قارئین ہم زندگی میں مختلف مسائل کے حل کے لئے مختلف ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ اگر صحت خراب ہو جائے تو ہم ڈاکٹر وں سے رابطہ کرتے ہیں اگر عدالتی مسئلہ ہو تو ہمیں وکیلوں سے رابطہ کرنا پڑتا ہے اگر بال کٹوانے ہوں توہم حجام سے رابطہ کرتے ہیں اور اگر کپڑے سلائی کروانے ہوں توہم درزی سے رابطہ کرتے ہیں ۔الغرض کہ ہم زندگی میں بہت سے معاملات میں بہت سے لوگوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں ۔اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم اپنے جس مسئلے کے حل کے لئے کسی شخص سے رابطہ کرتے ہیں اس شخص کو اس معاملے میں پوری طرح مہارت ہونی چاہئے لیکن آج میں جس مسئلے کی بات کرنے جا رہا ہوں ،وہ بہت اہم ہے کیونکہ اب تک میں نے جن مسائل کی بات کی وہ سب کے سب دنیاوی ہیں لیکن جس مسئلے کی بات میں اب کرنے جا رہا ہوں اس کا تعلق ہماری دنیاوی زندگی سے بھی ہے اور ہماری آخرت سے بھی ہے۔ حدیث شریف کے مطابق حضرت عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ ایک دن ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک شخص نمودار ہوا جس کا لباس بہت سفید اور بال نہایت کالے تھے ،اس پر سفرکا کوئی اثردکھائی نہ دیتا تھا اور نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا۔یہاں تک کی وہ شخص نبی کریم کے سامنے اس طرح بیٹھ گیا کہ اس نے اپنے دونوں گھٹنے آپ کے مبارک گھٹنوںسے ملا دیئے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنی دونوںرانوں پررکھ لئے ۔اور عرض کی یامحمد مجھے اسلام کے بارے خبر دیجیے،آپ نے ارشاد فرمایاکہ توگواہی دے کہ اللہ تعالی کے سوا عبادت کے کوئی لائق نہیں اوریہ کہ محمدۖاللہ کے رسول ہیں ۔زکواة ادا کرئے ،رمضان کے روزے رکھے اورطاقت واستطاعت کی صورت میں کعبة اللہ کا حج کرئے۔پھر اس نے عرض کی مجھے ایمان کے بارے میں خبر دیجیے ۔نبی کریم نے ارشاد فرمایا، ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں اس کی کتابوں اس کے رسولوں پرروزقیامت اور اچھی بری تقدیرپرایمان لائے۔اس نے عرض کی بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا(اس کے بعد )اس نے عرض کی مجھے احسان کے متعلق بتائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ تواللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح سے کر گویاتواسے (اللہ تعالیٰ کو)دیکھ رہا ہے اگر یہ نہ ہوسکے تو خیال رکھ وہ(اللہ تعالیٰ)تجھے دیکھ رہا ہے ،پھر اس نے عرض کی کہ مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایاتوجس سے پوچھ رہاہے (یعنی میں)وہ قیامت کے بارے میں پوچھنے والے(یعنی تجھ)سے زیادہ جاننے والا نہیں ۔اس نے عرض کی کہ مجھے اس (قیامت )کی کچھ نشانیاں ہی بتا دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ، لونڈی اپنے مالک کو جنے گی، اور توننگے پائوں والوں ، ننگے بدن والوں فقیروں اور بکریاں چرانے والوں کو محلوں میں فخرکرتے دیکھے گا۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ پھر وہ شخص چلا گیا۔ میںکچھ دیر ٹھہرا تورسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا اے عمر جانتے ہو کہ سوال کرنے والا کون تھا۔