اگست 1947ء کو جو تاریخ کی ایک روشن اورتابناک صبح تھی جب ہم انگریزوں کی غلامی کی زنجیریں توڑکر قائداعظم محمد علی جنا ح کی قیادت میں آزادی کی نعمت سے بہرہ ورہو ئے تھے اس آزادی کے لئے ہم نے طویل عرصے تک جددُجہدکی تھی اور وہ عظیم قربانیاں پیش کی تھیں تاریخ جن کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے آزادی کبھی تحفے میں نہیں ملتی اس کے لئے جان ومال کی قربا نی پیش کر نی پڑتی ہے اورمصائب و مشکلات کے سمندر عبور کرنے پڑتے ہیں ہم نے بھی اپنی قومی آزادی کے لئے طویل عرصے تک جدوجہدکی اور لا تعدادقربانیا ں پیش کیں برصغیر میں انگریزوں کی آمدکے ساتھ ہی ہماری قو می جدوجہد کا آغازہوگیا تھا پاکستان کے قیا م کو ایک معجز ہ کہا جا تا ہے لیکن معجزے تو پلک جھپکتے ہی رونما ہو جا تے ہیں اس لئے قیا م پاکستان کو ایک معجزہ قرار دینا درست نہیں ہے ۔
اس کے قیام کے لئے طویل عرصے تک جد وجہد کی گئی اس کی خاطر بے پنا ہ قربانیا ں دی گئیں اپنے وطن کو غیر وں کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے مسلمانان ہند نے جو قربانیا ں پیش کیں تاریخ اُس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے آزادی کبھی بھی بغیر قربانیوں کے حاصل نہیں ہو تی اس کے لئے جا ن پر کھیلنا پڑتاہے اور اپنے ہی خون میں نہا نا پڑتا ہے برصغیر پا کستان و ہند کے مسلمانوں نے آزادی کے حصول کے لئے جو قربانیا ں دیںوہ دُنیا کی کو ئی اور قوم شاید ابھی تک پیش نہیں کر سکی اگر ہم تاریخ کے ورق پلٹتے ہوئے پاکستان کے قیام سے چند سال پہلے کے حالات کا جائزہ لیں تویہ اند ازہ لگانے میں کو ئی دیر نہیں لگے گی ہم نے آزادی اورعلیحدہ اسلامی مملکت کے لئے عظیم قربانیاں پیش کی ہیں جو ں جو ں پاکستان کا قیام عملی طور ممکن نظر آرہا تھاہند و اور سکھ مسلمانو ں کو ہندو ستان سے نسیت ونا بود کر نے کے پر وگرام بنار ہے تھے بعدمیں اان پروگراموں کے مطابق زبردست فساد کر ئے گئے مسلمان آبادیوں پر حملہ کر کے اُنہیں لوٹاگیا مسلمانوں کی بستیا ں اُجاڑدی گیئں لاکھوں مسلمانو ں کو اپنے آبائی گھر چھو ڑنے پر مجبور کر دیا گیا محض اس لیے کہ وہ ایک خدا اور ایک رسو ل کے نا م لیو ا تھے ۔
hafiz javed
فسادات کی ابتداء کلکتہ سے کی گی جب اگست 1947ء میں مسلم لیگ نے راست اقدام کی تحریک چلائی ہندووُں نے مسلم لیگی وزارت کو بدنام کر نے کے لیے وہا ں زبردست فسادات کر ائے ان فسادات میں پانچ ہزار مسلمانو ں کو شہید کیا گیا اور بیس ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہو ئے ۔ ایک انگریز افسر نے کلکتے کے فسادات کا چشم دیدحال بیان کر تے ہوئے کہاپولیس کے مردہ خانے میں اس وقت تک داخل ہو نا محال تھا جب تک کہ سانس لینے کا مصنوعی آلہ استعمال نہ کیا جا ئے اس کی وجہ سے سٹری ہو ئی لاشوں کے ڈھیرتھے جو چھت تک پہنچ چکے تھے میں نے ملٹری پو لیس کے انگریزافسروں کے ہمر اہ جیپ میں بیٹھ کر تین گھنٹے تک شہر کا دورہ کیا ہمیں اس دورے میں جو منظردکھا ئی دیا وہ میدان جنگ میں بھی نظرنہیں آسکتا صوبہ بہار میں جہا ں کا نگریسی حکومت قائم تھی مسلح ہندووں نے ایک منظم منصوبہ کے تحت مسلمانوں پر حملے کئے اور اُن کو لو ٹامسلمانو ں کا یہ قتل عام 25اکتوبر 1946ء سے 10نومبر تک جا ری رہا ایک محتاط انداز کے مطابق تیس ہزار سے زائد مسلمان شہید ہو ئے اور ڈیڑ ھ لاکھ مسلمان بے گھر ہو ئے اسی طرح ہندوستان کے دو سرے تمام علاقو ں ہندووں اور سکھوں نے سوچے سمجھے منصوبوں تحت مسلمانو ں کا قتل عام کیا۔
ہندووستان کے ہندونوازاور مسلمان دشمن وائسرائے لارڈمائونٹ بٹین نے مشرقی اور مغربی پنجاب کی حدبندی مسلم لیگ سے خفیہ رکھ رہے تھے پنجا ب کو مسلح سکھ دستوں اور تشددپسند ہندئووں کے حوالے کر دیا اُن لاکھوں مسلمانوں کے مصائب کی تصویر کشی ممکن نہیں جنہیں تشدداور قتل عام کے لامتناہی سلسلے کاسامناکرنا پڑا قتل عام آتشزدگی جسمانی اعضاء کی قطع وبرید مجرمانہ جملے بستیوں اور انسانوں کے جلانے کا عمل طویل عرصے تک جاری رہا۔ سکھوںنے جو آج مظلوم قوم ہو نے کے دعویدار ہیں پنجاب میں اپنے آپ کو منظم کیا اُنہو ں نے اپنی نیم فوج تنظیموں شرومنی اکالی دل اور اکالی سیناکی ازسرنو تنظیم کی انہوں نے 4مارچ1947سے ہنگا مے شروع کردئیے ۔
ماسٹر تارا سنگھ اور گیانی کر تار سنگھ نے لاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے نگی کر پانیں لہرا کر اشتعال انگیز تقریر یں کیں اور نعرہ لگایا کہ راج کر ے گا خالصہ باقی رہے نہ کو ئی ما سٹر تارا سنگھ نے تقریر کر تے ہو ئے کہا کہ پاکستان مردہ باد ست سریٰ کال اب وہ وقت آگیا ہے کہ بس تلوار کی طاقت سے فیصلہ ہو گا سکھ مسلمانوں کے حواس درست کر نے کے لئے تیا ر ہیں اُسی رات ایک جلسے میں اُس نے کہا کہ ہندئوواور سکھو !تمہارے امتحان کاوقت آگیا ہے دھرتی خون مانگ رہی ہے ہم خون سے اُس کی پیا س بجھائیں گے میں نے بگل بجادیا ہے مسلم لیگ کو ختم کر دو ہندئوو ں کی متعصب تنظیمیں راشٹر یہ سیوک سنگھ اور ہند ومہاسبھاپہلے ہی سے مسلمانوں کے خلاف مصروف عمل تھیں ۔ ان اشتعال انگیز تقریروں کا نتیجہ یہ نکلا کہ سارا پنجاب ہنگامو ں کی لپیٹ میں آگیا سکھوں اور ہندئووں نے مسلما نوں کے مکانوںپر حملے شروع کر دئیے پھر یہ ہنگامے ایک شہر سے دوسرے شہر پھیلتے چلے گئے ۔
