کرکٹ دنیا کا مشہور ترین کھیل ہے۔ براعظم ایشیا کو اعزاز حاصل ہے کہ ساتوں براعظم میں سب سے زیادہ کرکٹ کھیلنے والے ممالک ایشیا میں ہیں۔ سری لنکا، بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان وہ ممالک ہیں جو ایشیا کی نمائندگی کررہے ہیں۔ 2014 میں افغانستان کو بھی ایشیا کپ میں نمائندگی کرنے کا حق دے دیا گیا ہے۔
ایشیا کپ سے پہلے بگ تھری نے کرکٹ کی دنیا میں ہلچل مچا دی اور اس ہلچل میں پاکستان کرکٹ کی دنیا میں تنہاہوگیا تھا۔ اب جب 2014 کا ایشیا کپ شروع ہوا تو پاکستان کی ٹیم کا مقابلہ بگ تھری کے باس اور اسکے پٹھوؤں سے تھا۔پاکستان کا ابتدائی میچ سری لنکا سے تھا جو پاکستان ہار گیا۔ اس کے بعد پاکستان کا اگلا میچ بگ تھری کے باس سے تھا جو اپنے نشے میں مست ہاتھی کی طرح تھا۔یہ میچ انڈیا سے ہی نہیں بلکہ ایمپائروں سے بھی تھا جو اپنی ناقص ایمپائرنگ سے انڈیا کا فائدہ دے رہے تھے۔ اس اعصاب شکن میچ میں عوام کے دلوں کی دھڑکن کبھی کم اور کبھی تیز ہوتی رہی ہے۔ بظاہر یہ میچ پاکستان جیت رہا تھا پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ میچ پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ انڈیا ویسے تو اپنے ملک سے باہر کھیل رہا تھا مگر محسوس ایسا ہورہا تھا جیسے اپنی ہی سرزمین پر کھیل رہا ہے۔ میچ کا آخری آوور اور آخری وکٹ پر دس رنز بنانا ناممکن تونہیں مگر مشکل ضرور تھا۔ اس وقت ایک ایسا پلئیروکٹ پر موجود تھا جو کچھ بھی کرسکتا ہے ۔ اس نے صرف دوگیندوں پردس رنز بنا کر بھارت کی جیت کو پاکستان کے قدموں میں ڈال دیا۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا کہ اس کھلاڑی نے یہ کام کرکے کے دکھایا ہے ۔یہ تو اکثر ایسی اننگز کھیلنے کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ اس کے نام تیز ترین اننگز کھیلنے کے کئی ریکارڈ ہیں۔ قوم جس کی پٹھا ن ہو وہ کیسے اپنے دشمن کو معاف کرسکتا ہے۔ میرا خیال ہے اب تو ہر بندہ یہ سمجھ گیا ہوگا کہ میں کس کا ذکر کررہا ہوں۔ جی شاہد آفریدی کا نام دنیا کے بہترین آل راؤنڈرز میںشمارہوتاہے۔ ان کا پورا نام صاحبزادہ محمد شاہد خان آفریدی ہے۔ آفریدی یکم مارچ 1980 میں کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ 1996 میں کرکٹ کی دنیا میں قدم رکھنے والے آفریدی بوم بوم آفریدی کے نام سے دنیا بھر میں پہچانے جاتے ہیں۔ ان کو اس نام کا اعزازبھارت کے معروف کرکٹر اور کمنٹیٹر راوی شاستری نے بخشا۔
Afridi
آفریدی اپنی جارحانہ بلے بازی کی بدولت پوری دنیا میں پہچانے جاتے ہیںاور اسی بدولت سب سے زیادہ چھکوں کا اورسب سے بہترین اسٹرائیک ریٹ کا ریکارڈ اپنے نام کر چکے ہیں۔ شاہد آفریدی نے کرکٹ میں قدم اکتوبر 1996 میں صرف سولہ سال کی عمر میں رکھا جب ان کو مشتاق احمد کی جگہ لیگ اسپنر کے طور پر کھلایا گیا اور جلد ہی اپنی تیز بلے بازی کی وجہ سے دنیا میں جانے لگے۔ انہوں نے اپنی پہلی ہی اننگز میں ایک روزہ کرکٹ کی تیز ترین سنچری بنا ڈالی جب انہوں نے 4 اکتوبر، 1996 میں سری لنکا کے خلاف صرف 37 گیندوں کی مدد سے 102 رنز بنائے۔ یہ ریکارڈ اب قائم نہیں ہے۔
