فینلن کا کہنا ہے کہ ” میں اپنی مادرِ وطن کو اپنے خاندان سے زیادہ چاہتا ہوں لیکن نسلِ انسانی کے لئے میری محبت اپنی مادرِ وطن سے بھی کہیں زیادہ ہے جس کو میں خود بھی ٹھیک طرح سے بیان نہیں کرسکتاہوں کہ مجھے نسلِ انسانی سے اپنی مادرِ وطن سے بھی کہیں زیادہ شدی دمحبت کیوں ہے” یہ تو فینلن کا اپنا جذبہ تھاجو رہیتی دنیاتک اُن انسانوں کے لئے مشعلِ راہ رہے گاجو بلاکسی رنگ و نسل اور زبان و مذہب انسانیت کے فلاح و بہود کے لئے پیش پیش رہتے ہیں مگرکیا فینلن کا یہ قول ہمارے ملک کے اِن حکمرانوں اورسیاستدانوں کے نزدیک بھی کوئی حیثیت رکھتاہے…؟ جو عوام کے ووٹوں کی بھیک سے مادرِوطن اور اپنی عوام سے محبت کا جذبہ لے کراقتدار کی کنجی توسنبھالتے ہیں مگریہ اِس کے بعدعوام کو بھول کر اپنے مفادات کے لئے آخری دم تک لڑتے مرتے ہی رہتے ہیں ۔
جیسے اِن دنوں حکمرانوں نے عدلیہ سے پنچہ آزمائی کرکے اپنے لئے ایک محاذ کھول لیا ہے اور ٹائم پاس کررہے ہیں ایسے میں یہ اپنے عوا م کو بھول چکے ہیں اور سینہ زوری سے جمہوریت کو بچانے اور اِس کی پوجامیں لگے پڑے ہیں بھلے سے اِنہیں ووٹ دینے والے غریب مریں تو مریں اِس سے اِنہیں کوئی غرض نہیں ہے بس اِن کی کوشش یہ ہے کہ اِن کے رہتے ہوئے جمہوریت کو کچھ نہ ہو اور یہی تو وہ ہیں جو آج ایوانوں میں بیٹھ کرپارلیمنٹ کے اختیارات میں دراندازی قبول نہ کرنے جیسے بیانات داغ کر اپنی سیاسی دُکان چمکانے اور عدلیہ سے اُلجھنے کا سامان کررہے ہیں جو اِن کے حق میں کسی بھی طور پر بہتر نہیں ہے۔
جبکہ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت ٹائم پاس کی پالیسی پر عمل پیرارہ کر اداروں سے الجھنے میں مصروف ہے اور خود غرضی کے خول میں بند رہ کراپنے اقتدار کے آخری لمحات سے گزررہی ہے او رشائدیہی وجہ ہے کہ یہ جہاں خودساختہ خوش فہمیوںمیں مبتلاہے تو وہیں انگنت اُمورمملکت کے لحاظ سے بھی کئی معاملات میں بوکھلاہٹ کا شکار نظرآتی ہے آج اِن ہی ملی جلی کیفیات میں گرفتار رہ کراِس نے ملک میں لوٹ کی سیل لگادی ہے جہاں اِس سے منسلک ہر شعبہ اور ہر فرداِس سے مستفید ہورہاہے یہ تو ہماراخیال ہے ممکن ہے آپ بھی ہی ایساسمجھ رہے ہوں یا نہیںبھی…؟ مگرپھر بھی ہم آ پ کو مجبور تو نہیں کریں گے کہ آپ بھی ایسا ہی سوچیں یا خیال کریں …؟جیساہم سوچ رہے ہیں مگراِس کے باوجود بھی ہم آپ کو اتناضرور کہیں گے کہ اگر آ پ کو ذرابھی وقت ملے تو براہِ کرم اِس جانب ضرور توجہ دیجئے گا کہ ہماراجو خیال ہے کیا وہ ٹھیک ہے …؟اوراِن حالات میںآج اگر ہم یہ سوچ رہے ہیں تو آپ کیا سمجھ رہے ہیں کہ ہم یہ غلط سوچ رہے ہیں…؟ کہ ہماری موجودہ حکومت نے اپنے اختتام کے آخری لمحات میںلوٹ بازار ی کا بازار گرم کرنے کے لئے ملک کے طول و ارض میں لوٹ سیل لگادی ہے۔
parliament
ہمیں اِس بات کا پورا یقین ہے کہ آپ نے جب بھی وقت نکالا اور ہماری بات پر غورو خوص کیا تو یقیناََ آپ بھی ہماری بات سے ضرور متفق ہوجائیں گے کہ ”ہماری موجودہ حکومت نے اپنے آخری لمحا ت میں اپنے پرائے سب کو اپنے ساتھ ملانے اور اِنہیں خوش رکھنے کے لئے ملک کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں ایسی لوٹ کی سیل لگا دی ہے جس سے اِس سے بغلگیرہونے والے ہی مستفید ہو رہے ہیں اور اپنی اپنی خواہشات کے عین مطابق اپنے اپنے من کی مرادیں پارہے ہیں تووہیں اپنے دامن بھی بھررہے ہیں آج عوام کے ووٹوں کی بھیک سے پارلیمنٹ کی دہلیز پہ قدم رکھ کر اِس کے ٹھنڈے ٹھنڈے کمرے کے فرش پر پڑے دبیز قالین اور اِس پرپڑی نرم ملائم کرسیوں پر بیٹھنے والے اراکینِ پارلیمنٹ، ایوان کو تو مقدم جان رہے ہیںمگر اُن لوگوں کی حیثیت کیڑے مکوڑوں جتنی بھی دینے کو قطعاََ تیار دکھائی نہیں دے رہے ہیں ۔
