ہمارے نبی صل اللہ علیہ واسلم کی احادیث مبارکہ میں بہت تفصیل کے ساتھ آخرت کے زمانہ کے اشارے ملتے ہیں جو کہ قیا مت سے قریب ہوگا۔ان تفصیلات کے مطابق جنکا علم ہمارے نبی صل اللہ علیہ وسلم نے دیا، اس وقت یکے بعد دیگرے بہت ساے واقعات ظہور پذیر ہونگے۔ آخری زمانہ کے پہلے مرحلے میں زمین پر بہت زیادہ فساد اور بد نظمی پھیلے گی، اور دوسرے مرحلے میں جیسا کہ لوگ دینی اقدار کے مطابق زندگی گزاریں گے بہت ہی امن و امان اور حفاظت چھا جائے گی۔
آخری زمانہ کے پہلے مرحلے میں مختلف فلاسفی نظام جو کہ غیراللہ اور بے دینی کی تعلیم کے تحت ہونگے ، انکے اللہ کے وجود کا انکار کرنے کی وجہ سے لوگوں کے درمیان خطرناک حد تک بحران ہوگا ۔ انسانیت اپنے پیدا کرنے کے اصل مقصد سے ہٹ جائے گی جسکی وجہ سے ایک روحانی خلا اور اخلاقیات کا بحران ہوگا۔زبردست تباہی ہوگی، جنگیں ہونگیں، قحط سالی کا زمانہ ہوگا اور ہر کوئی اس سوال کا جواب ڈھونڈے گا کہ ہم کسطرح بچ سکتے ہیں۔کسطرح ان مشکلات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و اسلم کی احادیث میں ، ان میں سے زیا دہ تر تباہ کاریوں کو آخری زمانہ کی نشانیوں سے نسبت دی گئی ہے جو کہ ہمارے زمانے میں وقوع پذیر ہوئے بلکل اسی طرح جسطرح کے بتائے گئے۔
حال ہی میں بڑھتے ہوئے اختلافات اور جنگیں، دہشت گردی، لوٹ مار، سیاسی افراتفری اور بد نظمی، قتل و غارت اور تشدّد، یہ سب آخری زمانہ کے پہلے مرحلے کے نشانات ہیں جو کہ آج کل ہو رہے ہیں۔
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دی گئی اطلاعات کے مطابق، اس اندھیرے دور کے بعد اللہ پاک لوگوں کو اس فساد اور بدنظمی سے بچا لیں گے اور انکو اس ظلم سے نجات عطا کرینگے۔دوسرے الفاظ میں اللہ پاک حضرت مہدی کی شکل میں جنکا خطاب “سچائی کی طرف رہنمائی کرنے والا” ہوگا اور جو عظیم اخلاقی اقدار کے مالک ہونگے، لوگوں کا امام بنائیں گے جو ان لوگوں کی رہنمائی کرینگے جو کہ اصل دینی اخلاقیات سے پھر گئے ہونگے اور جن معاشروں میں سیدھے راستے سے ہٹنے کی وجہ سے بحران پیدا ہوا۔ ہمارے نبی کی حدیث میں اور اسلامی علماء کی تحقیق اور تشریح کے مطابق، حضرت مہدی تین بڑے کاموں کی ذمہ داری سنبھالیں گے۔ سب سے پہلا کام حضرت مہدی جو کرینگے وہ ہر اس فلاسفی نظام کو مات دینگے جو اللہ کے وجود کا انکار کرتا ہے اور غیراللہ کو سہارا دیتا ہے۔دوسری طرف وہ اسلام کی اصل روح کو قرآن اور سنت کے مطابق بیدار کرینگے۔ آخری زمانہ کے پہلے مرحلے میں وہ بدنظمی کا، سماجی مسائل کا، معاشرے میں انسانیت کو پیش آنے والی مشکلات کا حل نکالیں گے اور جو کہ ذریعہ بنے گا امن و امان کا، خوشیوں کا اور اخلاقیات کے دنیا میں پھیلنے کا۔