شاہد خان آفریدی بزرگ، جوان ،بچوں اور خاص طور پر لڑکیوں کے دل کی دھڑکن ہیں۔آفریدی نے جو اننگز انڈیا کے خلاف کھیلی وہ مدتوں یاد رکھی جائے گی کیونکہ وہ انڈیا جو کرکٹ کو اپنی مٹھی میں بند کرتا چاہتا ہے اس کو منہ کے بل گرانے میں اہم کردار آفریدی کا ہے۔ ابھی پاکستانیوں کے منہ سے پاک بھارت کے میچ کا تذکرہ ختم نہیں ہوا تھا کہ آفریدی نے پاک بھارت میچ کے ایک دن بعد ایک اور ایسا کارنامہ انجام دے دیا کہ لوگ پاک بھارت کے میچ کو بھو ل گئے۔ پاکستان کا ایشیا کپ کے راؤنڈ میچ میںآخری میچ بنگلہ دیش سے تھا۔ ہوم گراؤنڈاور ہوم کراؤڈ کا فائدہ لیکر بنگلہ دیش کی ٹیم میدان میں اتری۔ بنگال کے جادوگروں نے پاکستان کے باؤلر ز پرایسا جادو کیا کہ جو باؤلرز دنیا کے بڑے بڑے بیٹسمینوں کو رنز نہیں بنانے دیتے تھے وہ بنگلہ دیشی بیٹسمینوں کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔میر پور کے سٹیڈیم میں بنگالی ٹائیگروں نے 326رنز کا پہاڑ کھڑا کردیا۔جس پرتمام تبصرہ نگار وںکا کہنا تھاکہ کہ پاکستان یہ میچ نہیں جیت سکتا۔ شروع میں تو ایسا محسو س ہوا کہ پاکستان واقعی یہ میچ نہیں جیتے گا کیونکہ پاکستانی بیٹسمینوں کاحسب عادت آنا جانا لگارہامگر احمد شہزاد اور فواد عالم نے وکٹ روک کرپاکستا ن کی بری شکست کو قدرے بہتر انداز کی شکست کے قابل بنا دیا تھا۔
پھر وہ وقت آیا جس کا ہر پاکستانی کو شدت سے انتظار تھا جب شاہد خان آفریدی کو بیٹنگ کے لیے بھیجا گیا اس وقت کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ پاکستان یہ میچ جیت جائے گا۔ تقریباً ہر گیند پر دورنز درکارتھے یعنی 49 گیندوں پر 90 سے زائد رنز درکار تھے۔ بنگالی عوام اپنی جیت کا جشن منانے کے لیے تیار ہورہی تھی مگر انہیں کیا معلوم سرپھرا پٹھان کون سی نسوار منہ میں رکھ کر آیا ہے۔ پہلی گیند کھیلتے ہی آفریدی نے اپنے عزائم دکھا دیے اور پھر اس نے ثابت کردیا کہ پٹھان دوست کی دوستی اور دشمن کی دشمنی کیسے نبھاتا ہے۔ آفریدی نے گراؤنڈ کے چاروں طرف وہ شاندار اسٹروکس کھیلے کہ ناقدین کے منہ بند کر ہوگئے۔ آفریدی کو ذرا ترس نہ آیا کہ بنگالی بچیاں کیسے رورہی ہیںاور وہ انکی عزت خاک میں ملاکر چلتا بنا۔
دونوں کی میچوں کی مشترک بات کہ دونوں پاکستان کے دوست نما دشمن ممالک ہیں۔جنہوں نے ہمیشہ پاکستان کو نیچا دکھانا کے کوشش کی۔پھر ان دونوں ممالک کا ساتھ ایمپائروں کا بہت زیادہ دیا۔ بنگلہ دیش کے میچ میں ایمپائروں نے جب آفریدی ان فٹ ہو گیا تو رنر نہ دیکر ثابت کردیا کہ وہ جانبداری دکھا رہے ہیںمگر آفریدی نے بنگال کے جادو، ایمپائر کے سہارے اور تبصرے نگاروں کے تبصرو کو روندتے ہوئے شکست کو پاکستان کی فتح میں بدل دیا اور پاکستان کی عوام کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ خان لالا نے دشمنوں کی لالا کرادی۔
Aqeel Khan
تحریر: عقیل خان آف جمبر aqeelkhancolumnist@gmail.com