پنجا ب کے علاوہ دہلی کا ٹھیا واڑ اور کشمیر تک یہ فسادات بڑھتے چلے گئے ۔ بے گناہ مسلمان بچوں بوڑھوں اور خواتین کا قتل کیا گیا ۔ میوات کا علاقہ ان ہنگاموںکا مرکز بنا رہا ۔ گو ڑگاؤں الور اور بھرت پور کی ریاستوں میں میواتی مسلمان آباد تھے ۔ ہندو راجاؤں نے مسلمانوںکو مٹانے کے لئے منظم پروگراموں پر عمل کیا اور اپنی پولیس اور فوج کی مد د سے جو ہندئووں اور سکھوں پر مشتمل تھی مسلمانوں کی آبادیوں پر حملے کر کے قتل وغارت کا بازار طویل عرصے گرم رکھا ریاست الور میں مسجدوں کو مسمار کر نے اور اُن کے ملبے کو صاف کرنے کا ٹھیکہ دیاگیا تمام مساجداور مقدس مزاروں کو مکمل طور پر تباہ کر کے اُن کا نام نشان مٹادیاگیا پاکستانی فوج کے افسروں اور جوانوں کو دہلی سے کراچی پہنچانے کے لئے سپیشل گاڑیو ں چلائی گئیں ان گاڑیو ں میں فوجی سٹوربھی تھا مسلح ہندو جتھے ان پر حملہ کر رہے تھے تاکہ پاکستان کی نئی مملکت میں نہ فوجی افسر رہیں نہ جوان اور نہ سامان باقی رہے ۔
Dehli
دہلی میں مہاسبھائیوں نے 30اگست کو یو م شہادت منانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے جے بھارت کے نام سے ہزاروں پمفلٹ تقسیم کئے اس میں لکھاتھا30اگست 1947ء کو مت بھولیں۔ ھمارے شہیدوں کا دن ہے اس دن کی ابتداء مسلمانوں بچوںاور عورتوںکے قتل سے شروع کی جائے مسلمانوں کے گھروں پر زبردستی قبضہ کر لو ۔ مسلمان محلوں کو آگ لگادو مگر اتنا خیال رہے کہ آگ ہندو یا سکھوںکے محلوں تک نہ پھیلنے پائے۔بہار.برالہ مدارس اور بمبئی میں دس لاکھ مسلمانوں کو زبر دستی ان کے گھروںسے نکال دیا گیا ۔کپور تھلہ کی ریاست میںمسلمانوںکی آبادی کا تنا سب 67فی صد تھاان کے قتل عام کے منصوبے بنائے گئے اور وہاں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا باقی کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا آج کپور تھلہ میںایک بھی مسلمان نظر نہیںآتا۔پٹیالہ فرید کو ٹ جنید نابھ اور شملہ پہاڑی ریاستو ں سے مسلمانوںکا نام و نشان مٹادیا گیا ۔بمبئی سی پی یو پی بہار مدارس اور مسلمانوں کے خون سے ہو لی کھیلی گئی اجمیر شریف میں حضرت خواجہ ا جمیری کی خانقاہ پر حملے کئے گئے ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ دہلی کے فسادات میںلا تعداد تاریخی مسا جد مزارات اور عمارتوں بے حرمتی کی گئی ۔ حضرت خواجہ بختیار کا کی کے مزار کی بے حرمتی کی گئی مہردلی کے تاریخی قصبے کو تباہ وبر باد کر دیاگیا ۔
دہلی مسلمانوں کی موت کا گھر بن گیا تھا ۔گجرات کا ٹھیاواڑاور بمبئی کے علاقے مسلمان تاجروں کے مرکز تھے ہندوؤں نے کا نگرس کی رہنمائی میں جو ناگڑھ ما نگردل اور مناؤو در میں مسلمانوں پر حملے کر کے قتل عام کیا اور مسلمانوں کو یہا ں سے بھاگنے پر مجبور کیا حالا نکہ یہ ریاستیں پاکستان سے اسحاق کا اعلان کر چکی تھیں ۔ یہی ڈرامہ جموں و کشمیر میں رچاگیا وہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن مشرقی پنجاب سے ہزاروں مسلح ہندو اور سکھوں کو پناہ گزینوں کے لباس میں بھیج کر فسادات کرائے گئے ہندو بلو ائیوں کو مسلمان مردوں عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتارنے اور ان کا حلیہ بگاڑنے کی کھلی چھٹی دی گئی تھی ۔