جن کے ووٹوں کی طاقت سے اِنہوں نے اپنے قدم ایوانوں میں رنجافرمائے ہیں اراکین پارلیمنٹ کے رویوں نے آج عوام کویقینا یہ سوچنے اور سمجھنے پر مجبورکردیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں اِسے کیا کرنا ہے…؟ اور یہ اپنے حلقے کے اُمیدواروں کے ساتھ کیساسلوک برتے …؟کہ جس کے بعد اِسے پچھتاؤے کا منہ نہ دیکھناپڑے جیساکہ اِن دنوں دیکھناپڑرہاہے شائد ایسے ہی وقت کے لئے کہاجاتاہے کہ جب اہلِ اقتدار اپنے لوگوں کو نظراندازکردیتے ہیں اور اپنے اپنے مفادات میں پڑجاتے ہیں تو پھر معاشرے میںدُکھ ، افلاس اور ظلم و جبرکا دوردورہ ہوجاتاہے ایساہی کچھ حال ہمارے ملک میں قائم ہر معاشرے کا ہوگیاہے جہاں ہر فردقدیم زمانے کے انسانوں جیسی زندگی گزار رہاہے اور اپنی بنیادی سہولتوں سے محروم رہ کر مایوسیوں اور نامحرومیوں کے دلدل میں دھنستاچلاجارہا ہے اِسے یہاں تک پہنچانے والے ہمارے حکمران، سیاستدان اور یہی اراکین پارلیمنٹ تو ہیں جو ایوانوں میں پہنچ کر عوام کو نظرانداز کردیتے ہیں اور اپنے اپنے مفادات کے لئے ایسی ایسی قانون سازی کرتے ہیں کہ جن کا فائدہ اِنہیں ہی پہنچتا ہے جیساکہ اِن دنوں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے یہی اراکین پارلیمنٹ اور حکمران ایسی قانون سازی میںمصروفِ عمل ہیں جس کا فائدہ صرف اِنہیںہی پہنچے گااوریہ اِسی طرہ کو سر پر سجاکرسارے ملک میں گھومتے پھریں گے اور آئندہ عام انتخابات میں اِسے ہی دِکھاکر عوام سے ووٹ لینے کی کوششیں کریں گے۔
Asif ali zardari
اِس پر اَب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے عوام جو موجودہ حکمرانوں، سیاستدانوں اور اپوزیشن والوں کی نااہلی اور اِن کے سیاسی حربوں کی وجہ سے بجلی ، گیس، پانی، خوراک ، تعلیم ، علاج ومعالجہ اور سفری سہولت سے محرو م ہے مگر کرپشن، لوٹ مار، قتل وغارت گری اور اقرباپروی جیسے ناسور میں جکڑے جاچکے ہیں کیایہ ملک میں آئندہ ہونے والے عام انتخابات میں اِس پارٹی کے اُمیدواروں کو پھر ووٹ دے کر اِنہیں ایوانوں میں پہنچائیں گے جنہوں نے اِنہیں محرومیوں اور مایوسیوں کے سمندر میں دھکیل دیاہے اور اِنہیں یہاں سے نکالنے کے بجائے قومی خزانے کو لوٹ رہے ہیں اور سارے ملک میں لوٹ کی سیل لگادی ہے اور اَب آخر میں ہم اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے اپنے عوام کے ساتھ روارکھے گئے غیر اخلاقی اور اِن کے غیر ذمہ دارانہ رویوں پر عبدالستار ایدھی کے اِس قول کو بیان کرکے اجازت چاہیں گے کہ”اِنسانیت کے کی مددنہ کرنے والے انسان کہلانے کے مستحق نہیں”یعنی ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ انسانیت سے تعلق رکھے اور اپنے آپ کو جو لوگ انسانیت سے تعلق مضبوط رکھتے ہیں وہی انسان کہلانے کے مستحق ہیںیہ نہیں جیسے ہمارے حکمران اورموجودہ سیاستدان ہیں جنہوں نے اپنے مفادات کے خاطر اپنے فرائض سے منہ موڑ کرعوام کو مسائل چکی میں پیس کر ملک میں ہر شعبے میں لوٹ کی سیل لگادی ہے۔ تحریر: محمداعظم عظیم اعظم