جو چیز جتنی زیادہ قیمتی ہوگی، اتنی ہی زیادہ اس کی حفاظت کی ضرورت ہوگی۔ قیمت خطرات میں اضافہ کرتی ہے۔ خطرات حفاظت کیمقدار بڑھا دیتے ہیں۔ جب کبھی کسی ملک کا کوئی سائنس داں انسانی زندگی پر اثر انداز ہونے والی ایک مشین ایجاد کرنے کا فارمولا دریافت کرتا ہے اور اسے عالمِ وجود میں لانا چاہتا ہے۔ یا کائنات کی کسی اَن دیکھی توانائی کا پتہ لگاتا ہے اور اسے اپنی گرفت میں لاکر انسانیت کے حوالے کرنا چاہتا ہے تو فوراً اس ملک کی حکومت اس سائنس دان کے گرد، نگرانی اور حفاظت کا حصار کھینچ دیتی ہے۔
اسے ایسی لیبارٹری مہیا کر دی جاتی ہے جہاں لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی اس کے باہر نکلنے پر پابندی عائد کر دیا جاتی ہے ۔ بالکل اسی طرح پاکستان میں صوبوں کا معاملہ بھی ہے۔ ملک کے طول و عرض میں آج کل مختلف صوبے بنانے کے حوالے سے چیمہ گوئیاں عروج پر ہے۔چیمہ گوئیاں کا لفظ یہاں پر جملوں کے تسلسل کو برقرار رکھنے کیلئے کیا گیا ہے حالانکہ پاکستان میں اس وقت کے حالات و واقعات کے مناسبت سے کئی صوبوں کی ضرورت درپیش ہے۔
موجودہ حکومت نے لازمی نہیں کہ اپنے دور میں سب کچھ ہی خراب کیا ہوگا ، گو کہ حالات کی سنگینی بتاتی ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے دور میں کچھ بھی اچھا نہیں کیا جس سے عوام میں خوشیاں پائی جائیں۔ لیکن گلگت بلتستان کو الگ صوبے کا درجہ دیکر وہاں کے عوام کیلئے ظاہر ہے کہ ایک بہت ہی اچھا کارنامہ انجام دیا تھا۔ صوبہ سرحد کے لوگوں کی خواہش کے مطابق ان کی پہچان صوبہ خیبر پختونخواہ کا نام دیا گیا یہ بھی بلا شبہ اچھا کام ہے۔ اب جنوبی پنجاب صوبے کا سلسلہ اور اس کے لئے چوبیسویں ترمیم لانے کی تیاریاں زوروں پر ہے۔
جنوبی پنجاب کے لوگ بھی کافی عرصے سے الگ صوبے کا نعرہ لگا لگا کر تھک چکے تھے۔ لگتا یہی ہے کہ موجودہ حکومت ان کی اس خواہش کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے گی۔ حالانکہ کئی اطراف سے اس صوبے کی مخالفت بھی ہو رہی ہے۔ مگر قوی امید یہی ہے کہ یہ حکومت جاتے جاتے جنوبی پنجاب صوبہ وجود میں لے آئے گی اس عمل سے ان کے اپنے ووٹ بینک میں اضافہ تو ہوگا ہی مگر سب سے بڑھ کر وہاں کے عوام کو خاطر خواہ ترقی ضرور ملے گی۔
ہمارا پڑوسی ملک اب تک کئی صوبے لوگوں کی رائے کے مطابق بنا چکا ہے۔ مگر ہم اب تک اسی بات پر متفق نہیں ہوئے ہیں کہ ہمارے یہاں ضرورت کی بنیاد پر صوبے بنا دیئے جائیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ ہمارے یہاں کے لیڈران کبھی بھی عوام کی بھلائی کیلئے کچھ کرنے کا نہیں سوچتے۔ ہمارے یہاں ذاتی پسند، موروثیت اور ذاتی مفاد کی چپقلش عام ہے اس لئے ہمارے یہاں کے سیاسی کھلاڑیوں کی زندگی عروج کی طرف محو پرواز رہتی ہے اور غریب عوام کی زندگی پستی کی جانب۔ ہر جمہوری ملک میں عوام کیپذیرائی کی جاتی ہے اور اسی وجہ سے وہ تمام ممالک ترقی یافتہ کہلاتے ہیں۔