حالات کا اندازاہ لندن ٹائمز کے نامہ نگار آئین مور لسین کی ایک رپورٹ سے بخوبی کیا جاسکتا ہے جو اس نے 24اگست 1947کوجالندھر سے روانہ کی جس میں اس نے لکھا ۔ مشرق پنجاب میں اس وقت جو قتل عام ہورہاہے اس سے متعلق تجربہ کار انگریزاور مقامی افسروں کی متفقہ رائے یہ ہے کہ ہم نے جنگ عظیم کے دوران میں جو کچھ دیکھا یہ اس سے زیادہ ہو لناکی ہے سکھ مشرقی پنجاب کو مسلمانوں سے خالی کرانے میں سرگرم ہیں وہ ہر روز افراد کو تہہغ کررہے ہیں اور ہزاروں کو نبوک شمشیر مغرب کی طرف بھگادیتے ہیں وہ مسلمانوں کے دیہات اور گھروں کو نظر آتش کررہے ہیں ہندوسکھ راجوڑوںکے راجوں مہاراجو ں نے مسلمانوں کے باقاعدہ منظم قتل عام کے لئے دیہات اور گھروں کو نظرآتش کر ہے ہیں ۔
ہند و سکھ راجواڑواں کے راجوں مہاراجوں نے مسلمانوں کے باقاعدہ منظم قتل عام کے لیے اپنی اپنی فوجیں مہاسبھائیوں اور جن سنگیوں کے سپرد کر دی تھیں باقاعدہ منصوبوں کے تحت مسلمانوں مردوں کو ہلاک کیا گیا عورتوں کی بے حرمتی کی گئی معصوم بچوں کو نیزوںاور کر پانوں پر اچھال دیا گیا ۔ہزاروں مسلمان کنبوں کو پناہ گزینوں کے کیمپوں میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا لیکن وہاں بھی ان کی قسمت میں چین نہیں تھا ۔ ان کیمپوں پر رات کی تاریکی میںحملے کئے جاتے مسلح ہندومہاسبھائیوں اور جن سنگھیوں کے جتھے مسلمانو ں کا پیچھاکر تے ہندو اور سکھ پولیس اور فوج کی مدد سے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتے رہے اور تعجب کی بات ہے کہ ان واقعات پر کسی بین ا لاقوامی تنظیم نے مداخلت کی زحمت گوارانہیںکی۔اور مسلمانوںکو اپنی آزادی کے لئے بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔
وحشت اوربربریت کایہ عالم تھا کہ نوجوان مسلمان دو شیزاؤں کی آبروریزی ان کے لواحقین کے سا منے کی جاتی جب وہ مشتعل ہو کر روکنے کی کو شش کر تے توانہیںتلوار سے قتل کرکے قہقہے لگائے جاتے ہندو اور سکھ غنڈوںنے بچوںبیماروںاور معذوروںکو بھی معاف نہیں کیا ہزاروںمسلمان عورتوں کو اغوا کر لیا گیا ۔عورتوںکی چھاتیاںکاٹ دی گئیں ۔ہندوؤں کی وحشت اور بربریت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ قیام پاکستان کے بعد جب ایک مال گاڑی لاہور پہنچی تو اس کی ایک بوگی سے بچوں کے کٹے ہوئے سر دیگر اعضااور عورتو ں کی چھاتیوں کے ڈھیر برآمد ہو ئے اور ڈبے کے باہر لکھا ہوا تھا پاکستان کے لئے عیدکاتحفہ مسلمان مہاجرین کو پا کستان لانے ولی سپیشل ٹرینوں پر بم مارکے حملے کئے جا تے اور بعض اوقات جب پنجاب سے یہ سپیشل ٹرینیں لاہور پہنچتیں تو اُن میں لاشو ں اور خون کے سو ا کچھ بر آمد نہ ہو تاتھا ۔
