حکمران، ہم اور ہمارے ادارے تو عوام کو لوٹنے کا بہانہ ڈوھونڈتے ہیں

pakistan

pakistan

کوئی ہماری یہ بات مانے یا نہ مانے مگر یہ حقیقت ہے کہ ہماری ماضی کی جتنی بھی حکومتیں آئیں اِنہوں نے اپنے مفادات کے خاطر قومی خزانے کو خالی ہونے کا ڈرامہ رچایا اور عوام پر طرح طرح کے مہنگائی کے طوفان برپا کر کے اِنہیں اِس کے شکنجوں میںکس دیا اور آج بھی اِس میںکوئی شک نہیں کہ ہمارے موجودہ حکمران جنہوں نے عوام کو روٹی، کپڑااور مکان کا دلفریب اور دلکش نعرہ دے کر اقتدار حاصل کیا ہے یہ بھی اِس روش پر قائم ہیں آج ہمارے یہی حکمران ہیں جنہوں نے عوام کو ٹیکسوں کے جال میں پھنسانے اور اِنہیں مختلف اندازسے لوٹنے کے لئے مختلف بہانے ڈوھونڈ رکھے ہیں۔
آج ہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ سابق وزیراعظم اور ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں سیاسی شیرببر کہلانے میں فخرِ عظیم محسوس کرنے والے میاں محمد نواز شریف کے چھوٹے بھائی وزیراعلی پنجاب جو ایک طرف توکسی حد تک خود کو شیرببر کہلانے میںعار محسوس کرتے ہیں مگردوسری جانب یہی ہیں جو خودکو خادم اعلی کی حیثیت سے اپنے صوبے اور ملک کے لوگوں سے داد وصول کرنے میں ضرور اپنا امیتاز سمجھتے ہیں ایسی ہی تمام چاپلوسی والی آمیزش سے بھر پور شخصیت میاں شہباز شریف ہیں جنہوں نے پچھلے دنوں سوئیڈن کے وزیرخارجہ سے ایک ملاقات کی تو اِسی دوران اِنہوں نے گفتگو کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ ملک میں جاری کرپشن اور اسلام آباد میں موجود حکمران ملک کے لئے زہرقاتل ہیں یوں خادمِ اعلی شہبازشریف نے سوئیڈن کے وزیر خارجہ کارل بلڈٹ کو قائل کرنے کی اپنی حتی الممکن کوشش یہ کر ڈالی کہ ہمارے ملک کے حکمران واقعی ایسے ہی ہیں جیساکہ یہ کہہ رہے ہیں مگر جب سوئیڈن کے وزیرخارجہ نے اِن کی اِس بات پر کوئی دہان نہ دیااور اِس پر حامی یا انکار سے متعلق کوئی جواب نہ دیا تو میاں شہباز شریف نے ترنت ان کے سامنے کچھ اِس طرح اپنی لب کشائی کرڈالی کہ روٹی، کپڑا اور مکان دینے کے دعویداروں نے عوام سے سب چیزیں چھین لیں۔ اگرچہ یہ سب ٹھیک ہے یہ وہ باتیں ہیں جنہیں شہباز شریف کارل بلڈٹ سے کرکے اپنا کلیجہ تو ٹھنڈا کر گئے مگر ساتھ ہی اِنہیں یہ بھی باورکراگئے کہ جیسے یہی وہ محب وطن پاکستانی سیاستدان اور واحد ملک کے ایسے وزیراعلی ہیں جواپنی سوچ اور کام کی وجہ سے ہی خادمِ اعلی کہلانے کے صحیح حقدار ہیں۔

 