Bangaladash
جبکہ ہمارا ملک آزادی کے بعد سے اب تک ترقی پذیر ہی کہلاتا رہا ہے۔ بنگلہ دیش کو ہی لے لیں ہمارے بعد بلکہ ہمارے ہی ملک کا بٹوارا کرکے آج کہاں سے کہاں پہنچا ہوا ہے ترقی کی دوڑ میں وہ ہم سے کہیں زیادہ آگے ہے۔ مگر ہم صرف اپنی ناکامیوں کی لکیر کو ہی پیٹتے رہتے ہیں۔ ترقی کرنے کی طرف توجہ ہی نہیں دی جاتی۔ اور کیسے دی جائے گی جب کہ ہمارے یہاں عوام کی داد رسی ہی دیکھنے میں نہیں آتی۔
آج فرحت اللہ بابر صاحب نے میڈیا پر اعلان کر دیا ہے کہ نئے صوبے سے متعلق تمام آئینی طریقۂ کار کو کاغذی شکل دے دی گئی ہے اور کمیٹی کے چیئرمین سمیت تمام ممبران نے اس پر دستخط بھی کر دیا ہے۔ پیر کو یہ تحقیق شدہ دستاویز قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جائے گا۔ جنوبی پنجاب کے لوگ تو بے چین ہیں کہ کب ان کے لئے الگ صوبے کا اعلان ہو اور انہیں راحتیں مل سکے۔
ان کا ایک دیرینہ مطالبہ جو ایک خواب بنتا جا رہا تھا پورا ہو جائے۔ نئے صوبے کے خد و خال کس طرح بنتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن حلقۂ اقتدار کے لوگ کچھ کچھ اپنی رائے زنی کر رہے ہیں کہ نئے صوبے کا دارالحکومت ملتان ہوگا ، کوئی کہہ رہا ہے کہ نئے صوبے کا دارالخلافہ بہاولپور ہوگا۔ کوئی یہ بھی کہتا ہوا پایا گیا ہے کہ نئی اسمبلی ملتان میں بنے گی اور دارالخلافہ بہاولپور ہوگا۔ خیر سے امید افزا بات یہ ہے کہ نیا صوبہ بن جائے۔ باقی باتیں یا کام تو ہو ہی جائیں گی۔ پہلے صوبے کا وجود ہوگا تبھی تو بقیہ کام کا فیگر بھی عیاں ہوگا۔
راقم کا خیال اگر پوچھا جائے کہ نئے صوبے کا دارالخلافہ کہاں ہونا چاہیئے تو پہاولپور کی طرف نشاندہی کروں گا کیونکہ بہاول پور پاکستان کا ایک قدمیمی شہر ہے اور بارہواں بڑا شہر ہونے کے علاوہ پنجاب کی ڈویژن کا درجہ بھی رکھتا ہے۔
یہ شہر دریائے ستلج کے بائیں کنارے پر پشاور کراچی کی ریلوے لائن پر واقع ہے۔ یہ شہر پہلے ریاست بہاولپور کا صدر مقام بھی تھا اس وقت بہاولپور شہر کی کل اابادی تقریباً 798,905 افراد پر مشتمل ہے جبکہ شہر کا کل رقبہ 2,372 مربع کلو میٹر ہے۔ تاریخ کے حوالے سے اس شہر کو دیکھا جائے تو اس شہر کی بنیاد سندھ کے دائود پوتا خاندان کے دوسرے حکمران محمد بہاول خان نے رکھی تھی۔ اور اسی کے نام کی مناسبت سے اس شہر کو بہاول پور کا نام بھی دیا گیا ہے۔ یہ حکمران خاندان عباسی خاندان بھی کہلاتا ہے۔
لیکن حقیقت میں یہ نواب خاندان مصر اور بغداد کے عباسیوں سے نسلاً مختلف تھا۔ 1838ء میں اس خاندان نے انگریزوں کے ساتھ کئی معاہدے کئے اور ریاست بہاولپور پر حکمرانی قائم رکھی۔ لیکن پاکستان کے قیام کے بعد 17اکتوبر 1947ء کو یہ ریاست پاکستان میں شامل ہوگئی۔