میں نے عرض کی اللہ اور اس کا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں ارشاد فرمایاکہ وہ جبرائیل تھے ، تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے ۔(صحیح مسلم)میں عالم دین نہیں طالب علم ہوں اس لئے اس حدیث مبارکہ کوپوری طرح سمجھنا میرے لئے بہت ہی مشکل ہے ۔لیکن اتنا ضرور کہوں گاکہ اس حدیث میں قیامت کی جو نشانیاں اللہ کے رسول نے بیان فرمائیں ہیں وہ اٹل حقیقت ہیں اور یہ ساری نشانیاں دور حاضر میں ظاہر ہوناشروع ہوچکی ہیں ۔اس حدیث شریف سے مجھے ایک اہم بات کی سمجھ آئی ہے ۔وہ یہ ہے کہ جب سرکاردوعالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ قیامت کے بارے نہیں جانتے صرف نشانیاں ہی بتائی ہیں۔ تو پھر آج کے مولوی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ سرکار دوعالم سے زیادہ بات کرئے ۔ ہمیں احکام شریعت کو اپنی زندگیوں میں شامل کرنا چاہے اور دوسرے انسانوں کو تکلیف ہرگز نہیں پہنچانی چاہئے۔ انسان کو تکلیف میں دیکھ کر اللہ تعالی ٰکے فرشتے بھی پریشان ہوتے ہیں اور بددعا سے ڈرتے ہیں جس کی مثال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے کو انسان کی جان قبض کرنے کا حکم دیا تووہ پریشان ہو گیا اور عرض کی اے اللہ میں آپ کے حکم سے کیسے انکار کر سکتا ہوں؟ لیکن جب میں آدم کی اولاد کی جان قبض کروں گا تو یہ لوگ مجھے بدعا دیں گے اور آپ نے اس مخلوق کو اشرف المخلوقات بنایا ہے (یعنی تمام مخلوق سے بہتر مخلوق) اور اس طرح تمام لوگ مجھے گالیاں اور بدعائیں دیں گے کہ ہمارے عزیز کو مالک الموت لے گیاتو اللہ تعالیٰ نے فرمایا، تم ان کی جان نکالو گے لیکن یہ لوگ یہ کبھی نہیں کہیںگے کہ ہمارے اس عزیز کو مالک الموت لے گیا ہے بلکہ میں کوئی بہانہ بنائوں گا۔ ہر کام اللہ کی رضا سے ہوتا ہے اس میں بندہ اپنی کوئی مرضی نہیں کر سکتا، اب لوگ بیماریوں، ٹریفک حادثات اور لڑائیوں جھگڑوں سے مر رہے ہیں، جو بھی اس دنیا فانی سے رخصت ہوتا ہے کسی وجہ سے وہ مرتا ہے ،لیکن آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہمارے فلاں عزیز کو مالک الموت لے گیا ہے بلکہ کہتے ہیں کہ اس فرد کو فلاں بیماری تھی یا اس فرد کو اللہ نے اپنے پاس بلا لیا ہے یا اللہ کو ایسے ہی منظور تھااور اس میں ہی اللہ کی رضا ہے اور ہم اللہ کی رضا کے سامنے کچھ نہیں کر سکتے۔ اس دنیا سے ہر ایک کو رخصت ہونا ہے چاہے وہ کیسے بھی ہولیکن اس نے ایک دن خالق حقیقی سے جا ملنا ہے، ہمیں بھی اپنے آپ کو اس دن کے لیے تیار کر لینا چاہیے۔تاکہ ہماری آخرت اچھی ہو۔جس کے لئے ضروری ہے ہم اپنے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم اس انداز میں دلائیں کہ ہمارے بچوں کوقرآن کریم کی پوری طرح سمجھ آجائے ۔ان کو اس بات کا پتا چل جائے کہ جب ہم قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں تو قرآن مجید ہم سے مخاطب ہوتا ہے اور زندگی گزارنے کے ضابطے بتاتا ہے ۔ہمیں بتاتا ہے کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے۔اور اگر ہم نے اپنے بچوں کو قرآن کریم نہ سکھایا تو ہمارے مرنے کے بعد کوئی فائدہ حاصل نہ ہو سکے گا۔اگر اولاد نیک ہو اوراچھے اعمال کرے تو آخرت میں والدین کو بھی فائدہ ملتا ہے۔