حالانکہ ہم یہاںیہ سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف کو اِس موقع پر سوئیڈن کے وزیرخارجہ کارل بلڈٹ سے یہ باتیں کرنے کے بجائے کچھ ایسی بامقصد اور ملکی مفادات سے متعلق کارآمدباتیں اور منصوبوں کے بارے میں ضرور تذکرہ کرنا چاہئے تھا جو پاکستان اور سوئیڈن کے اپنے اپنے مفادات میں ہوتیں ایسی باتیں ہرگز نہ کیں جاتیں جن کے بارے میں مندرجہ بالاسطور میں ذکر کیا جا چکا ہے اور اِسی کے ساتھ ہی اِس موقع پر ہماراخیال یہ ہے کہ مندرجہ بالا کیں گئیں باتوں سے آج کون واقف نہیں ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے اپنے چار سالہ دور ِاقتدارمیں ملک اور عوام کا کیا حشرکر کے رکھ دیا ہے اب کسی کے سامنے ایسی باتوں کا بار بار ذکر کرنے کا مطلب تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم ایسی کاہل اور سست قوم ہیں کہ اپنے حالات کو خود نہیں سدھار سکتے اگر کوئی ہماری اِس حالا ت پر ترس کھاکر اِسے ٹھیک کر دے تو ممکن ہے کہ ہماری کمسپری کچھ کم ہو کر ختم بھی ہو سکے مگر اِس کے ساتھ ساتھ ہماری اِس معاملے میں مددکرنے والے پر یہ بھی لازم ہے کہ اگر اِس نے ہماری حالاتِ زندگی بہتربنانے کے بعد اپنی امداد یا مدد بند کر دی تو ہم پھر سے اپنے حالاتِ زندگی خراب کر بیٹھیں گے اور اب آگے اِس کی مرضی کہ یہ ہمارے ساتھ قدم سے قدم ملاکر ہمارے مددکرے تو ٹھیک ورنہ ہم اپنے بارے میں پہلے ہی بتا چکے ہیںکہ ہمارے مددگار نے جہاں ہم سے ہاتھ کھینچا تو ہم پھر اسی گڑھے میں اندھے منہ جاگریں گے جہاں سے اِس نے ہمیں ترس کھا کر نکلا تھا۔

 

ہاں تو ہم بات کررہے ہیں اپنے اِن موجودہ حکمرانوں کی جنہوں نے قومی خزانے کو بھرنے کے لئے عوام کے کاندھوں اضافی ٹیکسوں کے نفاذ کی شکل میں کئی اقسام کے بوجھ ڈال دیئے ہیں تو وہیں عوام کے گلوںکو مہنگائی کی تیزچھری سے کاٹنے کے بہانے بھی ڈھونڈرکھے ہیںجس طرح گزشتہ دنوں ایک پرائیوٹ ٹی چینل نے اِس خبرکو نمایاں طور پر نشرکیا اور بعض اخبارات میں بھی یہ شائع ہوئی کہ حکومت نے موبائل فون کارڈ ری جارچ کرنے پر دو فیصد ریڈیو ٹیکس لاگو کر دیا ہے جو اِسی ماہ 17مارچ 2012سے نافذ ہو جائے گاجس کے بعد اگلے ہی روز ملکی اخبارات میں ریڈیوپاکستان کے ترجمان کے حوالے سے یہ خبر بھی شائع ہوئی جس میں انہوں نے 17مارچ2012سے موبائل فون پر ریڈیوٹیکس لاگوکرنے والی خبرکو کمراہ کن اور من گھڑت اور حقیقت کے برعکس قرار دیا اور اِسی کے ساتھ ہی ریڈیوپاکستان کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں مزید یہ بھی کہہ دیا گیا کہموبائل صارفین پر ریڈیو ٹیکس کے نفاذ سے ہمارا ریڈیو پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے موبائل کمپنیوں نے اپنے صارفین پر 2فیصد ٹیکس ازخود اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے لگایا ہے اور اپنے اِسی بیان میں ریڈیو پاکستان کے ترجمان نے اپنی سخت ناراضگی اور برہمی کا اظہارکرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ میڈیا نے بھی موبائل فون کمپنیوں کے اِس اقدام کو توڑ مروڑ کر ریڈیو ٹیکس کے طورپر پیش کیا جو کہ غلط ہے ہاں البتہ ریڈیو پاکستان کے ترجمان نے اپنے بیان میں ایک موقع پر یہ بات بھی ضرور واضح کر دی تھی کہ ریڈیولائسنس فیس کی بحالی کی تجویز بالکل الگ معاملہ ہے جس کی آئندہ بجٹ میں پارلیمنٹ سے منظوری لینی ہے۔

