حالیہ ضمنی انتخابات ۔ تازہ ہوا کا جھونکا اور ابرِ رحمت کی نوید

Abdul Qayyum

Abdul Qayyum

ٹی وی چینلز کے مالکان یا اخباروں کے مدیر جب چند اشخاص کو اپنے ٹی وی چینل پر اینکر پرسن کو ذمہ داری سونپتے یا اپنے اخبارات میں مختلف قلمکاروں کو اپنے خیالات کے اظہار کیلئے جگہ دیتے ہیں تو پھر اینکر پرسنز، ٹاک شوز میں حصہ لینے والے ماہرین اور اخباروں میں قلمکاری کرنیوالے حضرات کے کندھوں پر ایک بہت بڑی پیشہ ورانہ اور اخلاقی ذمہ داری کا بوجھ بھی آن پڑتا ہے ۔ ان سے توقع یہ کی جاتی ہے کہ وہ نہایت دیانتداری اور خدا خوفی سے بالکل غیر جانبدار رہتے ہوئے اپنے تجزیے صرف اور صرف ملکی مفاد میں اس طرح پیش کرینگے کہ اپنی تقریر یا تحریر پر ذاتی پسند و ناپسند، سیاسی جانبداری اور اخلاقی بے راہ روی کا رنگ نہیں چڑھنے دینگے ۔

اینکر پرسنز اور قلمکاروں کو اپنی رائے رکھنے اور اس کا شائستگی سے اظہار کرنے کا پورا حق ہے لیکن وہ اپنے آپ کو عقلِ کل نہ سمجھیں، اسکے علاوہ ٹاک شوز میں حصہ لینے والے بھی دوسروں کی پگڑیاں اچھال کر بھنگڑے ڈالنے کی بجائے عوام کی توجہ اپنی اور اپنی جماعت کی مثبت کارکردگی کی طرف مبذول کروائیں، وزن دار دلائل کے ساتھ اپنا نقطہ نظر پیش کرنے اور مہذب گفتگو کرنے والوں کو عوام سننا چاہتے ہیں۔ انسانی عظمت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کسی دوسرے کے نقطہ نظر سے دلائل کے ساتھ اختلاف کرتے ہوئے بھی شائستگی کے دائرے سے باہر نہ جائیں اسی طرح اخبارات میں کالم لکھنے والے صحافی اگر نظریاتی طور پر اپنے آپ کو کسی سیاسی شخصیت کی سوچ یا سیاسی پارٹی کے منشور کے بہت قریب سمجھتے ہیں اور عملی طور پر سیاسی جماعت کیلئے دن رات کام بھی کر رہے ہیں تو پھر وہ صحافی نہیں سیاسی کارکن ہیں، اس لئے اخلاقا اور اصولا ان کو اس جماعت میں شمولیت کا اعلان کر دینا چاہئے اور سیاسی جماعت سے وابستگی کے بعد بھی اپنے سیاسی حریفوں کے منہ ناجائز کالے کر کے پیش کرنے کی بجائے اپنی جماعت کی مثبت کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کرنا چاہئے اور دیانتداری سے اپنی جماعت کے کمزور پہلو?ں کی نشاندہی بھی کرنی چاہئے ۔

چونکہ اخباری صفحات اور ٹی وی پر دیا گیا وقت صرف یکطرفہ ٹریفک کیلئے نہیں، نہ صحافت کے لبادے میں آپ کسی سیاسی جماعت کیلئے کام کر سکتے ہیں۔ مجھے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ کئی ٹی وی چینلوں پر بہت ہی سینئر اور تجربہ کار صحافی اور نابالغ قسم کے اینکر ملک کی اعلی ترین سیاسی اور عدلیہ سے منسلک شخصیات کے کردار پر بہت ہی گھٹیا اور شرمناک حملے کرتے رہے ہیں۔ اس جرم میں شریک وہ اینکر بھی ہیں جو ایسے لوگوں کو اپنی ریٹنگ بڑھانے کیلئے ٹاک شوز میں بلاتے ہیں اور پھر ان کی بدتمیزی کا نوٹس بھی نہیں لیتے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اخبارات میں بھی چند قلمکار اپنی چادر کی گنجائش سے زیادہ لمبا قدم اٹھاتے ہیں اور اپنی من پسند سیاسی شخصیات کو اٹھا کر آسمان پر لے جاتے ہیں اور جن کو وہ پسند نہیں کرتے ان کا خون بھی ان کو گندہ نظر آتا ہے ۔ اس طرح کی بدنیتی پر مبنی جانبدارانہ صحافت ان کی بہترین تخلیقی اور ادبی تحریروں کے تاثر کو بھی ختم کر دیتی ہے اور لوگ ان کی باتوں اور لغو الزامات پر کان نہیں دھرتے ۔

میری کوشش یہ رہی ہے کہ کالم ایسے قومی اور بین الاقوامی موضوعات پر لکھے جائیں جس میں نہ صرف غلط باتوں کی نشاندہی کی جائے بلکہ یہ بھی بتایا جائے کہ راقم کی ناقص عقل لیکن دیانتدارانہ رائے میں صحیح راستہ کیا ہے ؟ میں نے اپنا پہلا کالم جون جولائی 20074 میں لال مسجد پر لکھا تھا جس میں صدر صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ لال مسجد کے معمے کو عدالتوں سے حل کروایا جائے تو بہتر ہو گا۔ پچھلے پانچ سالوں سے میں ہفتہ وار کالم لکھ رہا ہوں جن پر دو کتابیں فکر و خیال I اور II مارکیٹ میں آ چکی ہیں۔ میری نظریاتی ہم آہنگی ان جماعتوں اور سیاسی شخصیات کے ساتھ ہے جو پاکستانیت، جمہوریت اور اسلامیت پر یقین رکھتے ہیں اِن میں مسلم لیگ (ن) سب سے بڑا اور طاقتور گروپ ہے جس کی قیادت ایسی تجربہ کار شخصیت کے ہاتھ میں ہے جس کی ماضی کی سیاسی حکمتِ عملی پر تو کئی لوگ اپنی سوچ کے مطابق انگلیاں اٹھاتے ہوں گے لیکن میاں نواز شریف کی حب الوطنی، شائستگی اور ملک کو معاشی ترقی کی راہ پر ڈالنے کیلئے موجود بے تابی پر ان کے سیاسی حریف بھی انگلی نہیں اٹھا سکتے ۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے میاں صاحب کی خواہش کے مطابق مسلم لیگ (ن) میں غیر مشروط شمولیت کا فیصلہ کیا اب اگر مجھے وہ این اے 60 چکوال کی سیٹ سے آگے لانا چاہئیں تو یہ میرے لئے ایک بہت بڑا اعزاز ہو گا اور میں اہل چکوال اور اہل پاکستان کی خدمت میں بطریق احسن سرانجام دوں گا اور انتخابات میں تقریبا 100فیصدی کامیابی بھی ممکن ہے۔

PML N

PML N

چونکہ چکوال مسلم لیگ ن کا قلعہ ہے اور اللہ کا کرم ہے کہ چکوال اور پاکستان کیلئے میری خدمات کی وجہ سے میری عوامی اور مذہبی حلقوں میں دوسروں سے بہتر پذیرائی بھی ہے لیکن اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت قومی اسمبلی کیلئے چکوال سے مجھ سے زیادہ موزوں امیدوار کو نامزد کرتی ہے تو پھر بھی میں اللہ کا شکر ادا کروں گا اور نامزد امیدوار کی پوری مدد کروں گا۔ چونکہ پاکستان کی تاریخ کی ان مشکل ترین گھڑیوں میں ہمیں اپنے مفادات پر ملکی مفاد کو ترجیح دینا ہو گی اور اسکے علاوہ ہمارا ایمان ہے کہ غفور رحیم کا ایک اپنا نظام ہے جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ بہتر ہوتا ہے ۔ کئی لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت کیوں اختیار کی۔ میں ان کو صرف یہ جواب دیتا ہوں کہ نظریاتی ہم آہنگی، میاں نواز شریف کی قیادت پر اعتماد اور مسلم لیگ (ن) کی ماضی کی کارکردگی جن میں مندرجہ ذیل چیزیں اہم ہیں۔

آج سے 22 سال قبل نومبر 19904 سے اپریل 19934 تک کی حکومت میں معیشت میں Deregulation کے جدید تصور کو متعارف کروایا، زرمبادلہ کی غیر ضروری نقل و حرکت پر پابندیاں ختم کیں، ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹر میں بیرونی سرمایہ کاری کو پہلی دفعہ فروغ دیا، بجلی کی پیداوار کو 9770 میگاواٹ سے بڑھا کر 10600 میگاواٹ تک لایا گیا اور پندرہ لاکھ نئے بجلی کے کنکشن دئیے ، غازی بروتھا کے 1400 میگاواٹ پراجیکٹ کی منظوری دی اور چین سے 300MW کے چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ کا معاہدہ کیا، کراچی سے پشاور آنیوالے N۔5 نیشنل ہائی وے کو ڈبل کرنے کا کام شروع ہوا اور جنوبی ایشیا میں پہلی M۔2 موٹر وے پر کام شروع ہو گیا۔ گوادر بندرگاہ اور کراچی ۔ گوادر ساحلِ سمندر پر سڑک پر کام شروع ہو، کراچی اور لاہور میں ایسے ائر پورٹ تعمیر کروائے جو پورے جنوبی ایشیا میں جدید ترین تھے ۔ بھٹو صاحب کے دور میں جن پانچ بینکوں کو قومی تحویل میں لیا گیا تھا ان میں سے ایم سی بی اور اے بی ایل کی 19914 میں پھر نجکاری کروا دی۔

اسکے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر میں 10 نئے بینک اور 20 انویسٹمنٹ کمپنیاں کھولنے کی اجازت دی، 70 سالہ پرانے پانی کے جھگڑے کو ختم کرنے کیلئے مارچ 19914 میں Water Accord پر دستخط ہوئے 17 سالوں کے بعد پہلی دفعہ 19914 میں میاں صاحب کی حکومت میں این ایف سی ایوارڈ پر دستخط ہوئے ۔ 19924 میں پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو پہلی دفعہ 7.7 فیصد تک پہنچی اور کراچی سٹاک ایکسچینج میں 200 نئی کمپنیاں رجسٹر ہوئیں۔ 19974 سے 19994 تک کے دوسرے دور حکومت میں کیپٹل مارکیٹ اصلاحات کا اعلان ہوا بیرون ملک پاکستانیوں کیلئے گرین چینل کا اجرا، بیرون ملک سے مردہ پاکستانیوں کے جسدِ خاکی کی فری آمد، سکیورٹی ایکسچینج کمیشن وجود میں آیا، بینکوں کی اصلاحات ہوئیں اور نجکاری، ڈی ریگولیشن اور لبرالائزیشن کے جدید تصورات پر عمل ہوا جس کی تعریف امریکی صدر نکسن نے اپنی کتاب سیز دی موومنٹ میں کی۔ وی آئی پی کیلئے ڈیوٹی فری 3000 سی سی کی کاروں کی درآمد پر پابندی لگائی۔ چونگی اور ضلع ٹیکس ختم کئے ۔ 19984 میں فوج کی مدد سے کامیاب مردم شماری کروائی۔

مئی 19984 میں ایٹمی دھماکے کئے ۔ نادرا اتھارٹی قائم ہوئی جس سے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کا اجرا ہوا۔ گذشتہ پانچ سالوں میں قومی مالیاتی اور میکرو اکنامکس کی پالیسیوں پر کوئی کنٹرول نہ ہونے کے باوجود جو کچھ میاں شہباز شریف نے پنجاب میں کیا اس میں چار میڈیکل کالجز، یونیورسٹیاں، فلائی اوورز اور رورل اپ لفٹ کے بہت سارے منصوبے ہیں جن کا ذکر کبھی بعد میں ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) کو بہرحال اپنے تنظیمی امور پر زیادہ دھیان دینا ہو گا یہ ان کا کمزور پہلو ہے ۔ قارئین یہ وہ پس منظر ہے جس کی بدولت آمدہ موسم بہار پاکستان کیلئے بہت ساری خوشیاں لا رہا ہے ۔

Election Pakistan

Election Pakistan

حالیہ ضمنی انتخابات میں عوام کی مسلم لیگ (ن)کیلئے پذیرائی ایک تازہ ہوا کا جھونکا تھا جس نے جلد ابرِ رحمت آنے کی نوید دی اور جس کی وجہ سے ذاتی سیاسی مفادات پر قومی مفادات قربان کرنیوالے اور پاکستان کے جسم کو نوچنے والی گِدھیں سکتے میں ہیں۔ دنیاوی مفادات اور نفسانی خواہشات کی خاطر ملکی مفادات کو دا182 پر لگانے والے یاد رکھیں حضرت علی? کا یہ قول موت کو یاد رکھنا نفس کی تمام بیماریوں کی دوا ہے۔

 

تحریر : لیفٹینٹ جنرل (ر)عبدالقیوم