بقول کچھ سیاسی جماعتوں کے لیڈران کے کہ صوبے جس قدر چھوٹے ہونگے وہاں کے لوگوں کی داد رسی اچھی طرح کی جا سکے گی۔ اب یہ بات الگ ہے کہ مزید نئے صوبوں کی تشکیل کب اور کیسے ہوتی ہے۔ لسانی بنیادوں پر ہوتی ہے یا انتظامی بنیادوں پر۔ بہرحال اس بات میں سچائی ضرور ہے کہ صوبے جتنے زیادہ ہونگے عوامی داد رسی کی گنجائش زیادہ وسیع ہوگی۔
اس لئے ملک بھر میں جہاں جہاں مزید صوبوں کی ضرورت ہے اسے فوری عملی جامہ پہنائی جائے تاکہ عوامی محرومی دور ہو سکے۔ آج کل کے حالات و واقعات کے مناسبت سے صوبوں کی تشکیل از حد ضروری بھی ہے۔ اگر انڈیا زیادہ صوبے بنا سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں! جمہور کے معنی ہی یہی ہیں کہ اپنے عوام کا ہر طرح کی آزادی دی جائے۔ تاکہ ملک، صوبہ اور شہری سب خوشحالی کی طرفگامزن ہوں
Crowd Pakistan
۔
ملکی حالات اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ نیا سامان بنانے والے کی تو آئو بھگت کی جاتی ہے مگر انسان (عوام) اگر اپنا حق مانگ رہے ہوں تو ان کا خیال کسی کو نہیں آتا۔ بلاشبہ موجودہ حکومت اس کام پر داد کی مستحق ہوگی اگر جنوبی پنجاب صوبہ بنا دے۔ یہی انصاف ہے۔
یہی انسانیت کی میراث ہوگی جو انسان اور انسان کے درمیان قائم ہونے والے سارے رشتوں کو جنم دینے والی ہو۔ زمین کے اندر چھوٹی چھوٹی سی تبدیلی سے اگر پوری انسانیت پر اثر ہو سکتا ہے تو ایسے کام بھلائی کے ہی کہلائیں گے۔ جنوبی پنجاب صوبے کے وجود میں آجانے سے وہاں کے عوام کو اندھیرے سے روشنی کی چمک ضرور دکھائی دے گی۔ کہتے ہیں کہ سمجھدار کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے۔
لیکن جب آدمی اقتدار کے نشے میں ہوتا ہے تو اس کو چیزیں اپنے مخالف نظر نہیں آتیں۔ یہی حال آج کل تمام حکمراں ، اپوزیشن ، چھوٹی اور بڑی سیاسی جماعتوں کا ہوگیا ہے۔ جب کہ عوام کا غیض و غضب ان کو پہلے سے آگاہ کر دیتی ہے کہ ووٹ کے ذریعے ہم ان کا قلعہ قمع کرنا جانتے ہیں۔ ایسے میں پارٹیاں اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کو ترتیب دینا شروع کرتی ہیں۔ اب بھی جو جماعتیں اپنی تراتیب میں رد و بدل کر رہی ہیں۔
انہیں اپنے منشور میں اس بات کو بھی خاص جگہ دینے کی ضرورت ہے کہ اقتدار میں آکر مزید صوبے جہاں جہاں ضرورت ہونگی بنائے جائیں گے۔ غریب عوام یہ سوچ سوچ کر قبر کی گود میں پہنچ جاتے ہیں کہ آخر غریبوں، کمزوروں سے کئے گئے سعدے کیوں پورے نہیں کئے جاتے ہیں۔ جب کہ امیروں اور کاروباریوں سے کئے گئے سارے وعدے وفا ہو چکے ہیں۔
آج کے اس جدیدٹیکنالوجی کے طوفانی انقلاب کے دور میں دنیا کے تمام ممالک اپنے عوام کے بَل بوتے پر کامیابیوں کے زینے طے کر رہی ہیں تو ہم ان کامیابیوں سے کیوں دور ہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم سب بشمول لیڈران ، مفتیان، دانشوران اور تمام مکاتبِ فکر کے لوگ اب یکجا ہو جائیں ۔ آپ متحد ہونگے تو دیکھا دیکھی عوام بھی متحد ہوگی۔ اور جب یہ دونوں بازو متحد اور یک جان ہونگی تبھی جاکر ہم سب ترقی کی منازل طے کر سکیں گے۔