 

جبکہ انہوں نے ایک بار پھر سختی سے اِس بات کی تردید کی کہ ماہ مارچ سے موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے موبائل فون کارڈری جارچ کرنے پر دو فیصدریڈیو ٹیکس کے لاگو ہونے سے ریڈیو پاکستان کا کوئی تعلق نہیں ہے اِس صورتِ حال میں اب ہم عوام یہ سمجھنے پر کیا مجبور نہ ہوں گے کہ ہمارے حکمرانوں نے شائد اپنی نااہلی یا ناسمجھی کی وجہ سے دیدہ و دانستہ طور پر ملک میں موبائل فون کمپنیوں کو عوام کو بے وقوف بنا کر اِنہیں اپنا منافع کمانے کے لئے فری ہیڈ دے رکھاہے کہ یہ جس طرح سے چاہیں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر خود بھی کمائیں اور اپنی کمائی سے حصہ قومی خزانے میں بھی ڈالیں اور اپنے اِس سلسلے کو جاری رکھنے کے لئے مختلف بہانے تلاش کرتیں رہیں اِس کی پرواہ کئے بغیر کے اِس سے عوام کو کیا نقصان پہنچے گا بس یہ اپنا ہدف عوام سے ہی حاصل کریں۔

 

اِسی طرح ہمارے سامنے ایک مثال پی ٹی سی ایل کی نیٹ سروس کی بھی موجود ہے جی ہاں! پی ٹی سی ایل کے وہ صارفین جو پی ٹی سی ایل کی انٹرنیٹ سروس استعمال کررہے ہیں ماہِ جنوری 2012سے محکمہ ٹیلی فون نے اپنے انٹر نیٹ کے صارفین کے لئے ایک فیملی پیکچ متعارف کروایاہے جس کے مطابق پی ٹی سی ایل کے وہ صارفین جو انٹرنیٹ کی سہولت بھی استعمال کررہے ہیں ان کے لئے اِس نے یہ آفر دی کہ انٹرنیٹ کے وہ صارف جو4GB استعمال کررہے ہیں اوراِس مد میں ہر ماہ 1999روپے علاوہ فون کال چارجز اپنے بل کے ساتھ اداکررہے ہیں ان کے لئے2400روپے بشمول انٹرنیٹ اورلائن رینٹ کے اب یہ سہولت ہے کہ وہ اِس فیملی پیکچ کے حصو ل کے بعد ہی سے750 منٹ ہر ماہ ملک بھر میں مفت لوکل کال کرسکیں گے علاوہ موبائل چارجزکے اور جب یہ مفت کال کی حد ختم ہو جائے گی تو پھر اِس کے اوپر جوکالیں ہوگیں ان کا بل لگ کر آئے گا ہم نے بھی یہ سہولت اسلام آباد سے ایک متحرمہ کی آنے والی ایک فون کال پر حاصل کر لی اور بے فکر ہو کر اِس سہولت سے مستفید ہوتے رہے۔

 