خون اور آگ کا کھیل سارے ہندوستان کھیلا گیا ۔ مو لانا آزاد جیسا کٹرکانگریسی شخص بھی دہلی میں مسلمانوں کے قتل عام پر آنسوبہائے بغیر نہ رہ سکا اُس نے اپنی کتا ب میں لکھا یہا ں مسلمانو ں کا قتل عام ہو رہاہے اور سکھ اُس میں نمایاں حصہ لے رہے ہیں انڈین آرمی مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت سے گریز کررہی ہے کیونکہ اس میں اکثریت ہندئووں اور سکھوں کی ہے جن مجسٹریٹوں کو امن وامان کے لئے مقررکیاگیا ہے وہ اپنے فرائض ادا نہیں کر رہے کیو نکہ وہ سب ہندئو تھے اس لئے مسلمانوں کے قتل وغارت کارتماشا دیکھتے رہے خود نہرواور گاندھی نے مسلمانوں کے علاقوں کادورہ کیااور نام نہاد متحدہ قومیت کے ان دعویداروں کے سر مسلمانو ں کی حالت زار دیکھ کر شرم وندامت سے جھک گئے ۔
Muslims killed
یہ حالات دیکھ کر ہزاروں نوجوان مسلمان لڑکیوں نے اپنی عزت وآبروکے تحفظ کی خاطر کنوؤں میں چھلانگیں لگا کر اپنے آپ کو ختم کر دیا ۔ یا عزت مندوالدین نے اپنی نوجوان بیٹیوں کو اپنے سامنے بے آبرو ہو نے سے بچانے کے لئے پہلے ہی اپنے ہاتھوں سے خود قتل کر دیا ۔ وحشت اور بربریت کے نتیجے میں لاکھوں افراد کواپنے آبائی علاقے چھوڑکر ہجرت کرنا پڑی ۔ لدھیانہ اور امر تسر کے درمیان سکھوں کے مسلح جتھے اسپیشل مہاجر ٹرینوں کو روک لیتے اور مسلمانوں کو شہید کر دیتے ۔ اسی قسم کی ایک اسپیشل ٹرین میں محکمہ دفاع کا عملہ اوران کے اہل وعیال پاکستان آرہے تھے اس ٹرین کو رو ک کر سینکڑوںمسلمانوں کو شہید کر دیا گیا ۔ معلوم نہیں کتنی عورتوں کو اغواکیا گیا ۔ جب یہ ٹرین لاہو ر پہنچی تو پوری خون میں نہائی ہوئی تھی 459مسلمانوں کی لاشیں اس میں موجود تھیں ۔ ان میں 50بچوں اور 64عورتوں کی لاشیں بھی تھیں ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان آنے والے مہاجر ین کی ٹرینوں پر دہلی سے لاہور کے درمیان 54سے زائد حملے کئے گئے ۔ جو مسلمان بچ کر پاکستان پہنچے وہ نہایت کسمپری کی حا لت میں تھے ان میں سے اکثر پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس زخمیو ں سے چورا تھکن سے نڈھال تھے ۔ ان لوگوں پر مصیبت اس لئے آئی کہ وہ مسلمان تھے ۔
قیام پاکستان کے موقعہ پر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور مسلمان عورتوں کو اغوا کر کے ان کے بر ہنہ جلوس نکا لے گئے ۔ اس بارے میں ایک غیر ملکی مصنف لکھتا ہے ًامر تسر میں نئے حکا م آزادی کے بعد اختیارات سنبھال چکے مگر شہر میں امن وامان کی صورت حال بدستور مخدوش تھی ۔ شہر کے اندر سکھ اپنے مسلمان ہمسایوں کا بے دریغ خون بہار ہے ہیں۔ مردوںکو بے رحمی سے قتل کیا جارہاتھا عورتوں کو اغواکیا جاتاان کی آبرریزی ہو تی ۔ خوف وتشدد سے کا نپتی ان بر ہنہ بے بس عورتوں کو شہر بھر میں پھر گولڈن ٹمپل دربار صاحب تک لایا جاتااور پھر بہت سی عورتوں کی گردن اڑادی جاتی۔ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے لاکھوں مسلمان پاکستان کو اپنی امید کا آخری مرکز سمجھ کر یہاں پنا ہ کے لئے پہنچنا چاہتے تھے لیکن ہندو اور سکھو ں کے راستے میں رکاوٹ بن رہے تھے دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر زاہد حسین جو لاکھو ں مسلمان مہاجر ین کو جلداز جلد پاکستان پہنچانے کے انتظامات کر رہے تھے ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔
١٨ستمبر کو صرف جالندھر ڈویژن میں١٨ لاکھ مہاجر ین ترک وطن کے انتظامات کے منتظر تھے مگر سکھ ریل گاڑیو ں اور قافلوں کی راہ میںسدراہ بن رہے تھے اور تاراسنگھ اس رکاوٹ پر اتنا نازاں ہو رہاتھا کہ وہ بار بار یہ نعرہ لگارہاتھا کہ یہ جنگ ہے جنگ اس صورت حال پر لیاقت علی خان نے کہا ایسا معلو م ہو تاہے کہ ہم ہر طرف سے گھرے ہوئے ہیں اور ہمارا محاصرہ ایسی قوتو ں نے کر رکھا ہے جو ہمیں تباہ وبرباد کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ قیام پاکستان کے موقع پر مسلم کشی کی جو مہم چلائی گئی ہندو رہنما اس پر پر دہ ڈالنے میں میں مصروف رہے ان خبروں کو ملک سے باہر جانے سے روکنے کی کوشش کی گئیں لندن ٹائمز کا نامہ نگار لوئیس ہیرن جو 1946میں اور بعد ازاں 1952تک نئی دہلی میں مقیم رہا۔اپنے ایک مضمون میں جس میں بھارتی فلم گاندھی پر نکتہ چینی کی گئی یوں لکھتا ہے۔
اس فلم میں ہندوستان کی تقسیم کے وقت دس لاکھ انسانوں کے قتل کو پیش نہیں کیا گیا گاندھی اس قتل عام سے خود کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتے تقسیم ہند کے وقت قتل عام کی خبریںبیرون ملک بھیجنے سے باز رکھنے کی ساز ش کی گئی ۔پنڈت نہرو کوڈر تھا کہ قتل عام کی خبروں سے سارے بھارت میں آگ لگ جائے گی۔امرتسر اور اس کے نواحی علاقوں میں سکھوں کی جانب سے مسلمانوں کے قتل عام کے واقعات دل ہلاکر رکھ دیتے ہیںاس قتل عام کے بارے میں اے۔ایل۔ایل ۔بی ٹرمینل ٹیکس سپرنٹنڈنٹ امرتسر کی رپورٹ کا ایک اقتباس دیکھئے جو اس نے پولیس کو لکھوائی۔کوئی پانچ سو بلوائی بندوقوں اوررائفلوں سے مسلح ہو کر پولیس اور نام نہا د فوج کے زیر حفاظت 15اگست کی صبح کو 9بجے کے قریب کو چہ رنگریزاں میں داخل ہوئے اور جو شخص بھی ان کے سامنے آیا۔اس کو بے دردی سے قتل کرتے چلے گئے۔بمشکل دو تین آدمی بچے ہوں گے۔ دوسرے دن صبح کو میں ایک مقامی مجسٹریٹ میجر پورن سنگھ ملتانی پی سی ایس کے ساتھ اس محلے میں گیا ۔ہم نے ایک مسجد میں15سے30سال تک لڑکیوں کی46نعشیں خود شما رکیں جن کے گلے کٹے ہوئے تھے۔
یہ لڑکیاں بالکل برہنہ ایسی حالت میں پڑی تھیں جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ قتل کئے جانے سے پہلے ان کی عصمت دری بھی کی گئی تھی تمام مکانات نعشو ں سے پٹے پڑے تھے لندن کے ایک اخبار ڈیلی میل کے ایک نمائندہ کو فسادات کے زمانے میں لاہور سے دہلی تک سفر کرنے کا اتفا ق ہوا اس نے راستہ میں جو کچھ دیکھا اس کے ایک حصے کا اقتباس دیکھئے میری کہانی وہی لوگ سن سکتے ہیں جو بڑا دل گردہ رکھتے ہیں مجھے اطلاع مل چکی تھی کہ مشرق پنجاب میں خوف زدہ انسانو ں کی باری جمعیتوں کے ساتھ انتہائی درجے کی بر بریت کی جاتی ہے لاہور پہنچ کر اس کی نمایا ںحقیقت معلوم ہونے لگی کیونکہ اسی روز لاہور میں خون سے لتھڑی ایک گاڑی 15ا پ پہنچی تھی جس کے سینکڑوں مسلمان مسافروں کو ریاست پٹیالہ میں ٹھنڈا کے مقام پر بے دریغ تہ تیغ کر دیا گیا تھا۔اس گاڑی پر سے صرف آٹھ مسلمان اتارے گئے جو بری طرح مجروح ہو چکے تھے یہ گاڑی نو ڈبوں پر مشتمل تھی جس میں ایک ہزار مسافر آسانی سے سوار ہو سکتے تھے اس گاڑی پر مسلمان پناہ گزین لاہور آرہے تھے کہ راستے میں اسے ٹھرالیا گیا گاڑی کے رکتے ہی مسلح سکھوں کے غول چاروں طرف سے ٹوٹ پڑے فوج کا حفاظتی دستہ ایک طرف کھڑا مسلمانوں کے قتل عام کا تماشا دیکھتا رہا ۔مسافروں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے گئے پھر ان کی لاشوں کو قریب کی نہر میں پھینک دیا گیا ۔
Pakistan
مسلمانان ہند نے اپنی آزادی اوراپنی علیحدہ اسلامی مملکت کے قیام کے لئے جو قیمت اد ا کی اُس کا اندازہ ان اعدادوشمارسے لگایا جاسکتاہے کہ ایک کروڑ مسلمانو ں کو اُن کے آبائی گھروں سے نکال کر اُنہیں پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور کیا گیا ان میں سے زیادہ تعداد مشرقی پنجاب سے آنے والے مہاجرین کی تھی ۔ صرف دسمبر 1947ء تک 47لاکھ سے زائد مہا جر پاکستان پہنچ چکے تھے یہ دنیاکی سب سے بڑی ہجرت تھی 10سے 15لاکھ مسلمانوںنے جام شہادت نو ش کیا ان میں بیشتر تعدادعورتوں اوربچوں کی تھی قریباً ایک لاکھ مسلمان عورتوںکو اغواکر کے ان پر مجرمانہ حملے کئے گئے کروڑوں روپے مالیت کی جائیدادیں لوٹ لی گئیں ۔
اگر پاکستان نہ بنتاتو مسلمانو ں کی علیحدہ قو می حیثیت ختم ہو جاتی اس کے لئے ہند وستان کے موجود حالات کو سامنے رکھئیے وہ ہند و قومیت کا محض ایک ضمیمہ ہو تے اُن کے مذہب اور تہواروں پر پابندیاں لگادی جا تیں مساجد مندروں میں تبدیل کر دی جا تیں بابری مسجد کاواقعہ سب کے سامنے ہے ہندوستان کے کروڑوں مسلمان اس مسجد کو مندرمیں تبدیل ہو نے سے نہ روک سکے ہندوستان جا نے والے سیاح جا نتے ہیں کہ مسلمانوں کی کتنی ہی مساجد ویران اور اصطبلوں میں تبدیل کی جا چکی ہیں اذان نماز اور اسلامی شعائر کا بھارت میں مذاق اُڑایا جاتا ہے وہ سب کے سامنے ہے 1981میں میر ٹھ میں عید کی نماز کے موقعہ پر درجنوں سوروں کو عیدگاہ میں دھکیل دیا گیا تھا گائے ذبح کر نے پر بھا رت کے متعد د صوبو ں میں پابندی عائد ہے عید قربان پر گائے کی قربانی کر نے کے لئے سینکڑوں مسلمانو ں کو خود قربان ہو نا پڑتا ہے مسلمان لڑکیو ں کی قومی یکجہتی کے نام پر ہندوں لڑکو ں سے شادیاں زبردستی ہندئووں سے کر اتا ہے۔
بحوالہ نوائے وقت 19اگست 1981لیکن یہ قومی یک جہتی کا مسلہ یکطرفہ ہے اگر کو ئی ہندولڑ کی اپنی رضامندی سے مسلمان لڑکے سے شادی کر ے تو سارے ہندوستان میں ہندئووں میں اضطراب پید اہوجاتاہے اور اُس کا بدلہ مسلمانوں کا قتل عام کر کے لیا جا تا حج کی سہولیتں زرمبادلہ پر پابندی کے نا م پر بھارت محدوو تعداد میں مہیا کی جا تی ہیں وہ بھی محض دکھاوے کے لئے تعلیمی اداراوں میں مسلمان بچے بند ے ماترم اور اس نوعیت کے ترانے گاتے ہیں گاندھی کی تصویر کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو تے ہیں دینی کتب کی بجائے رامائن اور بھگوت گیتا پڑھائی جا تی ہیں مسلمان بچے تہوراوں سے زیادہ ہو لی اور دسہرہ کے تہواروں سے واقف ہیں ۔ اگراقتصادی طورپر جائزہ لیاجا ئے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بھارتی مسلمان ااقتصادی طور پر انتہائی پسماندہ ہیں اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے اُن پر بند ہیں تجارت وصنعت پر پہلے بھی ہندو چھائے ہو ہیں اور اب بھی مسلمان نو جوانوں کی اکثریت بے روزگاری کا شکار ہے ۔
پاکستا ن اگر نہ بنتا تو بھارت کے ایک سکھ ٹیکسی ڈارئیور کے بقول ہندوستان کی آبادی میں چھ کروڑ جو ہڑوں بھنگیوں کا اضافہ ہو جا تا لیکن آج پاکستاکی صورت میںسترہ کروڑ سے زائدمسلمانو ں کا مستقبل درخشاں اور تابناک ہے پاکستان میں بلند ہو نے والی اذانوں کی صدائیں اوراسلام کی آوازیں دنیا کے ہر حصے میں محسوس کی جاسکتی ہیں پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت خداکی ناشکری نہیں وہ اللہ کی اس عنایت کے لئے جتنابھی شکر اداکر ئے کم ہے ۔سوال یہ پید اہو تا ہے کہ مسلمانان ہندنے یہ عظیم قربانیا ں کیو ں دیں ؟محض اس لئے کہ وہ ایک ایسا خطہ حاصل کر ناچاہتے تھے جہاں وہ اپنے عقیدے اور مذہب کے مطابق زندگی گذارسکیں اسی وجہ سے تحریک پاکستان کے زمانے میں سارے ہندوستان میں ایک ہی نعرہ گونج رہاتھا۔ بٹ کے رہے گاہندوستان لے کر رہیں گے پاکستان پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الاللہ اب یہ سوچناہمارا کام ہے کہ جس مقصد کے لئے ہم نے یہ قربانیاں پیش کیں اُس میں ہم کس حد تک کامیاب رہے ۔ تحریر : حافظ جاوید