گئی۔ گھر والوں کی جان میں جان آئی۔ ماں اور باپ بھاگ کر بچے کو گلے لگا کر پیار کیا اور خدا کا لاکھ شکر ادا کیا کہ بچے کی جان بچی اورہ وہ انہیں پھر مل گیا۔ اسکیبعد وہ بچہ آہستہ آہستہ صحتمند ہونا شروع ہو گیا۔
شاید وہ بندریا کے بچے کیوجہ سے اچھا نہ ہوا تھا بلکہ انکی دعاؤں کیوجہ سے اچھا ہوا تھا جو بندریا کے دل سے نکلی تھی ” کیونکہ اسکا بچہ اسکو مل گیا تھا اور ماں کی مامتا کا کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا تھا۔