مگر رواں ماہ جب ایک روز ماہ فروری 2012کا ٹیلی فون کا بل ہمارے ہاتھ لگا تو ہم اِسے دیکھ کر دنگ رہ گئے ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ہمارے پیروں سے زمین نکل گئی اور آنکھوںکے آگے اندھیرا چھا گیا اور منہ سے بے ساختہ یہ جملہ نکالا کہ اف میرے اللہ یہ کیا ہو گیا اپنی حیرانی کیفیت سے جب ہم نکلے اور ذرا سنبھلے تو ہم نے یہ دیکھا کہ اِس ٹیلی فون بل پر کہیں بھی 2400روپے لکھے ہوئے نظر ہمیں نہیں آئے جہاں 2400روپے لکھے ہونے تھے وہاں 3570روپے لکھے ہوئے ملے اور بل کی ادئیگی کی مدت گزر جانے پر 3750روپے لکھے ہوئے نظرآئے اِس منہ توڑ ، سینہ زور اور سرپھوڑ مہنگائی کے عالم میں ہم جیسے ہینڈ تو ماوتھ کمانے والے غریب آدمی کے ساتھ یہ بل کسی قیامت سے ہرگز کوئی کم نہ تھا اور جب ہمارے ایسے حکمران ہوں جو ملک کے غریبوں پر مہنگائی کے طوفان نازل کرنے کے لئے طرح طرح کے بہانے تلاش کررہے ہوں تو پھر یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم ایسے میں خود کو زندہ رکھنے کے لئے کچھ کریں یوں پھر اِس بل کو ہاتھ میں تھام کر ہم نے جب 1236پر رابطہ کیا تو اِس نمبر پر بیٹھے ایک صاحب نے ہماری شکایت سننے کے بعد ہم سے انتہائی غصے کے ساتھ گویا کہ انہوں نے ہمیں تپ کر یہ کہا کہ اگرہم آپ کو یہ سہولت سبز باغ دکھا کر نہ دیتے تو کیا آپ لیتے جناب ہم بزنس کرنے بیٹھے ہیں کوئی یہ نہیں چاہئے گا کہ اپناکاروبار ٹھپ کرد ے ٹھیک آپ کی شکایت درج کر لی ہے اور اب آئندہ یعنی ماہ ِ اپریل 2012سے آپ کا وہی سابقہ پیکچ بحال کر دیا جائے گا جیسا تھا مگر جناب یہ ضرور یاد رہے کہ آپ کو ماہ فرروی اورمارچ 2012کے بل اتنے ہی ادا کرنا ہو گے جتنے آئیں گے۔ اب ایسے میں ہم کیا یہ نہ تصور کریں کے ہمارے حکمرانوں نے اپنے چار سالہ دورِ اقتدار میں عوام کو مہنگائی کے ہاتھوں مارنے کے لئے کس کس طرح کے حربے استعمال کرنے شروع کر دیئے ہیں جنہیں دیکھ کر عوام اِن سے جلد از جلد نجات کے لئے اپنے دامن اٹھا اٹھا کر رب ِ کائنات سے دعائیں مانگ رہے ہیں۔

 

آج وہ تو اچھا ہوا کہ میرے ملک کے شہرکراچی سمیت اکثر بڑے شہروں میں دودھ کی قیمت جہاں ہے وہیں رہ گئی ہے ورنہ تو ایک ایسی خبر پیرس سے آئی ہے اِس کی ذرا سی بھی اگر بھنک ہمارے ملک کے ڈیری فارم والوںکو ہو گئی تو یہ اِس پر بھی اپنا ہوم روک مکمل کرکے دودھ کے صارفین پر کوئی نہ کوئی پہاڑ ضرور گرا دیں گے خبر یہ ہے کہ دنیا بھر کی ڈیری فارم گائیں منفرد جوکونامی بیل کے مرنے پر اداس ہو گئیں ہیں جو اپنے چلے جانے کے بعد چار لاکھ سے زائد مویشیوں کو پیچھے چھوڑ گیا ہے اِس جوکونامی بیل کی خاصیت یہ تھی کہ یہ دنیامیں تیسرے نمبر کا ایک ایسا بیل تھا جو بریڈنگ کے لئے سب سے قوی سمجھا جاتا تھا اِس خبر کو پڑھنے کے بعد ہم اِس نتیجے پر پہنچے کہ اگر یہ بیل ہمارے یہاں ہوتایا کسی وجہ سے ہماری سرزمین پر آکر مر جاتا ہے تو ہمیں اِس بات کا پورا پورا یقین ہے کہ ہمارے ملک کے ڈیری فارم والے جہاں اِس کے مرنے کا غم کرتے سوکرتے مگر اِس کے مرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے یہ لوگ ملک میں دودھ کی قلت کا مصنوعی بحران پیداضرورکردیتے اور کہتے کہ دودھ کا بحران ملک میں اِس لئے آ گیا ہے کہ جوکو نامی بیل کے مرنے پر بھیسیں اور گائیں اور بہت سے مویشی اداس ہیں اِس لئے ملک میں دودھ کی کمی ہو گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں اِس کمی کے پوراہونے تک دودھ کی قیمتوں میں فی کلو 10روپے کا اضافہ کرناناگزیر ہوگیاہے ورنہ ہم مویشیوںکی اداسی ختم ہونے تک دودھ کی کمی کو پورانہیں کرسکتے ہیںاور ڈیر ی فارم والوںکے اِس جواز پر ہمارے حکمران خاموشی سے اِن کے ہر مطالبے کو مان جاتے اور اِس طرح ملک بھر میں دودھ اور دہی کی قیمتوں میں 10روپے فی کلو کا بلاجواز اضافہ ایک جوکونامی بیل کے مرنے پر کردیاجاتا۔مگر پھر بھی ہم اپنے ملک کے ڈیری فارم کے کرتادھرتاو ں سے اب بھی ناامید نہیں ہیں ہمیں یقین ہے کہ اِس جانب جب بھی اِن کا خیال گیایا اِنہوں نے ہمارایہ کالم پڑھا یا کسی سے سناتو یہ ملک بھر میں دودھ کی قیمتیں بڑھانے یا کم ازکم شہر کراچی والے تو اِس معاملے کو اچھال کر دودھ کی قیمت میںمنہ مانگااضافہ کرانے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔

 

اب اِسی طرح بھارت سے ایک خبر یہ آئی ہے کہ بھارتی مردم شماری رپورٹ میں یہ بتایاگیاہے کہ ایک ارب 35کروڑ والی آبادی والے ملک میں کے زیادہ ترگھروں میں ٹوائلٹ سے زیادہ موبائل فونز ہیںیہاں ہم یہ سمجھتے ہیں یہ تو بھارت ہے جس کے حکمران اِس معاملے کو سنجیدگی سے نہیںلے رہے ہیں اگر ایسی ہی کچھ صورت حال ہمارے ملک پاکستان کی ہوتی جہاں ٹوائلٹ کم اور موبائل فونز زیادہ ہوتے تو ہم اِس یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے حکمران ملک میں ٹوائلٹ ٹیکس کا نفاذ ضرور کردیتے چاہئے یہ ملک میں اِ س ٹیکس سے ملنے والی آمدنی کے بعد ٹوائلٹ تعمیر کرواتے یانہ کرواتے مگر عوام پر ٹوائلٹ ٹیکس کا بھی ضرور بوجھ ڈال دیتے اور ہمارے عوام بھی اِس ٹیکس کے نفاذ کے بعد خاموشی سے اِس ٹیکس کی ادائیگی کررہے ہوتے وہ تو اللہ کابڑاکرم ہے کہ آج ہمارے ملک میں موبائل سے زیادہ ٹوائلٹ اور بہت سی ایسی آشائش زندگی کی فراوانی ہے جن سے آج تک ایک ارب 35کروڑ والے ملک بھارت کے لوگ محروم ہیںوہ تو اچھا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی عوام سے نفرت اوراِن کی ٹیکس کے نفاذ سے محبت کی پالیسی ہے کہ یہ ہم پر ٹیکس کے فوری نفاذ اور اِس طرح عوام کو لوٹنے کے مختلف بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں ہمارے حکمران ٹیکس کے نفاذ میں بھارتی حکمرانوں سے آگے ہیں اب ایسے میں ہم بھارتی حکمرانوں کواپنایہ مشورہ ضروردیناچاہیں گے کہ یہ جس قدر جلد ممکن ہوسکے وہ اپنے ملک ٹوائلٹ ٹیکس کا نفاذکرکے اپنے یہاں زیادہ سے زیادہ ٹوائلٹ تعمیر کروائیں خدانخواستہ کبھی پاک بھارت بگاڑ کی صورت پیداہوگئی تو ایسے میں اِن کے عوام کہاں بھاگتے پھریں گے تو اِس کیفیت سے اپنے عوام کو بچانے کے لئے بہت ضروری ہے کہ بھارتی حکمران اپنے یہاں ٹوائلٹ ٹیکس کا فوری نفاذکرکے اپنے ملک میں موبائل فونز سے زیادہ ٹوائلٹ کی تعداد بڑھانے کا انتظام کریں۔
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم