خالد حسن سنہ 1934 میں سری نگر میں پیدا ہوئے۔ سنہ 1948 میں خالد حسن نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ خالد حسن نے غلام عباس کی کہانیوں کے ترجمے بھی کیے۔ صحافت کا ماحول انھیں خوب راس آیا۔
خالد حسن نے سکول کی تعلیم جموں میں حاصل کی جہاں ان کے والد ڈاکٹر نور حسین محکمہ صحت میں ڈپٹی ڈائریکٹر تھے۔ خالد ابھی نویں جماعت میں تھے کہ تقسیم کا ہنگامہ اور کشمیر کی جنگ شروع ہوگئی۔ ان کا خاندان بمشکل جان بچا کر سیالکوٹ پہنچنے میں کامیاب ہوا جہاں سنہ 1948 میں خالد حسن نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔
انھوں نے انیس سال کی عمر میں مرے کالج سیالکوٹ سے ایم اے انگریزی کر لیا اور جب اسلامیہ کالج لاہور میں انگریزی پڑھانی شروع کی تو اپنے کئی شاگردوں کو عمر میں خود سے بڑا پایا۔ بعد میں وہ مرے کالج سیالکوٹ اور لارنس کالج گھوڑا گلی میں بھی انگریزی زبان و ادب کی تدریس سے وابستہ رہے۔
سن پچاس کی دہائی میں وہ مقابلے کا امتحان دے کر انکم ٹیکس افسر بن گئے لیکن بقول خود نہ تو مجھے اس کام سے دلچسپی تھی اور نہ ہی پیسہ اینٹھنے کا شوق تھا۔ چنانچہ جلد ہی اس ملازمت سے کنارہ کش ہو گئے۔
بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ سنہ 1960 کے لگ بھگ ریڈیو پاکستان کی اصلاح اور تنظیمِ نو کے لیے جو براڈ کاسٹنگ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، خالد حسن اس کے سیکرٹری تھے۔ لکھنے لکھانے کا آغاز 1967 میں ہوا جب انھوں نے آئی ایچ برنی کے رسالےآٹ لک میں کالم نگاری شروع کی۔
صحافت کا ماحول انھیں خوب راس آیا اور اسی زمانے میں انھوں نے انگریزی روزنامے پاکستان ٹائمز میں سینئر رپورٹر کی ملازمت اختیار کر لی اور ہفتہ وار کالم OF THIS AND THAT بھی لکھنا شروع کر دیا۔
اس کالم میں ہلکا پھلکا انداز اختیار کر کے اِدھر ادھر کی باتیں کرنے کا جو ڈھنگ انھوں نے اپنایا وہ بعد میں ان کی صحافیانہ تحریروں کا طرہ امتیاز بنا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں طنز کی کاٹ بھی شامل ہوتی گئی۔
صحافیانہ زندگی کی ابتدا ہی میں انگریزی کالموں کے دو مجموعے A mugs game اور The Crocodiles are here to swim منظرِ عام پر آگئے تھے۔1972کے آغاز میں خالد حسن ایک ایسے دلحسپ عہدے پر فائز ہوئے جس کی خوشگوار یادیں آخری دِنوں تک انکے ساتھ رہیں اور جن کا ذکر وہ دوستانہ محفلوں کے علاوہ اپنے کالموں میں بھی کرتے رہے۔
بھٹو صاحب اس وقت پاکستان کے صدر تھے۔ حامد جلال کے ساتھ مِل کر خالد حسن نے بھٹو صاحب کی جا بجا بکھری ہوئی تحریروں کو جمع کرنا شروع کیا اور تین ضخیم جلدوں کی شکل میں ان تحریروں کو مرتب کیا۔
فارن سروس میں شامل ہونے کے بعد وہ پانچ برس تک پیرس، اوٹاوہ اور لندن میں کام کرتے رہے لیکن 1977 میں ضیاء الحق کا مارشل لا لگا تو انھوں نے لندن میں پریس کونسلر کے عہدے سے احتجاجا استعفیٰ دے دیا اور لندن ہی میں تھرڈ ورلڈ فانڈیشن کے رسالے ساتھ کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر بن گئے۔ 1979 سے 1990 تک وہ ویانا میں، تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کی نیوز ایجنسی کے ایڈیٹر رہے۔
ملازمت کی زندگی میں یہ ان کا خوشحال ترین دور تھا جب معمولی سی محنت کے عوض انھیں بہت بڑی تنخواہ اور اضافی سہولتیں میسر تھیں۔ خوشحالی اور فارغ البالی کے انہی ایام میں خالد حسن نے اردو کے بہت سے ادبی شہ پاروں کا مطالعہ کیا اور سعادت حسن منٹو کی کہانیوں کا انگریزی ترجمہ کرنے پر کمر بستہ ہوگئے۔ ترجموں کا یہ سلسلہ کئی برس تک جاری رہا۔
کہانیوں کے علاوہ انھوں نے منٹو کے لکھے ہوئے شخصی خاکوں اور منٹو کے مضامین کو بھی انگریزی ترجموں کے ذریعے مغربی دنیا میں روشناس کرایا۔ِ ان کہانیوں، خاکوں اور مضامین کو 2001 میں اسلام آباد کے اشاعتی ادارے الحمرا نے ایک ضخیم جلد میں یکجا کر دیا جس کا عنوان تھا: A Wet Afternoon۔
خالد حسن نے غلام عباس کی کہانیوں کے ترجمے بھی کیے اورجموں جو ایک شہر تھا کے نام سے اردو میں ایک کتاب بھی مرتب کی جس میں اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کیا۔ اردو شعر و ادب سے خالد حسن کی دلچسپی بہت نو عمری میں شروع ہوگئی تھی کیونکہ ان کے والد ڈاکٹر نور حسین اردو اور فارسی کی شاعری کا گہرا شغف رکھتے تھے۔ ان کے ذاتی دوستوں میں ایم ۔
ڈی تاثیر، فیض احمد فیض، حفیظ جالندھری، جوش ملیح آبادی اور جعفر علی اثر جیسی قدآور شخصیات شامل تھیں۔ یہ لوگ جب بھی کشمیر آتے ڈاکٹر نور حسین کے گھر پہ قیام کرتے جہاں شعر و سخن کی محفلیں جمتیں۔ خالد حسن کا بچپن اور نوجوانی اسی علمی و ادبی ماحول میں گزری۔
خالد حسن کی انگریزی کتابوں میں Score card،Rear view mirror، Give us back our onions،The empire strikes back،Private view، The fourth estate، Return of onion، Question time، The tragedy of Afghanistan اور The terrorist prince شامل ہیں۔
خالد حسن کی زندگی کا بہت سا حصہ یورپ اور امریکہ میں گزرا لیکن انھوں نہ کسی زمانے میں بھی وطن سے رابطہ منقطع نہیں کیا۔ سن ستر کے عشرے میں وہ بیرونِ ملک سے لاہور کے ہفت روزے ویو پوائنٹ کے لیے کالم بھجتے رہے۔ اس کے بعد وہ نیشن، دی نیوز اور ڈان کے لیے بھی لکھتے رہے۔ 6 فروری 2009 کو ورجینا امریکہ میں ان کا انتقال ہوا۔