دوسری طرف حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کا دوبارہ دنیا میں ظہور ہو گا اسی زمانے میں جس زمانے میں حضرت مہدی ہونگے، اور وہ خاص طور پر عیسائیوں اور یہودیوں کو مخاطب کرینگے اور انکو غلط عقائد جس میں وہ پڑ گئے ہونگے نجات دلائینگے اور انکو قرآنی اخلاقیات کی طر ف دعوت دینگے۔ جیسے ہی عیسائی حضرت عیسٰی کو تسلیم کرینگے، اسلام اور عیسائیت ایک عقیدہ کے تحت متحد ہو جائینگے اور امن و امان، حفا ظت، خوشحالی کا زمانہ شروع ہو جائے گا۔ یہ زمانہ سنہرے زمانہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ مقدس زمانہ جسکا سینکڑوں سالوں سے آرزو اور انتظار ہے، آدھی صدی پر محیط ہوگا جیسا کہ حدیثوں میں اشارے ملتے ہیں اور بلکل اسی طرح خوشیوں کے وقت سے مشابہت کریگا جیسا حضور صل اللہ علیہ واسلم کا زمانہ تھا۔ اس سنہرے زمانہ میں زندگی بہت ہی دلکش ہے کہ ہر کوئی خواہش کرے گا کہ وہ یہ زمانہ میں رہ چکا ہو۔ وہ وقت کے گزرنے کا اندازہ نہیں کر سکیں گے اور اللہ سے لمبی عمر کی التجا کریں گے تاکہ اس دلکش زندگی سے مزید لطف اندوز ہو سکیں۔
اس سنہرے زمانے کی آرزو اور تمنائیں ہمارے پیارے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں اس طرح بیان کی گئی ہیں:
نو عمر خواہش کرینگے کہ ہم جوان ہو جائیں اور ادھیڑ عمر خواہش کرینگے کہ ہم کم عمر ہو جائیں۔
نعیم حماد ، ابن عباس سے نقل کرتے ہیں:
مہدی اہل بیت سے ایک نو جوان ہے۔ ہمارے بوڑھے اس تک نہیں پہنچ سکیں گے اور جوان اسکی امید کرینگے۔ اسکا وقت ایسا ہوگا کہ قبروں میں دفن مردے بھی زندہ ہونے کے لیے حسد کرینگے۔
حدیث میں ہمارے نبی صل اللہ علیہ واسلم نے بتا یا کہ حضرت مہد ی کے ساتھ جو لوگ شامل ہونگے وہ بہت ہی عمدہ ہونگے جنکو اس دنیا میں اورآخرت میں نجات ہوگی اور جو اچھی باتیں اس زمانہ میں وقوع پزیر ہونگی اسکے بارے میں اشارے دیے۔
میرے خاندان میں سے ایک آدمی آئیگا جو اس دنیا کو انصاف سے بھر دے گا جسوقت وہ فساد سے بھری ہوگی۔ سو جو کوئی بھی وہ زمانہ دیکھے خیر کے لیے انکے ساتھ شامل ہو چاہے برف پر گھسٹ کے آنا پڑے کیونکہ انکے درمیان اللہ کے خلیفہ المہدی ہونگے۔
اس دوران لوگ جو خوشیاں اور مسرت تجربہ کرینگے اسکا زکر اللہ نے قرآن میں کیا ہے۔ قرآن کی ایک آیت میں اللہ نے فرمایا کہ اللہ اپنے نیک بندوں کو خوش حال زندگی عنایت کرینگے۔
“جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت لیکن با ایمان ہو تو ہم اسے یقینا نہایت بہتر زندگی عطا فر مائینگے 150 اور انکے نیک اعمال کا بدلہ بھی انہیں ضرور دینگے -سورۃ نحل ۹۷”